نوجوان بے چین ہیں
کچھ لوگ زندہ رہنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں تو کچھ لوگ زندگی چھیننے کے لیے دن رات نئے نئے ...
کچھ لوگ زندہ رہنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں تو کچھ لوگ زندگی چھیننے کے لیے دن رات نئے نئے حربے تلاش کر رہے ہیں۔ فی الحال یہ سب یک طرفہ معاملہ ہے کیونکہ زندگی چھیننے والے کامیاب ہیں اور زندگی بچانے والے ناکام۔ جدید ترین اسلحہ اور ایٹم بم کی طاقت سے مسلح فوج ابھی تک اوپر کے حکم کے انتظار میں ہے اور ملک بھر کے علماء نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی ایکشن تباہ کن ثابت ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں پھر کیا کیا جائے، یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔
حکمران دہشت گردی کے شکار ہونے والے فی شخص اوسطاً پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کرتے ہیں اور کوئی دن نہیں جاتا کہ ایسی کوئی لاکھوں والی بھیانک واردات نہ ہو جائے۔ ہمارے وزراء غیر معمولی سیکیورٹی کے حصار میں زندہ اور محفوظ رہ کر مالی امداد کا اعلان کرتے ہیں۔ اب تک کسی بڑے نے جاں بحق ہونے والوں میں اپنا اسم گرامی نہیں لکھوایا، یہ سب محفوظ ہیں اور خدا کرے وہ محفوظ ہی رہیں ورنہ ہمارے لیے اس پس مرگ مالی امداد کا اعلان کون کرے گا۔ ہم تو لا وارث اور بھوکے ہی مر جائیں گے۔ مرنا تو برحق ہے لیکن کوئی لاش کو سائے میں رکھنے والا تو ہو۔ بہر حال اس کے باوجود کراچی سے لاہور تک جشن برپا ہے آنے والی بہار کے بھرپور استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے نوجوان زندہ ہیں اور سرگرم۔
لاہور میں انھوں نے قومی پرچم بنانے کے لیے بہت بڑا اجتماع کیا اتنا بڑا کہ اس سے پہلے اتنا بڑا انسانی پرچم نہیں بنایا جا سکا۔ سابقہ مشرقی پاکستان جسے اب بنگلہ دیش کہا جاتا ہے اس کے نوجوانوں نے بھی ایسا مظاہرہ کیا تھا لیکن ہم مغربی پاکستان والے ان سے بڑھ گئے اور عالمی ریکارڈ رکھنے والے ادارے نے ہمیں پہلا نمبر دے دیا یعنی پاکستان سے پاکستان کا مقابلہ تھا اور ایک جیت گیا۔ سندھ کے جشن کا اختتام بھی انھی دنوں ہوا ہے۔ بختاور بھٹو نے انگریزی میں اختتامی خطاب کیا اور ان کے بھائی بلاول نے رٹا لگائی ہوئی، اردو تقریر سے افتتاح کیا۔ اس سے پہلے اس دھرتی میں جسے باب الاسلام کہا جاتا ہے، راجہ داہر وغیرہ کے عہد کو زندہ کیا گیا۔ اس میلے کی ابتدائی یعنی پہلی تقریب بڑی نظر نواز لگی لیکن افسوس اسے بعد میں دہرایا نہیں گیا۔
اس کے جواب میں پنجاب والے سبز جھنڈے بناتے رہے جو پاکستان کی تاریخ بیان کر رہے تھے۔ بہر کیف دونوں میلوں ٹھیلوں میں بڑا حصہ نوجوانوں کا تھا اور میری طویل صحافتی زندگی میں پہلی بار ملک کے نوجوان بھی کچھ کہہ رہے ہیں۔ اپنی بات کر رہے ہیں، جوانوں کی بات ان کی جوان آوازوں میں کچھ گھبراہٹ سی ہے ذرا سی کپکپی بھی مگر وہ توانائی نہیں جو ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کے عزم میں ہوا کرتی ہے۔ یہ نوجوان برقی پیغامات کے ذریعے جہاں ایک بات یہ پوچھتے ہیں کہ وطن عزیز کے حالات کیا رخ اختیار کریں گے تو دوسری طرف یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم ان حالات کا مقابلہ کیسے کریں۔ ہمارے پاکستانی نوجوان میدان چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں، وہ ملک کے اندر ہیں یا باہر، امیر ہیں یا غریب، کمزور ہیں یا توانا وہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے امیر بھی ہیں اور توانا بھی ہیں، وہ ہتھیار ڈالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ہمارے لیڈر ہمیں بتائیں کہ ہم کیا کریں ہم محض انتظار کا عذاب نہیں جھیل سکتے۔
مقامی اور بیرونی دونوں قسم کی دہشت گردی نے متحد ہو کر کبھی ہمارا ملک توڑ دیا اور ہمارے لیڈر کچھ نہ کر سکے بلکہ یہ تک کہا گیا ہے کہ وہ خود اس سانحہ میں شامل ہوگئے۔ بہر حال جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا مگر اب ایسا نہیں ہوگا اس ملک کا ہر نوجوان خود بھی جان دے دے گا اور ملک کی سلامتی کے دشمنوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ہمارے نوجوان سخت سردی بارش اور ژالہ باری میں کھلے میدان میں نکل سکتے ہیں اور تقریب ختم ہونے تک میدان میں جمے رہتے ہیں جب کہ یہ تقریب ملک کے بچاؤ اور سلامتی کے لیے نہیں تھی تو اسی سے اندازہ کیجیے کہ اگر ان جوانوں کو ملک بلائے گا اپنی سلامتی اور حفاظت کے لیے تو یہ آگ اور شعلہ بن کر میدان میں ہوں گے۔ نوجوانوں کے پاس صرف جذبہ ہوتا ہے ان کی رہنمائی کوئی اور کرتا ہے جسے ہم لیڈر اور قائد کہتے ہیں۔ آج کا پاکستانی عزم جواں رہنمائی مانگتا ہے کیونکہ اس کے پاس صرف دست و بازو ہیں اور وطن پر قربانی کا جذبہ ہے۔ فراواں جذبہ جو تسکین کے لیے بے قرار ہے اور رہنمائی کا طلب گار۔
یہاں گنجائش نہیں کہ میں ان نوجوانوں کے جذبات اور جذباتی پیغامات نقل کر سکوں اگرچہ میرا جی بہت کرتا ہے مگر میں اپنے نوجوانوں کو حوصلے اور صبر کا مشورہ دیتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ وطن عزیز اور اس وطن کے ہم بوڑھوں کے جذبات کو کسی راہ پر آنے دیں اور پھر نعرہ زن ہو کر اس راہ پر آگے بڑھیں اس لیے کہ حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اندیشہ ہے کہ ان کے مقابلے کے لیے پوری قوم سربکف ہوگی۔ مشرقی پاکستان میں پوری پاکستانی قوم کسی بھی قربانی کے لیے تیار تھی لیکن ہمارے ایک مدہوش آمر اور دوسرے اقتدار کی ہوس میں مدہوش سیاسی لیڈر ان دونوں نے مل کر قوم کو شکست دے دی جب صورت حال ایسی ہوئی تو پھر مشرقی حصے کے ایک مقامی لیڈر کے لیے بھی کوئی راستہ نہ بچا اور ان سب سے اوپر ہمارا پڑوسی دشمن تھا جس نے باقاعدہ فوج کشی کر لی اور نوے ہزار فوجیوں کو اپنا قیدی بنا لیا۔ جب قیادت شکست کھاتی ہے یا بدعنوان ہو جاتی ہے تو پھر عوام تو کیا باقاعدہ فوج بھی کچھ نہیں کر سکتی۔
مقصد یہ ہے کہ ہمارے آج کے حالات میں ہمارے پہلے کے سانحہ سے ملتے جلتے ہیں پرانا دشمن سرگرم ہے اور موقع پا کر کچھ بھی کرنے پر تیار اب تو پاکستان توڑنے والی تمام قوتیں اس کی پشت پناہ ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہے آج امتحان ہے ہماری قومی قیادت کا کیونکہ ہماری زندگی خطرے میں ہے اور ہمارے جوانوں نے بھی اس خطرے کو بھانپ لیا ہے لیکن اسی مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ علماء پاکستان کسی فوجی ایکشن کے سخت خلاف ہیں اور اسے بے حد خطر ناک سمجھتے ہیں ان کی بات کی یوں اہمیت ہے کہ ایک فریق ان میں سے ہے یا ان کے بہت قریب ہے۔ دیکھتے ہیں کہ شب سست کا ساحل کہاں ہے۔
حکمران دہشت گردی کے شکار ہونے والے فی شخص اوسطاً پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کرتے ہیں اور کوئی دن نہیں جاتا کہ ایسی کوئی لاکھوں والی بھیانک واردات نہ ہو جائے۔ ہمارے وزراء غیر معمولی سیکیورٹی کے حصار میں زندہ اور محفوظ رہ کر مالی امداد کا اعلان کرتے ہیں۔ اب تک کسی بڑے نے جاں بحق ہونے والوں میں اپنا اسم گرامی نہیں لکھوایا، یہ سب محفوظ ہیں اور خدا کرے وہ محفوظ ہی رہیں ورنہ ہمارے لیے اس پس مرگ مالی امداد کا اعلان کون کرے گا۔ ہم تو لا وارث اور بھوکے ہی مر جائیں گے۔ مرنا تو برحق ہے لیکن کوئی لاش کو سائے میں رکھنے والا تو ہو۔ بہر حال اس کے باوجود کراچی سے لاہور تک جشن برپا ہے آنے والی بہار کے بھرپور استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے نوجوان زندہ ہیں اور سرگرم۔
لاہور میں انھوں نے قومی پرچم بنانے کے لیے بہت بڑا اجتماع کیا اتنا بڑا کہ اس سے پہلے اتنا بڑا انسانی پرچم نہیں بنایا جا سکا۔ سابقہ مشرقی پاکستان جسے اب بنگلہ دیش کہا جاتا ہے اس کے نوجوانوں نے بھی ایسا مظاہرہ کیا تھا لیکن ہم مغربی پاکستان والے ان سے بڑھ گئے اور عالمی ریکارڈ رکھنے والے ادارے نے ہمیں پہلا نمبر دے دیا یعنی پاکستان سے پاکستان کا مقابلہ تھا اور ایک جیت گیا۔ سندھ کے جشن کا اختتام بھی انھی دنوں ہوا ہے۔ بختاور بھٹو نے انگریزی میں اختتامی خطاب کیا اور ان کے بھائی بلاول نے رٹا لگائی ہوئی، اردو تقریر سے افتتاح کیا۔ اس سے پہلے اس دھرتی میں جسے باب الاسلام کہا جاتا ہے، راجہ داہر وغیرہ کے عہد کو زندہ کیا گیا۔ اس میلے کی ابتدائی یعنی پہلی تقریب بڑی نظر نواز لگی لیکن افسوس اسے بعد میں دہرایا نہیں گیا۔
اس کے جواب میں پنجاب والے سبز جھنڈے بناتے رہے جو پاکستان کی تاریخ بیان کر رہے تھے۔ بہر کیف دونوں میلوں ٹھیلوں میں بڑا حصہ نوجوانوں کا تھا اور میری طویل صحافتی زندگی میں پہلی بار ملک کے نوجوان بھی کچھ کہہ رہے ہیں۔ اپنی بات کر رہے ہیں، جوانوں کی بات ان کی جوان آوازوں میں کچھ گھبراہٹ سی ہے ذرا سی کپکپی بھی مگر وہ توانائی نہیں جو ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کے عزم میں ہوا کرتی ہے۔ یہ نوجوان برقی پیغامات کے ذریعے جہاں ایک بات یہ پوچھتے ہیں کہ وطن عزیز کے حالات کیا رخ اختیار کریں گے تو دوسری طرف یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم ان حالات کا مقابلہ کیسے کریں۔ ہمارے پاکستانی نوجوان میدان چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں، وہ ملک کے اندر ہیں یا باہر، امیر ہیں یا غریب، کمزور ہیں یا توانا وہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے امیر بھی ہیں اور توانا بھی ہیں، وہ ہتھیار ڈالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ہمارے لیڈر ہمیں بتائیں کہ ہم کیا کریں ہم محض انتظار کا عذاب نہیں جھیل سکتے۔
مقامی اور بیرونی دونوں قسم کی دہشت گردی نے متحد ہو کر کبھی ہمارا ملک توڑ دیا اور ہمارے لیڈر کچھ نہ کر سکے بلکہ یہ تک کہا گیا ہے کہ وہ خود اس سانحہ میں شامل ہوگئے۔ بہر حال جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا مگر اب ایسا نہیں ہوگا اس ملک کا ہر نوجوان خود بھی جان دے دے گا اور ملک کی سلامتی کے دشمنوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ہمارے نوجوان سخت سردی بارش اور ژالہ باری میں کھلے میدان میں نکل سکتے ہیں اور تقریب ختم ہونے تک میدان میں جمے رہتے ہیں جب کہ یہ تقریب ملک کے بچاؤ اور سلامتی کے لیے نہیں تھی تو اسی سے اندازہ کیجیے کہ اگر ان جوانوں کو ملک بلائے گا اپنی سلامتی اور حفاظت کے لیے تو یہ آگ اور شعلہ بن کر میدان میں ہوں گے۔ نوجوانوں کے پاس صرف جذبہ ہوتا ہے ان کی رہنمائی کوئی اور کرتا ہے جسے ہم لیڈر اور قائد کہتے ہیں۔ آج کا پاکستانی عزم جواں رہنمائی مانگتا ہے کیونکہ اس کے پاس صرف دست و بازو ہیں اور وطن پر قربانی کا جذبہ ہے۔ فراواں جذبہ جو تسکین کے لیے بے قرار ہے اور رہنمائی کا طلب گار۔
یہاں گنجائش نہیں کہ میں ان نوجوانوں کے جذبات اور جذباتی پیغامات نقل کر سکوں اگرچہ میرا جی بہت کرتا ہے مگر میں اپنے نوجوانوں کو حوصلے اور صبر کا مشورہ دیتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ وطن عزیز اور اس وطن کے ہم بوڑھوں کے جذبات کو کسی راہ پر آنے دیں اور پھر نعرہ زن ہو کر اس راہ پر آگے بڑھیں اس لیے کہ حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اندیشہ ہے کہ ان کے مقابلے کے لیے پوری قوم سربکف ہوگی۔ مشرقی پاکستان میں پوری پاکستانی قوم کسی بھی قربانی کے لیے تیار تھی لیکن ہمارے ایک مدہوش آمر اور دوسرے اقتدار کی ہوس میں مدہوش سیاسی لیڈر ان دونوں نے مل کر قوم کو شکست دے دی جب صورت حال ایسی ہوئی تو پھر مشرقی حصے کے ایک مقامی لیڈر کے لیے بھی کوئی راستہ نہ بچا اور ان سب سے اوپر ہمارا پڑوسی دشمن تھا جس نے باقاعدہ فوج کشی کر لی اور نوے ہزار فوجیوں کو اپنا قیدی بنا لیا۔ جب قیادت شکست کھاتی ہے یا بدعنوان ہو جاتی ہے تو پھر عوام تو کیا باقاعدہ فوج بھی کچھ نہیں کر سکتی۔
مقصد یہ ہے کہ ہمارے آج کے حالات میں ہمارے پہلے کے سانحہ سے ملتے جلتے ہیں پرانا دشمن سرگرم ہے اور موقع پا کر کچھ بھی کرنے پر تیار اب تو پاکستان توڑنے والی تمام قوتیں اس کی پشت پناہ ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہے آج امتحان ہے ہماری قومی قیادت کا کیونکہ ہماری زندگی خطرے میں ہے اور ہمارے جوانوں نے بھی اس خطرے کو بھانپ لیا ہے لیکن اسی مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ علماء پاکستان کسی فوجی ایکشن کے سخت خلاف ہیں اور اسے بے حد خطر ناک سمجھتے ہیں ان کی بات کی یوں اہمیت ہے کہ ایک فریق ان میں سے ہے یا ان کے بہت قریب ہے۔ دیکھتے ہیں کہ شب سست کا ساحل کہاں ہے۔