کشمیر بھارتی سوچ کا المیہ

بعض قومی مسائل اس قدر اہم اور ان کے نقصانات ایسے عہد گیر ہوتے ہیں کہ ان پر ہر پہلو، ہر زاویے سے بار...


Zaheer Akhter Bedari February 17, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: بعض قومی مسائل اس قدر اہم اور ان کے نقصانات ایسے عہد گیر ہوتے ہیں کہ ان پر ہر پہلو، ہر زاویے سے بار بار لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ان ہی مسائل میں سے ایک ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کئی خبریں ایک ساتھ نظروں سے گزریں تو احساس ہوا کہ ان خبروں کی اہمیت اور ان کے مثبت اور منفی اثرات پر ایک نظر ڈالی جائے۔

اس حوالے سے پہلی خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان فرحان حق نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ''اگر دونوں متعلقہ فریق پاکستان اور بھارت اقوام متحدہ سے درخواست کریں کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ان کی مدد کریں تو اقوام متحدہ ہر طرح کی مدد کے علاوہ اس مسئلہ پر ثالثی کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ کے گڈ آفسز کے ذمے دار فریقین کو امن کی طرف راغب کرنے سیاسی اور فوجی جھگڑوں سے بچانے میں مدد کریں گے''۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ بھارت ہی تھا جس نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا اور اقوام متحدہ ہی نے اس مسئلے کے حل کے لیے کشمیر میں حق خود ارادی کے اہتمام کی قرارداد منظور کی تھی لیکن بھارتی قیادت نے ابتدا ہی سے اقوام متحدہ کی قرارداد کو ماننے سے مجرمانہ کردار ادا کیا۔ بھارت کے اس رویے سے جہاں اقوام متحدہ کے اختیارات اور فیصلوں کی نفی ہوتی ہے وہیں اس بین الاقوامی ادارے کی حیثیت بھی مجروح ہوتی ہے جو بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کے فیصلوں سے انحراف کی نفسیات کو جنم دیتی ہے۔

اس حوالے سے دوسری خبر یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کے پوتے اور مورخ ڈاکٹر راج موہن گاندھی نے اخبار ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میں پاکستان اور ہندوستان کے عوام کو ملانے میں کردار ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے ملنے ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے بے چین ہیں ان کی یہ دوریاں اور مجبوریاں ختم ہونی چاہئیں۔ سیاسی سطح پر دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہیے اگر ویزا کے اجرا میں نرمی برتی جائے تو یہ بچھڑے ہوئے لوگوں کو آپس میں ملنے کے مواقع حل ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر راج موہن گاندھی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کے لیے کراچی آئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر راج موہن گاندھی کی خواہش بڑی نیک ہے لیکن ایک مورخ کی حیثیت سے ڈاکٹر راج موہن گاندھی یہ بات یقینا اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ان کی اس نیک خواہش کا تعلق براہ راست مسئلہ کشمیر سے ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں بھارت کے وہ راج نیتا ایک آہنی دیوار کی طرح حائل ہیں جو مسئلہ کشمیر کو محض اپنی مفاداتی سیاست کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں انھیں اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ عوام کے بٹے ہوئے خاندان 66 سال سے ایک دوسرے سے ملنے کے لیے بے چین ہیں۔

اس حوالے سے تیسری خبر یہ ہے کہ بھارت نے کنٹرول لائن پر 179 کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے لوک سبھا میں بتایا کہ 135 فٹ چوڑی 10 میٹر اونچی اور 179 کلومیٹر لمبی دیوار پر جلد کام شروع ہوجائے گا یہ کام کوئی راج مستری نہیں بلکہ بھارت کی فوج انجام دے گی۔ بھارت کے حکمران طبقے کو دور حاضر کا سب سے بڑا احمق طبقہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ 135 فٹ چوڑی 10 میٹر لمبی اور 179 کلومیٹر لمبی دیوار اس لیے تعمیر کی جا رہی ہے کہ تخریب کار کشمیر میں داخل ہوکر مقبوضہ کشمیر میں مار دھاڑ کا بازار گرم نہ کرسکیں۔

ہم اس قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے والوں کو نرے احمق اس لیے کہنے پر مجبور ہیں کہ جن تخریب کاروں کا کشمیر میں داخلہ روکنے کے لیے اتنی لمبی چوڑی اونچی دیوار تعمیر کی جا رہی ہے وہ 2008 میں ممبئی میں داخل ہوکر تین روز تک مسلسل آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے ہیں اور بھارت کی سیکیورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کی مضبوط دیوار ان کا راستہ نہ روک سکی تو بھلا 10 میٹر اونچی اور 195 کلومیٹر طویل دیوار ان کے پاگلانہ جذبے کے سامنے کیسے ٹھہر سکتی ہے۔ 9/11 کو دنیا کی واحد سپر پاور کے محفوظ ترین شہروں نیویارک ، پینٹاگون وغیرہ کی مشہور عمارتوں کو جو لوگ تباہ کر سکتے ہیں انھیں بھلا یہ چھوٹی سی دیوار کیسے روک سکتی ہے آج یہی تخریب کار امریکا اور دوسرے کئی مغربی ملکوں میں داخل ہوکر جہاں کی سیکیورٹی بھارت کی سیکیورٹی سے سو گنا زیادہ سخت اور مضبوط ہے حملے کر رہے ہیں اور مغربی شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ بھارت چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔

جن تخریب کاروں کو بھارت 179 کلومیٹر دیوار بناکر روکنا چاہتا ہے اسے غالباً اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ اس کی کشمیر پالیسیوں نے ہی انھیں جنم دیا ہے اور اس قدر طاقت ور بنادیا ہے کہ آج ساری دنیا ان کے نام سے لرزہ براندام ہے۔ ان کے متعارف کردہ ہتھیاروں خودکش بمباروں، بارودی گاڑیوں، سیمنٹ، بجری کے بموں سے ساری دنیا پریشان ہے۔ ہم بھی ان خونخوار طاقتوں سے نجات چاہتے ہیں لیکن ہمیں بہرحال اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ان بلاؤں کو نہ 179 کلومیٹر لمبی دیوار سے روکا جاسکتا ہے نہ 6 لاکھ بھارتی فوج ان کے راستے کا پتھر بن سکتی ہے اس کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔

بھارت کی بنیا سیاست نئی دنیا کے اس مزاج کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ اب عشروں پرانی دیوار برلن کو عوام نے توڑ کر ماضی کی المناک یادگار میں بدل دیا ہے۔ شمالی اور جنوبی کوریا دوسری عالمی جنگ کی دوسری عوام دشمن نشانی ہے کوریا کو جرمنی کی طرح تقسیم کرنے والوں کو ابھی تک غالباً یہ احساس نہیں ہے کہ بیسویں صدی سے دنیا ایک گاؤں میں بدلنے کی طرف جا رہی ہے میڈیا کی تیز رفتاری اور چپہ چپہ تک پہنچنے نے دنیا بھر کے مذاہب، قوموں، رنگوں، نسلوں، قبیلوں میں بٹے ہوئے انسانوں کو ایک قبیلے میں نتھی کرنا شروع کیا ہے اور وہ قبیلہ ہے انسانوں کا انسانیت کا ۔ ممبئی حملوں میں اجمل قصاب اور اس کے ساتھی ہی ملوث نہیں تھے بلکہ بھارتی نژاد تخریب کار بھی ملوث تھے۔

بھارتی پالیسیوں کا یہ ''اعجاز'' ہے کہ اس نے کشمیر اور فلسطین تک محدود تخریب کاروں کو بین الاقوامی دنیا تک رسائی دے دی ہے اور بھارت کے پشت پناہ امریکی حکمران بھی اب اس عفریت سے دشمنی کے بجائے دوستی اور بات چیت کی طرف آ رہے ہیں۔ کیا بھارت کا حکمران طبقہ ان عالمی حقائق کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی دیوار، دیوار چین بھی بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ کے لیے ہی بنائی گئی تھی یہ دیوار پتہ نہیں چین کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے میں کتنی کامیاب یا ناکام ہوئی البتہ اب وہ آثار قدیمہ کا حصہ ضرور بنی ہوئی ہے جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاہ چین آتے ہیں۔ اگر بھارت کی 179 کلومیٹر لمبی دیوار سلامت رہی تو سیاح اسے دیکھنے بھی کشمیر آئیں گے اور اس دیوار کے ساتھ پھول رکھ کر چلے جائیں گے۔ یہ پھول بھارتی حکمرانوں کی دانش کے مزار پر رکھے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں