یک جان دو قالب

سعودی عرب اور پاکستان عالم اسلام کے دو اہم برادر ممالک ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے اہم ترین اور بنیادی ستون بھی ہیں۔


Shakeel Farooqi February 17, 2014
[email protected]

سعودی عرب اور پاکستان عالم اسلام کے دو اہم برادر ممالک ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے اہم ترین اور بنیادی ستون بھی ہیں۔ سعودی عرب کو اسلامی دنیا کا مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دونوں ممالک کے باہمی رشتوں کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر انھیں یک جان دو قالب کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا گویا:

دو دل دھڑک رہے ہیں پر آواز ایک ہے
نغمے جدا جدا ہیں مگر ساز ایک ہے

ایمان اور ایقان کے ازلی اور ابدی رشتے نے دونوں کو موتیوں کی طرح سے ایک ہی لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کو ایک دوسرے سے خصوصی دینی، روحانی، تاریخی اور معاشرتی نسبت ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات لازوال اور بے مثال ہیں جن پر دونوں ہی کو بجاطور پر فخر ہے۔ دونوں برادر ممالک کا تاریخی پس منظر محتاج تعارف نہیں ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی اور تزویراتی امور میں دونوں ہی کا کردار نمایاں حیثیت کا حامل رہا ہے۔

یہ امر انتہائی خوش آیند ہے کہ پاکستان کی سابقہ حکومت کے دور میں قدرے سردمہری کے 5 سالہ دور کے بعد دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات میں ایک مرتبہ پھر گرم جوشی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے برملا یہ کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے جب کہ ان کے چھوٹے بھائی پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ مختلف شعبوں میں اپنے تعلقات کو مزید بڑھاوا دینے کے خواہش مند ہیں۔دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں نئی پیش رفت ایک انتہائی نیک شگون ہے جوکہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام دونوں ہی کے لیے باعث مسرت اور قابل ستائش ہے۔ اس کا تازہ ترین اور نمایاں ثبوت دونوں جانب کی اعلیٰ شخصیات کی ایک دوسرے کے یہاں آمد و رفت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس سلسلہ جنبانی کا آغاز صدر ممنون حسین نے منصب صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد کیا تھا جس کے فالو اپ کے طور پر دونوں جانب سے آمد و رفت کا عمل پورے زور و شور کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ یہ بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ گزشتہ دنوں سعودی وزیر خارجہ پریس سعود الفیصل پاکستان تشریف لائے حالانکہ اپنی پیرانہ سالی کے باعث آج کل وہ غیر ملکی سفر سے گریز ہی کرتے ہیں۔ ان کے دورے کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات میں باہمی تعاون کے فروغ کا سلسلہ شروع ہوا۔

ان کے اس اہم دورے کے تقریباً فوراً بعد سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع کی قیادت میں 17 ارکان پر مشتمل ایک سعودی دفاعی وفد نے پاکستان کا کئی روز کا سرکاری دورہ کیا جس کے دوران نہ صرف دفاعی امور زیر غور آئے بلکہ مملکت سعودی عرب نے پاکستان سے ایف 17 تھنڈر ہوائی جہازوں، آب دوز شکن میزائلوں اور طیارہ بردار جہازوں کو تباہ کرنے والے میزائلوں کی خریداری میں بھی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ سعودی وفد کے اس دورے کے بعد پاکستان کی بری فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کا سہ روزہ دورہ کیا جس کے دوران انھوں نے نہ صرف سعودی آرمی چیف اور دیگر حکام سے ملاقات کی بلکہ اس بات کی تفصیلات کا بھی جائزہ لیا کہ دونوں ممالک کی افواج کن کن شعبوں میں باہمی اشتراک و تعاون کو مزید فروغ اور وسعت دے سکتے ہیں۔ایک دوسرے کے ممالک کے حالیہ دوروں کے سلسلہ کا تازہ ترین دورہ سعودی وزیر سیاحت و نوادرات شہزادہ سلطان بن سلمان کا تھا جنھوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین سے انتہائی پرجوش ملاقات کی۔ وزیر اعظم اور سعودی شہزادے نے برف سے ڈھکے ہوئے دلکش کشمیر پوائنٹ کے پرکیف نظاروں کا لطف بھی اٹھایا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے شہزادہ سلمان کی توجہ سیاحت کے شعبے کی جانب خاص طور پر مبذول کروائی۔

کیونکہ یہ وہ شعبہ ہے جس میں دونوں ممالک کے باہمی اشتراک کے نہایت روشن اور قوی امکانات موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک کے باہمی تعاون کی بدولت پاکستان کے کئی صحرائی علاقے سرسبز و شاداب علاقوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور جنگل میں منگل کا سا سماں پیدا ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اسی غرض سے سعودی شہزادے کو پاکستان کے تفریحی مقامات کے تفصیلی دورے کی بھی دعوت دی۔سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز کی والدہ سلطانہ ترکی السدیری کے نام سے منسوب سلطانہ فاؤنڈیشن نامی ادارے کے زیر اہتمام ''تعلیم و تحقیق اور سماجی ترقی'' کے مرکز کے نئے منصوبے کی تقریب افتتاح سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ تعلیم کے حصول کو قومی ترقی و خوشحالی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں باہمی اشتراک و تعاون سے بخوبی استفادہ کرسکتے ہیں۔ سلطانہ فاؤنڈیشن کا قیام شہزادہ سلمان کی فکر کا مرہون منت ہے۔اس فلاحی ادارے کے وسیع المقاصد منصوبوں کے تحت اسکولوں، کالجوں اور میڈیکل کالجوں کے مستحق ضرورت مند طلبا و طالبات کی مالی اعانت کرنا ہے۔

اس وقت اس خطے کے سیاسی حالات ایک نئی کروٹ بدل رہے ہیں۔ ایک جانب پاکستان میں امریکا کے اثر سے نکلنے کی لہر اٹھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے تو دوسری جانب امریکا ایک مرتبہ پھر ایران کو اپنا اتحادی بنانے کا ڈول ڈال رہا ہے اور اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دریں اثنا ایران نے امام خمینی فنڈز سے پاکستان کو 500 ملین ڈالرز کی پیشکش بھی واپس لے لی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، روس، چین، جرمنی اور ایران کے مابین سعودی عرب کو یہ احساس ہوا کہ امریکا شاید اسے نظرانداز کرکے ایران کے ساتھ پینگیں بڑھانے کا خواہاں ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ امریکا باری باری سے افغانستان اور پاکستان کو اپنا ہدف بنانے کے بعد ایران سے ہٹ کر سعودی عرب کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کرے۔ ایسا کرنے کے لیے وہ یہ جواز بھی پیش کرسکتا ہے کہ 9/11 کے واقعے میں ملوث لوگوں میں سب سے زیادہ تعداد سعودی باشندوں کی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ سیاست کی ڈکشنری میں ''ناممکن'' کا لفظ موجود نہیں ہے۔

سعودی عرب جو پاکستان کو تیل فراہم کرتا ہے، پاکستان کو توانائی، زرعی اور صنعتی شعبوں میں بھی تعاون دینے کا بہت خواہشمند ہو۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام اور صنعت و تجارت کے نمایندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے اب تک کے تعلقات کا ریکارڈ بڑا شان دار اور قابل تعریف ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا وہ آزمایا ہوا دوست ہے جس نے مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور سچی دوستی کا حق ادا کرکے یہ ثابت کردیا ہے۔

دوست آں باشد کہ گرد دست دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی

صدر ممنون حسین کے دورے کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف مزید تاخیر کے بغیر سعودی عرب کا دورہ کریں تاکہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعلقات کے فروغ کی رفتار تیز تر ہوسکے اور باہمی اشتراک کے لیے گوشے اور زاویے دریافت ہوسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں