جنوبی اورمشرقی ہند کے دواہم افسانہ نگار

یہ افسانے، حکایتیں، قصے کہانیاں سننا سنانا بھی انسان کے خمیر میں شامل ہے۔خود خالقِ کائنات نے بھی اپنے کلام...

یہ افسانے، حکایتیں، قصے کہانیاں سننا سنانا بھی انسان کے خمیر میں شامل ہے۔خود خالقِ کائنات نے بھی اپنے کلام میں گزرے زمانے کے حقیقی واقعات بہترین اسلوب میں سنائے تا کہ انسان ان عبرت انگیز واقعات کو دلچسپی سے پڑھے اور ان سے عبرت حاصل کرے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کو تو خود خالقِ کائنات نے احسن القصص کا عنوان دیا ۔ پیارے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امت کی اصلاح کے لیے پچھلے زمانے کے حقیقی واقعات سنائے ۔ بہرحال دنیا کے ہر علاقے میںاور ہر زمانے میں کہانی کہی گئی اور یہ کہانیاں حکایتوں کی صورت صدیاں گزرنے کے باوجود نہ صرف زندہ رہیں بلکہ اتنی پراثر بھی تھیں کہ ہر زمانے کے ہزاروں انسانوں نے نہ صرف ان کے سننے سنانے سے حظ اٹھایا بلکہ ان کے اخلاقی پہلو سے اپنی تہذیب بھی کی۔

تمہید طویل ہو گئی،ہم تو آپ کو یہ بتا رہے تھے کہ ہمارے لیے تو اس دنیا کی سب سے بڑی تفریح یہی ہے کہ ایک کمرہ ہو، اس میں دنیا کے بہترین ادب پر منتخب کتابیں بھری ہوئی ہوں، ہم ہوںاور ... اور کوئی نہ ہو ۔ بس پھر چابی کھو جائے۔ اب شادی شدہ بندہ تو صرف یہ آرزو ہی کر سکتا ہے... بیگم کو یہ کتابیں اپنی سوتن سے کم نہیں لگتیں اور بچے! ... انھیں ہرکتاب اپنی ڈرائنگ بک لگتی ہے... اس لیے ایک افسانوی مجموعے پر اکتفا کیا،الماری مقفل کی اور نکل لیے خیال کی انگلی تھامے انوکھی دنیا کی سیر کو... سب سے پہلے جو کہانی پڑھی ، وہ جنوبی ہند ، تامل زبان کے ایک نامور افسانہ نگار ٹی جے کانتن کی کہانی تھی۔ کیا کمال کی کہانی تھی! کہانی تو ختم ہوئی لیکن ہم دیر تک اس کے تاثر سے باہر نہ نکل سکے۔ان کا نام نوٹ بک میں لکھ لیا تا کہ بعد میں اردو بازار کھنگالا جائے۔

ایک ہفتے کے بعداردو بازار جانا ہوا تو کانتن کی بات تو چھوڑیے کہ وہ تو تامل زبان کے ادیب ہیں، اردو زبان کے مشہور اور اپنی نوعیت کے منفرد لکھاری ابوالفضل صدیقی مرحوم کے بھی نام سے ''اردو بیچنے والے'' ناواقف تھے۔ بڑا افسوس ہوا(جناب صدیقی صاحب رحمہ اللہ کا مفصل تذکرہ ان شاء اللہ اگلے کالم میں)۔ پھر خیال آیا کہ اب یہ مشکل تو صرف ایک ہی طریقے سے حل ہو گی ... اور وہ طریقہ ہے اپنے وقت کا مشہور ڈائجسٹ 'سب رنگ' کھنگالا جائے۔ ہم نے اپنے' سب رنگ 'کے خزانے میں سر جھونک دیا اور سب رنگ کی تو بات ہی کیا ہے!جی ہاں جو ڈھونڈ رہے تھے، وہ گوہر مقصود مل گیا! اسّی کی دہائی کے ایک ضخیم شمارے میں ٹی جے کانتن کی ایک نہ دو پوری تین ترجمہ شدہ کہانیاں مل گئیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ یہ کہانیاں اس سے پہلے ہم نے پڑھی ہی نہیں تھیں۔ان کہانیوں سے لطف اندوز ہوئے اور گویا جے کانتن کے معترف ہو گئے۔ہم نے کانتن کے ساتھ مترجم ذکی انور کا بھی دل ہی دل میں شکریہ ادا کیا کیوں کہ پڑھنے والوں پر مصنف کے ساتھ مترجم کا بھی کچھ کم احسان نہیں ہوتا جو اجنبی زبان کا کوئی فن پارہ اپنے لوگوں میں آشنا کراتا ہے۔ کہانیوں کے ساتھ ہی مصنف کا مختصر تعارف موجود تھا۔


ٹی جے کانتن جنوبی ہند میں تامل دیس کے نہایت مشہور لکھاری ہیں۔ 1955ء میں انھوں نے لکھنا شروع کیا اور اپنی ابتدائی کہانیوں سے ہی ناقدوں اور قارئین کو دم بخود کر دیا۔جلد ہی ان کا نام تامل زبان کے افسانہ نگاروں میں مستند و معتبر ہوگیا۔جے کانتن نے شروع ہی سے ان موضوعات پر خامہ فرسائی کی جن سے لوگ نظریں چراجاتے ہیں۔گویا وہ معاشرے کے باغی قلم کار ٹھہرے۔ ان کا قلم ، قلم نہیں ایک ایسا آلہ ثابت ہوا جس سے وہ معاشرے کا گند چیرا لگا کر باہر نکالتے، گویا وہ آپریشن کرتے رہے۔66ء میں ان کی ایک کہانی' اگنی پروے شم'(کندن) نے تو جنوبی ہند میں ایک ہلچل مچا دی تھی۔بڑی لے دے ہوئی لیکن جے کانتن خاموش رہے۔ آخرطویل عرصے کے بعد ان کی طویل ادبی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور انھیں کئی علاقائی و قومی ایوارڈ دیے گئے۔ نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا نے سب سے پہلے ہندوستان کی دیگر زبانوں میں اور بعد ازاں دنیا کی دوسری زبانوںمیں ان کی کہانیوں کو منتقل کیا اور بڑے اہتمام سے شایع کیا۔کہانی کے علاوہ انھوں نے کالم نگاری بھی کی، دو تامل فلموں کی ہدایتکاری بھی کی لیکن کہانی ہی ان کا اصل ہنر ٹھہری۔

ان فراغت کے دنوں میں ہم ایک اورنامی گرامی ادیب سے واقف ہوئے جن کو ہم نے پہلی بار پڑھا۔ یہ تھے مشرقی ہند یعنی مشرقی بنگال، بعد ازاں مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیش تینوں سیاسی زمانوں کے مشہور ادیب ابوالفضل!... 1903ء میں چاٹگام میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے دوران ہی اپنا پہلا ناول 'ٹوچیر' لکھا جس پر رابندر ناتھ ٹیگور نے جو اس وقت حیات تھے، بہت حوصلہ افزائی کی۔بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کس طرح جسم و جاں میں نئی روح پھونک دیتی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ پھر تو جیسے کسی نے منہ زور دریا کا دھانہ کھول دیا ہو۔ ایک کے بعد ایک بہترین کہانی، ناول، ڈرامے سامنے آتے رہے اور قارئین سے داد حاصل کرتے رہے۔ٹوچیر کے بعد 40ء میںناول پردیپ و پتنگ، 57ء میں رانگا پربھات اور بہت سی چھوٹی بڑی تحریریں۔

کہتے ہیں کہ دیگ کا ایک دانہ چکھ کر پوری دیگ کا اندازہ ہو جاتا ہے، ہم نے چند کہانیاں ابوالفضل کی پڑھیں اور بے اختیاردل سے ان کی درازیٔ عمر کی دعا نکلی۔لیکن پھر خیال آیا کہ بھلا اب وہ کہاں حیات ہوں گے ۔ واقعی بعد میں ایک ذریعے سے معلوم ہوا کہ وہ تو تیس سال پہلے 79سال کی عمر میں 1983ء میں انتقال کر گئے تھے ۔بہرحال جتنا مرحوم کو پڑھا، اس سے اندازہ ہوا کہ واقعات نگاری میں انھیں کمال حاصل تھا۔وہ ایک مصور کی طرح سحرکار بنگال کے مناظر کی تصویر کشی کرتے تھے۔ ناقدین نے لکھا ہے کہ شوخی، زبان کا چٹخارا ابوالفضل صدیقی کے بیان کا خاصہ ہے۔ان کی ادبی خدمات کا بھی قومی سطح پر بہت عرصے بعد اعتراف کیا گیا(جو برصغیر کا المیہ ہے)۔ انھیں پہلا اہم ایوارڈ ' بنگلہ اکیڈمی ایوارڈ مشرقی پاکستان کی حکومت کی طرف سے 62ء میں دیا گیا۔پھر صدارتی نیشنل ایوارڈ 66ء میں دیا گیا،اور اس کے بعد بھی 83ء میں ان کے انتقال تک کئی اہم ایوارڈز سے نوازے گئے۔

دل تو بہت چاہتا تھا کہ کچھ تفصیل سے تامل اور بنگال کی مردم خیز زمینوں کا ذکر ہوتا کہ ہر علاقے کا ادب اپنے اندر ایک نئی چاشنی ، ایک نیا تیور رکھتا ہے...لیکن کالم کا دامن بہت محدود ہوتا ہے،بس دل پر جو ان قلم کاروں نے اپنے نقش جمائے، اس کا سرسری سا ذکر کر دیا،باقی پھر سہی... یار زندہ صحبت باقی!
Load Next Story