کٹاس راج مندر اور حکومتی بے حسی

حکومت نے اس تاریخی جگہ کی دیکھ بھال کےلیے صرف 2 کروڑ روپے مختص کیے ہیں


ذیشان یعقوب February 13, 2022
کٹاس راج مندر کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

کراچی: پوٹھوہاری سلسلے پر واقع ضلع چکوال اپنے اندر بہت سے راز سموئے ہوئے ہے۔ اس علاقے کی اہمیت چندر گپت موریہ سے لے کر آج تک کسی پیمانے میں ناپی نہیں جاسکی۔ یہ خطہ جتنا خوبصورت ہے اتنا ہی پراسرار بھی ہے۔ اس علاقے میں معدنی ذخائر کی بھرمار ہے، کھیوڑا مائین جس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اہم فوجی تنصیبات کے پیش نظر اس علاقے کو پراسرار بھی کہا جاتا ہے۔

اس علاقے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ہنومان نے لنکا فتح کرنے کےلیے ہمالیہ سے پہاڑ اٹھا کر سمندر میں رکھے، جس کی بدولت راون کی لنکا فتح کرلی گئی۔ راستے میں جو مٹی ہنومان کے ہاتھوں سے گری وہ آج کا موجودہ پوٹھوہاری سلسلہ ہے۔ اس بات کا حوالہ مہابھارت (ہندوؤں کی مذہبی کتاب) میں موجود ہے۔

البتہ اس علاقے کی وجہ شہرت چندر گپت موریہ کی وجہ سے ہے۔ چندر گپت موریہ اور اس کے پوتے مہاراجہ اشوکا نے اس علاقے کو چار چاند لگادیے۔

یہ علاقہ ہزاروں سال سے ہندوؤں کی آماج گاہ رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس جگہ ہندوؤں کے اہم مقامات آج بھی موجود ہیں، جن میں قابل ذکر شری کٹاس راج اور ٹلہ جوگیاں ہیں۔



ہندو مذہب کے مطابق دنیا میں صرف دو ہی اہم ترین جگہ ہیں جن میں سے ایک پاکستان کے ضلع چکوال میں موجود کٹاس راج ہے، جس کو سنسکرت میں کٹکشا کہتے ہیں، جس کا مطلب ہوتا ہے آنسوؤں کی لڑی۔ جب کہ دوسری جگہ ہندوستان کے علاقے اجمیر میں واقع ہے جس کا سنسکرت میں نام پشکار ہے۔

کٹاس راج وہ مقام ہے جس جگہ بھگوان شیوا اپنی دھرم پتنی کو یاد کرکے اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں کی لڑی سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا، جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام کٹاس راج پڑگیا۔



کٹاس راج کی سیر میرا ایک دیرینہ خواب تھا۔ جب میں کٹاس راس پہنچا تو ایک چھوٹے لوہے کے گیٹ کے ساتھ آویزاں بورڈ دیکھا، جس پر لکھا تھا ''شری کٹاس راج''۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی میں سب سے پہلے تالاب کے پاس گیا۔ کسی وقت میں اس جگہ تازے پانی کا چشمہ بہتا تھا، جسے ہندو مذہب کے ماننے والے پوتر ہونے کےلیے استعمال کرتے تھے۔ مگر وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ چشمہ آہستہ آہستہ خشک ہوتا گیا اور تالاب سوکھتا گیا، یہاں تک کہ اس کی تہہ میں پودے اُگ آئے۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس وجہ سے اس جگہ کو جانا جاتا تھا، وہی اس کی تباہ حالی کی داستاں سناتی ہے۔ تالاب میں پانی بھرنے کےلیے اب برقی موٹر کی مدد لی جاتی ہے جو اس وقت بھی اپنا کام انجام دے رہی تھی۔



تالاب کی طرف جاتے ہوئے میرے کانوں میں پنڈت کے جاپ کرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی، جو تالاب سے مشرق کی جانب والے مندر سے آرہی تھی۔ تمام تر مندروں میں بس یہ ایک مندر ایسا ہے جس میں آج بھی شیو لنگ کے بھگت پوجا کرتے ہیں۔

میں جب مندر کی دہلیز پر پہنچا تو پوجا ختم ہوچکی تھی۔ مندر کی حالت کچھ یوں تھی کہ گریب گریہہ (مندر میں مورتی رکھنے کی جگہ) میں بھگوان شیوا کی ایک مورتی تھی جس کے ساتھ ایک تصویر، جو اندر دیوار پر چسپاں تھی، درمیان میں شیو لنگ، ترشول جس کے اوپر ایک ڈمروہ موجود تھا۔ شیولنگ کے دائیں جانب بھگوان شیوا کا چن، یعنی گائے کی ایک چھوٹی سی مورتی تھی، جو بہت سے لوگوں کی نظر سے بھی نہ گزرتی ہوگی۔ شیولنگ کے اوپر ایک برتن لٹک رہا تھا شاید وہ شیو لنگ کو دودھ سے نہلانے کےلیے تھا۔ دروازے پر ایک گھنٹی موجود تھی جو مندر کی مناسبت کے لحاظ سے بالکل صحیح تھی۔



کٹاس راج میں موجود ہر ایک مندر کو میں نے تسلی سے دیکھا۔ میں ہر اس راستے پر چلا جہاں کسی دور میں مہاراجہ گزرا کرتے تھے۔ ہر مندر اپنے اندر ایک کہانی رکھتا ہے۔ مندروں کے علاوہ میں نے پنڈتوں کے زیر استعمال کمرے بھی دیکھے، جن میں مختلف قسم کی چترکاری کی گئی تھی۔ تقسیم ہندوستان کے وقت یہاں موجود سبھی ہندو بھارت ہجرت کرگئے تھے۔

یہ مندر بہت عرصے تک بے یارو مدد گار رہے، جس کی داستاں یہاں کے در و دیوار سناتے ہیں۔ کہیں کسی نے سونے کے لالچ میں مندر کی چھت کو کھود ڈالا تو کہیں زمین میں سوراخ کردیا۔ ہر مندر پر کیے گئے ظلم کی داستاں الگ ہے جو وہاں موجود ہر ذی شعور شخص محسوس کرسکتا ہے۔

مندروں کی بناوٹ کسی پہاڑی سلسلے کی طرح تھی۔ ایک مندر پر پہنچ کر اس سے اوپر ایک اور بڑا مندر آپ کو نظر آئے گا۔

مندروں کی حالت خستہ ہوچکی ہے مگر یہ آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے حسن کے جال میں پھانس لیتے ہیں۔ اس جگہ نگارہ، دراویدا اور ویسارا طرز تعمیر کے مندر موجود ہیں۔ ان کو عام الفاظ میں پہلی، دوسری اور تیسری نسل کے مندر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ست گراں بھی موجود ہے جو اس جگہ کو چار چاند لگاتا ہے۔

تمام تر مندروں کا بخوبی جائزہ لینے کے بعد اب میں ایک ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے بدھا کا اسٹوپا بالکل میرے سامنے تھا اور میں اس کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ جگہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کےلیے جنت نظیر ہے۔ ہندو، جین، بدھ مت اور سکھوں کی اس جگہ سے روحانی وابستگی ہے۔ ہری سنگ نلوا نے اس جگہ کو پسند کیا اور یہ واحد ایسی ہستی ہے جس نے افغانوں کو ان کی ہی سرزمین میں شکست دی۔ خیبر پختونخوا آج پاکستان کا حصہ انہی کی وجہ سے ہے۔

میں بدھا کے اسٹوپا کو دیکھ رہا تھا اور لاچارگی مجھے اندر ہی اندر کھا رہی تھی۔ میرے علاوہ ایک فیملی بھی وہاں پر موجود تھی جو مندر کے احاطے میں پکنک منارہی تھی۔ چائے پک رہی تھی اور ایک دوسرے کو پلائی جارہی تھی۔ مجھ سمیت تمام تر لوگ اس سوچ سے عاری تھے کہ اس جگہ کا مقام 150 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے دلوں میں کیا ہے؟

میں افسوس اور حیرت میں ڈوبا واپس آرہا تھا کہ میری نظر ایک تحریر پر پڑی، جس کی عبارت یہ کہہ رہی تھی کہ حکومت نے اس جگہ کی دیکھ بھال کےلیے 2 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ یہ پڑھ کر میں حیران رہ گیا کہ کتنی چھوٹی سوچ ہے ہمارے حکمرانوں کی۔ اس جگہ سے آپ 200 کروڑ سے بھی زیادہ سالانہ کما سکتے ہیں۔ مگر حکام بالا کی سوچ بھی ان مندروں کی طرح اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں