کیا عمران خان کا دورۂ چین ناکام رہا
پاکستان اور چین کے تعلقات کےلیے عمران خان ناگزیر نہیں ہیں
ISLAMABAD:
وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین ایک نازک وقت میں ہوا ہے۔ اس دورے سے قبل ہی اندرون ملک غیر یقینی کی صورتحال رہی اور یہ صورتحال ظاہر ہے کہ بے چینی پیدا کرتی ہے۔
کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ اس دورے میں چینی صدر ہمارے وزیراعظم سے ملاقات کریں گے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں، تاہم وزیراعظم اُن سے بیس منٹ کی ملاقات کرلینے میں کامیاب رہے۔ اس دورے میں وزیراعظم کی اپنے ہم منصب سے بھی ملاقات ہوئی۔ پاکستان کے وفد نے سرمائی اولمپکس کا ابتدائیہ بھی وزیراعظم کی قیادت میں دیکھا اور اب جبکہ دورہ اختتام پذیر ہوچکا ہے تو اس کے تجزیے کا بھی آپ کو علم ہے کہ یہ دورہ کیسا رہا؟
یہ ایک انتہائی اوسط قسم کا دورہ تھا، بلکہ ایسا کہہ لیجئے کہ اوسط سے بھی کم درجے کا دورہ رہا۔ اس دورے میں پاکستان اور چین کے کاروباری اور داخلی مفاد وابستہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات اب ماضی جیسے نہیں رہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر ہم آگے بات کریں گے۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ وزیراعظم کا استقبال کس نے کیا؟ ماضی میں استقبال کون کرتا تھا؟
اس کے بعد ایک زعم یہ بھی رہا کہ اس دورہ چین میں پاکستان کی بہترین سیاسی قیادت جارہی ہے اور وہ کم از کم پرچی پڑھ کر بات نہیں کرتی، یہ قیادت کشکول بھی نہیں پھیلاتی۔ ان دونوں امیجز کا کیا ہوا وہ بھی ہم نے دیکھ لیا۔ کشکول کی بات پر کیسی کیسی خبریں سننے کو آئیں، کیسے کیسے کارٹونز نہیں چھاپے گئے اور پھر عمران خان نے پرچی نہیں بلکہ اے فور سائز کا پرچہ پڑھ کر بات کی، وہ بھی سب نے دیکھ لیا۔ میں دیکھ کر بات کرنے کے ہرگز خلاف نہیں ہوں، سربراہ مملکت کو ایسے ہی بات کرنی چاہیے لیکن اگر ماضی میں آپ اپنے مخالف کی اس بات پر ایسی کی تیسی کرچکے ہوں تو پھر آپ کو بھی اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ کام نہ کریں۔
پاکستان کے چین کے ساتھ تعقات کے جدید موجد ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس کے بعد سے پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان کو ماضی میں خصوصی احترام بھی ملتا رہا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات کےلیے عمران خان ناگزیر ہیں تو وہ غلط کہتا ہے اور یہاں پر تاریخی حوالے سے کیا گیا تجزیہ حکومت وقت کےلیے باعث مایوسی بھی بن سکتا ہے۔
پاکستان اور چین کا تعلق ہمسائیگی کے ساتھ ساتھ باہمی مفادات کا بھی ہے۔ ان باہمی مفادات میں سی پیک ایک انتہائی اہم جزو ہے۔ تاہم، حکومت وقت نے اس کو بھی مذاق بنادیا ہے اور اس منصوبے اور اس سے جڑی تمام تر باتوں کے گرد ایک غیریقینی کی دبیز تہہ جما دی ہے۔ سی پیک وہ منصوبہ تھا جس کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے تھا۔ اب چونکہ گزشتہ حکومت اس کا کریڈٹ لیتی رہی ہے تو حالیہ حکومت نے اس پر اُس رفتار سے کام ہی نہیں کیا جس رفتار سے ہونا چاہیے تھا اور ہم سب جانتے ہیں کہ سی پیک سست روی کا شکار ہوچکا ہے۔ چین بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کا کام کس وجہ سے سست روی کا شکار ہوا ہے۔
امریکا اور چین کے مابین اقتصادی سرد جنگ چل رہی ہے، جسے سابق امریکی صدر ٹرمپ نے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس نازک موڑ پر کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اور اگر پاکستان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے کسی ایک ملک کا کھل کر ساتھ نہیں دینا ہے تو پھر پاکستان کیسے ان دونوں ممالک کو ناراض کیے بغیر تعلقات میں توازن قائم رکھے گا؟ کیا چین کو سی پیک میں امریکی مداخلت کا غم نہیں ہے؟ کیا چین کو علم نہیں کہ کس کے دباؤ پر چین کے مفادات کو زک پہنچ رہی ہے؟ کیا پاکستان کا سی پیک کے حوالے سے کردار درست ہے؟ گزشتہ کچھ عرصے سے آنے والی خبریں تو کچھ اور ہی داستان سنا رہی ہیں۔
سیکیورٹی کی صورتحال پاکستان میں خراب ہورہی ہے۔ ہم نے ماضی میں دہشتگردی کے عفریت سے جنگ لڑ کر اس کو شکست دی تھی لیکن وہ عفریت اب پھر سے سر اُٹھا رہا ہے۔ دہشتگردی کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہے۔ یہ کاروبار کی تباہی کی ضمانت ہے۔ سرمایہ کار چڑیوں کی طرح ہوتے ہیں اور اگر یہ ایک مرتبہ اُڑ جائیں تو پھر دوبارہ اُس چوبارے پر نہیں آتے۔ ہم نے بہت مشکل سے اس چوبارے کو دوبارہ آباد کیا ہے، لہٰذا ہمیں سب کام چھوڑ کر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سی پیک بلوچستان میں ہے اور حالات وہیں خراب ہورہے ہیں۔ غیر یقینی کی صورتحال میں تو مقامی سرمایہ کار نہیں بیٹھتا تو پھر چینی سرمایہ کار کیسے آئے گا؟ پاکستان کو اپنے سیکیورٹی مسائل فوری حل کرنے ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نہ جانے کیوں یہ خبط سوار ہے کہ ہم بہترین ڈائیلاگ کرسکتے ہیں۔ آج تک اندورن ملک اپوزیشن سے ڈائیلاگ کر نہیں سکے، صورتحال یہ ہے کہ اسمبلی سیشنز تک مینیج کرنے پڑ جاتے ہیں تو ہم چلے ہیں چین اور امریکا میں ثالثی کروانے؟ اس نکتے پر میرے گمان کی حد تک ہم نے کوئی پیپر ورک نہیں کیا ہے، ورنہ ہم یہ بات ہرگز نہ کہتے۔
ہمیں کیا شوق ہے؟ کبھی سعودیہ اور ایران میں مفاہمت کرواتے ہیں تو کبھی ہم سرحدیں ملا دیتے ہیں۔ ہم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے؟ ہمیں بلوچستان کو محفوظ کرنا ہے۔ ہمیں اپنی سیکیورٹی کو بہتر کرنا ہے۔ ہمیں سی پیک پر کام کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔ ہمیں پاکستان میں چین کے مفادات کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول اور تحفظ کرنا ہے۔ ہم نے چین اور امریکا میں ثالثی نہیں کروانی، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ سوشل میڈیا اس صدی کی حقیقت ہے اور اس کو دبانا اب ناممکن ہوچکا ہے۔ جس چین میں میٹا یعنی فیس بک اور اس کی مصنوعات بین ہیں، اسی چین سے فیس بک کا کروڑوں کا صارف بھی ہے۔ آپ سوشل میڈیا کو دبا نہیں سکتے البتہ اچھی اور مربوط پلاننگ سے اس کے کانٹینٹ کو کسی حد تک مینیج کرسکتے ہیں۔ حالیہ دورہ چین کے حوالے سے جتنے مرضی حقائق چھپا لیے جائیں، اپنی مرضی کی جتنی مرضی پریس ریلیز چھپوا لی جائیں، حقیقت کسی نہ کسی طرح سے سامنے آجاتی ہے۔ اس دورہ چین کی حقیقت سرکاری پریس ریلیز سے باہر اتنی اچھی نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین ایک نازک وقت میں ہوا ہے۔ اس دورے سے قبل ہی اندرون ملک غیر یقینی کی صورتحال رہی اور یہ صورتحال ظاہر ہے کہ بے چینی پیدا کرتی ہے۔
کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ اس دورے میں چینی صدر ہمارے وزیراعظم سے ملاقات کریں گے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں، تاہم وزیراعظم اُن سے بیس منٹ کی ملاقات کرلینے میں کامیاب رہے۔ اس دورے میں وزیراعظم کی اپنے ہم منصب سے بھی ملاقات ہوئی۔ پاکستان کے وفد نے سرمائی اولمپکس کا ابتدائیہ بھی وزیراعظم کی قیادت میں دیکھا اور اب جبکہ دورہ اختتام پذیر ہوچکا ہے تو اس کے تجزیے کا بھی آپ کو علم ہے کہ یہ دورہ کیسا رہا؟
یہ ایک انتہائی اوسط قسم کا دورہ تھا، بلکہ ایسا کہہ لیجئے کہ اوسط سے بھی کم درجے کا دورہ رہا۔ اس دورے میں پاکستان اور چین کے کاروباری اور داخلی مفاد وابستہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات اب ماضی جیسے نہیں رہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر ہم آگے بات کریں گے۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ وزیراعظم کا استقبال کس نے کیا؟ ماضی میں استقبال کون کرتا تھا؟
اس کے بعد ایک زعم یہ بھی رہا کہ اس دورہ چین میں پاکستان کی بہترین سیاسی قیادت جارہی ہے اور وہ کم از کم پرچی پڑھ کر بات نہیں کرتی، یہ قیادت کشکول بھی نہیں پھیلاتی۔ ان دونوں امیجز کا کیا ہوا وہ بھی ہم نے دیکھ لیا۔ کشکول کی بات پر کیسی کیسی خبریں سننے کو آئیں، کیسے کیسے کارٹونز نہیں چھاپے گئے اور پھر عمران خان نے پرچی نہیں بلکہ اے فور سائز کا پرچہ پڑھ کر بات کی، وہ بھی سب نے دیکھ لیا۔ میں دیکھ کر بات کرنے کے ہرگز خلاف نہیں ہوں، سربراہ مملکت کو ایسے ہی بات کرنی چاہیے لیکن اگر ماضی میں آپ اپنے مخالف کی اس بات پر ایسی کی تیسی کرچکے ہوں تو پھر آپ کو بھی اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ کام نہ کریں۔
پاکستان کے چین کے ساتھ تعقات کے جدید موجد ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس کے بعد سے پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان کو ماضی میں خصوصی احترام بھی ملتا رہا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات کےلیے عمران خان ناگزیر ہیں تو وہ غلط کہتا ہے اور یہاں پر تاریخی حوالے سے کیا گیا تجزیہ حکومت وقت کےلیے باعث مایوسی بھی بن سکتا ہے۔
پاکستان اور چین کا تعلق ہمسائیگی کے ساتھ ساتھ باہمی مفادات کا بھی ہے۔ ان باہمی مفادات میں سی پیک ایک انتہائی اہم جزو ہے۔ تاہم، حکومت وقت نے اس کو بھی مذاق بنادیا ہے اور اس منصوبے اور اس سے جڑی تمام تر باتوں کے گرد ایک غیریقینی کی دبیز تہہ جما دی ہے۔ سی پیک وہ منصوبہ تھا جس کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے تھا۔ اب چونکہ گزشتہ حکومت اس کا کریڈٹ لیتی رہی ہے تو حالیہ حکومت نے اس پر اُس رفتار سے کام ہی نہیں کیا جس رفتار سے ہونا چاہیے تھا اور ہم سب جانتے ہیں کہ سی پیک سست روی کا شکار ہوچکا ہے۔ چین بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کا کام کس وجہ سے سست روی کا شکار ہوا ہے۔
امریکا اور چین کے مابین اقتصادی سرد جنگ چل رہی ہے، جسے سابق امریکی صدر ٹرمپ نے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس نازک موڑ پر کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اور اگر پاکستان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے کسی ایک ملک کا کھل کر ساتھ نہیں دینا ہے تو پھر پاکستان کیسے ان دونوں ممالک کو ناراض کیے بغیر تعلقات میں توازن قائم رکھے گا؟ کیا چین کو سی پیک میں امریکی مداخلت کا غم نہیں ہے؟ کیا چین کو علم نہیں کہ کس کے دباؤ پر چین کے مفادات کو زک پہنچ رہی ہے؟ کیا پاکستان کا سی پیک کے حوالے سے کردار درست ہے؟ گزشتہ کچھ عرصے سے آنے والی خبریں تو کچھ اور ہی داستان سنا رہی ہیں۔
سیکیورٹی کی صورتحال پاکستان میں خراب ہورہی ہے۔ ہم نے ماضی میں دہشتگردی کے عفریت سے جنگ لڑ کر اس کو شکست دی تھی لیکن وہ عفریت اب پھر سے سر اُٹھا رہا ہے۔ دہشتگردی کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہے۔ یہ کاروبار کی تباہی کی ضمانت ہے۔ سرمایہ کار چڑیوں کی طرح ہوتے ہیں اور اگر یہ ایک مرتبہ اُڑ جائیں تو پھر دوبارہ اُس چوبارے پر نہیں آتے۔ ہم نے بہت مشکل سے اس چوبارے کو دوبارہ آباد کیا ہے، لہٰذا ہمیں سب کام چھوڑ کر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سی پیک بلوچستان میں ہے اور حالات وہیں خراب ہورہے ہیں۔ غیر یقینی کی صورتحال میں تو مقامی سرمایہ کار نہیں بیٹھتا تو پھر چینی سرمایہ کار کیسے آئے گا؟ پاکستان کو اپنے سیکیورٹی مسائل فوری حل کرنے ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نہ جانے کیوں یہ خبط سوار ہے کہ ہم بہترین ڈائیلاگ کرسکتے ہیں۔ آج تک اندورن ملک اپوزیشن سے ڈائیلاگ کر نہیں سکے، صورتحال یہ ہے کہ اسمبلی سیشنز تک مینیج کرنے پڑ جاتے ہیں تو ہم چلے ہیں چین اور امریکا میں ثالثی کروانے؟ اس نکتے پر میرے گمان کی حد تک ہم نے کوئی پیپر ورک نہیں کیا ہے، ورنہ ہم یہ بات ہرگز نہ کہتے۔
ہمیں کیا شوق ہے؟ کبھی سعودیہ اور ایران میں مفاہمت کرواتے ہیں تو کبھی ہم سرحدیں ملا دیتے ہیں۔ ہم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے؟ ہمیں بلوچستان کو محفوظ کرنا ہے۔ ہمیں اپنی سیکیورٹی کو بہتر کرنا ہے۔ ہمیں سی پیک پر کام کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔ ہمیں پاکستان میں چین کے مفادات کو گہری نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول اور تحفظ کرنا ہے۔ ہم نے چین اور امریکا میں ثالثی نہیں کروانی، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ سوشل میڈیا اس صدی کی حقیقت ہے اور اس کو دبانا اب ناممکن ہوچکا ہے۔ جس چین میں میٹا یعنی فیس بک اور اس کی مصنوعات بین ہیں، اسی چین سے فیس بک کا کروڑوں کا صارف بھی ہے۔ آپ سوشل میڈیا کو دبا نہیں سکتے البتہ اچھی اور مربوط پلاننگ سے اس کے کانٹینٹ کو کسی حد تک مینیج کرسکتے ہیں۔ حالیہ دورہ چین کے حوالے سے جتنے مرضی حقائق چھپا لیے جائیں، اپنی مرضی کی جتنی مرضی پریس ریلیز چھپوا لی جائیں، حقیقت کسی نہ کسی طرح سے سامنے آجاتی ہے۔ اس دورہ چین کی حقیقت سرکاری پریس ریلیز سے باہر اتنی اچھی نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔