ہم کیوں نہ شکر کریں

ایک جگہ ایک کمرے میں دو افراد سے کہا گیا کہ وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھیں اور بتائیں کہ انھوں نے کیا دیکھا۔


ڈاکٹر شہلا کاظمی February 18, 2014

LONDON: ایک جگہ ایک کمرے میں دو افراد سے کہا گیا کہ وہ کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھیں اور بتائیں کہ انھوں نے کیا دیکھا۔چنانچہ دونوں افراد نے باری باری کھڑکی سے باہر دیکھا تو ایک نے کہا کہ اسے گلی میں گندگی نظر آئی جب کہ دوسرے نے بتایا کہ اسے آسمان پر اڑتے پرندے نظر آئے۔ یہ حسن نظر اور یہ سوچ کا انداز ہی دراصل قوموں کی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی قوم عام طور پر مایوس نظر آتی ہے۔ جو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر شاکی اور رنجیدہ ہے حالانکہ ایسے بے شمار پہلو ہیں جن پر خوش اور مطمئن بھی رہا جا سکتا ہے مگر اس طرف ان کی نظریں اٹھتی ہی نہیں۔ دراصل انسان کے اندر خوشی اور انبساط کی کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ شکر ادا کرتا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سوچ کا کون سا انداز اور فکر کا کون سا رخ ہمیں خوشی اور مسرت کی طرف لے جاسکتا ہے جس سے ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی مایوسی اور بد دلی کو کسی حد تک کم یا ختم کیا جاسکتا ہے کہ یہی وہ عمل ہے جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگوں نے شاید اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا کہ یہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنی بہترین امت میں پیدا کیا اور ایمان پر ہماری آنکھ کھولی۔ پھر ہم اس بات پر کیوں نہ شکر کریں۔ انسان کے سدھار میں اس کی اپنی سوچ، احساس اور جذبہ جو مثبت کردار ادا کرتے ہیں وہ بڑے سے بڑا قانون نافذ کرنے والا ادارہ بھی نہیں کر سکتا۔

ہمیں تاریخ کا سبق یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ عربی اور عجمی کا تفرقہ پیدا کرکے ختم کردی گئی اور ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت اغیار کو رعایتیں دے دے کر خود اپنی قبر کھود بیٹھی۔

ہمارے ملک پاکستان کے پاس وسیع رقبہ ہے جو کئی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بڑا ہے۔ ہماری سرزمین بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے پاس دریا ہیں، ٹھاٹھیں مارتا ہوا وسیع و عریض سمندر ہے۔ قدرتی اجناس پھل اور سبزیاں بڑی مقدار میں یہاں پیدا ہوتے ہیں۔ قدرت کے سارے موسم اعتدال کے ساتھ یہاں اپنی بہاریں دکھاتے ہیں۔ پہاڑ، جنگل، چٹیل میدان سب کچھ یہاں موجود ہیں۔ باصلاحیت اور محنتی افرادی قوت کی اگرچہ ہمارے ملک میں اب قلت نہیں ہے مگر پچھلے چالیس (40) برسوں سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا باہر ممالک میں جانا اور اپنا قیمتی وقت، محنت، طاقت اور علم اپنے وطن عزیز پر صرف کرنے کی بجائے بیرون ممالک کو شاداب کرنے پر لگانا ہمارے ملک کے لیے کوئی بہتر نتائج پیدا نہیں کر رہا۔ گوکہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ملک میں بیروزگاری ہے اور لوگ بہتر روزگار کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر یہ مسئلے کا مستقل حل تو نہیں۔ باہر جانے والے ہمارے زیادہ تر ہم وطنوں کی زندگیاں بھی زیادہ خوش کن نہیں ہوتیں انھیں ان کی اجرت اور تنخواہیں بھی وہ نہیں ملتیں جو بیرونی ممالک ان کے ہم پلہ اپنے شہریوں کو دیتے ہیں وہ ایک دوسرے درجے کے شہری کی طرح ڈرے سہمے اپنی زندگی کے دن وہاں گزار رہے ہوتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی تمام تر افرادی قوت (بشمول بیرون ملک پاکستانی) اپنے تمام تر علم، تجربے ، طاقت اور مالی وسائل سے اپنی اسی سرزمین پر سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے یہاں سے سونا نکالنے کی کوشش کریں۔میں نے ایک طویل عرصہ اعلیٰ تحقیقی اور انتظامی عہدوں پر کام کیا ہے۔

میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ مناصب پر فائز افراد جب غیر ملکیوں سے ملتے ہیں تو مرعوب ہوجاتے ہیں اور نہ تو اپنا مطمع نظر صحیح طور پر بیان کر پاتے ہیں۔ یہاں میں ایک امریکی بزنس مین رابرٹ۔ ای۔مولیگن (Robert E. Mulligan) سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کروں گی جب وہ 1989 میں قائد اعظم پر اپنی ایک فلم بنانے کے سلسلے میں پاکستان تشریف لائے۔ ایک غیر رسمی ملاقات میں انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ قائد اعظم پر فلم بنا رہے ہیں اور اپنی اس فلم کا ابتدائی یا تعارفی جملہ انھوں نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی ایک تقریر سے لیا ہے پھر انھوں نے مجھے وہ جملہ پڑھ کر سنایا۔ یہ وہی جملہ تھا جس کی عام طور پر غلط ترجمانی کی جاتی رہی ہے۔ جس کا مقصد اس وقت مذہبی رواداری کے اظہار کے سوا اور کچھ نہ تھا کیونکہ پاکستان کے قیام پر ہندوؤں کی بڑی تعداد جو یہاں رہائش پذیر تھی وہ ڈر کر ہندوستان جا رہی تھی۔

میں نے مولیگن صاحب سے پوچھا کہ انھوں نے اپنی فلم کے لیے قائد اعظم کی اس متذکرہ تقریر کا یہ جملہ کیوں منتخب کیا ہے؟ جب کہ قائد اعظم کی ایسی بے شمار تقاریر ہیں جن میں انھوں نے پاکستان کی ریاست و حکومت کے مسلم خدوخال کا بڑے واضح انداز میں جائزہ لیا ہے اس پر میں نے مولیگن صاحب کو اپنے آفس (قائد اعظم اکادمی) میں ہی اچھا خاصا لیکچر بھی دے ڈالا۔ انھوں نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا البتہ ہنس کر کہنے لگے کہ ''آپ نے یہ بنیادی سوال (Fundamental Question) مجھ سے کیا ہے۔ میں پاکستان کے کئی شہروں میں گیا ہوں اور بہت لوگوں سے ملا ہوں مگر کسی نے بھی مجھ سے یہ سوال نہیں کیا جو آپ کر رہی ہیں''۔ اس کے بعد رابرٹ مولیگن دوبارہ بھی میرے آفس میں مجھ سے ملنے آئے اور امریکا جاکر انھوں نے مجھے کئی خطوط بھی لکھے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ میری گفتگو کا ان پر کیا اثر ہوا مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ جناب رابرٹ مولیگن کی متذکرہ فلم کے بارے میں ہمیں کوئی مزید خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہاں ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر پاکستان کے کسی بھی پہلو کی غلط ترجمانی کی حوصلہ شکنی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کا وقار ہر سو بلند نہ ہوسکے۔

ہمیں اس بات کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے اور خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں شادی کا نظام مستحکم ہے اور رشتہ ازدواج میں بندھنے والے مرد اور عورت کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ ان کی شادی قائم رہے اور وہ عمر بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں ہمارے ملک میں بیرونی ممالک کی نسبت طلاق کے واقعات بہت کم ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں بزرگوں کے بے شمار ادارے کھلے ہیں جہاں عمر رسیدہ افراد اپنا وقت گزارتے ہیں ہم کیوں نہ شکر کریں کہ ہمارا پاکستانی معاشرہ ان معاملات میں بہت اچھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں