نیا پاکستان

وہ ہمیں نئے پاکستان کے خواب دکھاتے رہے اور ہم خواب دیکھتے دیکھتے واقعی نئے پاکستان میں داخل ہوگئے...


جاوید قاضی February 18, 2014
[email protected]

وہ ہمیں نئے پاکستان کے خواب دکھاتے رہے اور ہم خواب دیکھتے دیکھتے واقعی نئے پاکستان میں داخل ہوگئے یہ الگ بات ہے کہ نیا پاکستان وہ نہیں جس کے ہمیں خواب دکھائے جاتے رہے اور ہم دیکھتے رہے۔ پشاور میں قصہ خوانی بازار جس کی تاریخ ایک صدی پہ پھیلی ہوئی ہے وہاں اب گھومتے لوگوں میں خوف موجود ہے ، آپ کے وجود کے اندر سب ویران منظر کی طرح دکھائی دیتا ہے اور اس پرانی اصطلاح ''خیبر سے لے کر کراچی تک'' میں اب نئے پاکستان کی باتیں بکھری پڑی ہیں۔ ہم سمجھے تھے کہ میاں صاحب اپنی پارٹی کو اور پھیلائیں گے مگر وہ اس کے برعکس اس کو سکیڑ کر پنجاب تک محدود کرتے جا رہے ہیں۔ غوث علی شاہ گئے، ممتاز بھٹو گئے، لیاقت جتوئی جا رہے ہیں اور کئی سندھ کے وڈیرے آس لگائے بیٹھے تھے مگر لگتا یوں ہے کہ سب کو وہ فنکشنل و پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑے جا رہے ہیں اور زرداری صاحب بھی ان کی اس روایت سے بہت محظوظ ہیں کہ تھر کوئلے کی افتتاحی تقریبات میں ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ رہی بے چاری کراچی کی مسلم لیگ یا پی ٹی آئی وہ زیادہ گہما گہمی ان کی بھی نئی رہی۔

جو دو وزیر وفاق میں سندھ کے ہیں وہ بھی گوشہ نشینی میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ یہ نیا پاکستان نہیں تو کیا ہے، کبھی کہتے ہیں اسامہ کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز نے مارا ہی نہیں، پھر کہتے ہیں ملالہ سوات کی رہنے والی ہے ہی نہیں ۔ پھر کہتے ہیں کہ وہ سوات کی تو ہے مگر سامراج کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ یعنی جو تعلیم کی بات کرے وہ اس ملک کے غدار ٹھہرے۔ جہاں لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان کینیڈا ذریعہ معاش کے لیے جا رہے ہوں یہ نیا پاکستان نہیں تو کیا ہے۔

سویت یونین کے افغانستان سے جانے کے بعد جنگ سے جو بربادی ہوئی تھی، اس نے خود ایک نئے افغانستان کو جنم دیا تھا۔ تباہی سے بھرا ہوا نیا افغانستان، پھر نجیب اللہ کو چوک پر لٹکا دیا گیا۔ وہ نیا افغانستان کیا ہوا، آج وہاں امریکی فوجیں بسا کرتی ہیں اور یہ مسلح گروہ بے روزگار تو نہیں بیٹھ سکتے ۔ اب وہ افغانستان کو ثانوی حیثیت دے کر پہلے پاکستان کے مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں اور یہ بہت سود مند بھی ہے۔

تھوڑے فرق کے ساتھ یہ سارا حال پاکستان کی ہر جگہ کا ہے۔ تحصیل علم سے محروم ایک نسل پروان چڑھ چکی ہے اور ریاست کے پاس سوائے مہنگائی کے ان غریبوں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ ان پر ٹیکس یہ لگا نہیں سکتے، سستی بجلی یہ پیدا نہیں کرسکتے، ایران سے یہ گیس لے نہیں سکتے اور پھر سوائے نوٹ چھاپنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ترقیاتی بجٹ کو کم کرنا، آئی ایم ایف کے تھلے لگ جانے کے علاوہ باقی کچھ بچا نہیں ہے۔ یہ نیا پاکستان نہیں تو کیا ہے۔

اور اوپر سے میڈیا کے اینکروں نے Mass Media والی Bullet Theory اپنائی ہوئی ہے کہ ایسی بات کرو جس سے لوگ ششدر ہوجائیں اور لوگ ہمارے پروگرام کے ساتھ چپک جائیں اور ہماری ریٹنگ اچھی ہو۔

یہ نیا پاکستان نہیں تو کیا ہے۔ جہاں ہر چیز پیسے سے ملتی ہے اچھا وکیل نہیں تو کورٹ میں انصاف کیسے ملے گا اور اچھا وکیل مفت میں نہیں پیسوں سے ملے گا۔ اچھا ڈاکٹر ہو یا اچھا اسپتال و اسکول سب پیسوں سے ملتے ہیں اور تو اور آپ کو وطن عزیز کے آئین میں دی ہوئی جان و مال والی اولین ترین یقین دہانی بھی اب پیسوں سے ملتی ہے جن کو نہیں ملتی وہ حکیموں کے پاس جایا کرتے ہیں اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجا کرتے ہیں اور جب وہ جوان ہوتے ہیں تو ان کو وہ سیکولر ہنر یعنی دنیوی پسند آتے نہیں جس سے وہ عزت بھرا ذریعہ معاش ڈھونڈ سکیں ۔ اور انصاف کے لیے وہ جرگوں کی نذر ہوجایا کرتے ہیں۔ جب ریاست کے پاس دینے کو کچھ نہیں تو وہ ان سے لینے کا کیسے تقاضا کرسکتی ہے۔

یہ نیا پاکستان ہے۔پیارے بھائی ۔ بات جن سے کی جا رہی ہے وہ بھی جو بات کرنے جا رہے ہیں جو قاتل تھے وہ مقتول ہوئے اور جو مقتول تھے وہ قاتل ۔ جنون و خرد کی حسن کرشمہ سازی کے طفیل ہم تو سمجھے تھے کہ بلوچستان کے ڈاکٹر مالک بہت رسوا ہوں گے کیونکہ بلوچ شورش پسند ان کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے مگر حیرت تو تب ہوئی جب عمران خان خود پشاور میں اپنی ہی حکومت کے خلاف بولنگ کر رہے ہوں اور بالآخر بول پڑے کہ میں کیا کروں جنرل کیانی نے کہا تھا کہ کامیابی کے 40 فیصد امکانات ہیں۔ یعنی جنگ تو ہم ہار گئے ہیں۔ اس کا مطلب تو عمران خان ہارا ہوا میچ کھیل رہے ہیں۔ یہ نیا پاکستان نہیں تو کیا ہے۔ نواز شریف نے جان بوجھ کر اپنی پارٹی کی حکومت خیبر پختونخوا میں تشکیل نہیں دی۔

میں بہت اپنی تحریروں میں سر پکڑ کر رویا اور سندھی قوم پرستوں کو کہا کہ وہ سندھ کی اہنسا کی روایت کی پاسداری کریں چونکہ آیندہ دنوں میں اس کو خطرہ ہے، الیکشن میں ایسی جماعتوں کے ساتھ مت کھڑے ہوں جن کے ایجنڈے میں اہنسا نہیں ہے۔ خیر عوامی نیشنل پارٹی پر یا پختون قوم پرستوں پر جتنے بھی الزام لگائے مگر انھوں نے باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفہ کو نہیں چھوڑا۔ ہاں مگر ہمارے سندھی قوم پرست یہ کام کب کا چھوڑ چکے جس کی بات جی ایم سید کیا کرتے تھے۔

غرض یہ کہ جو مغز ہے میری اس تحریر کا وہ یہ ہے کہ کوئی بھی منظر جامد و ساکن نہیں رہتا یا تو پروان چڑھتا ہے یا وہ زوال پذیر ہو رہا ہوتا ہے۔ چیزیں بننے کو جارہی ہوں یا ٹوٹنے کو دونوں صورتوں میں وہ نئی حقیقت بن کر نمودار ہوجاتی ہیں۔ بالکل اس نئے پاکستان کی طرح ، یہ پاکستان اب جوں کا توں نہیں چل سکتا۔ اس نے کروٹ لے لی ہے اسے اب اس پار یا اس پار جانا ہے خواہ ہمارے حکمرانوں نے شتر مرغ کی طرح اپنی ٹانگ اوپر کرکے گرتے ہوئے آسمان کو کتنا بھی بظاہر روکے رکھا ہو ۔ مگر ہمیں آج بھی فیض کی کہی ہوئی یہ باتیں یاد نہیں آتیں۔

تم اب اس شہر کا نام و نشاں پوچھتے ہو

جس کی تاریخ نہ جغرافیہ یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوب گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جیسے جی گھبرائے

سندھ کے بھی کچھ صدیاں پہلے اپنے ایک چیسٹر ڈیمس تھے۔ ان کا نام ''گروپسی'' تھا وہ کہہ گئے ہیں کہ سندھ کو ضرب قندھار سے لگے گی۔ یعنی جو آگ پھیلی ہے آج اس کی جڑیں وہیں سے ہیں مگر ہم یہ بھی تو بھول جاتے ہیں کہ سندھ کو زندہ کرنے والے ''بھٹائی'' کے اجداد بھی تو وہیں سے ہجرت کرکے سندھ آئے تھے۔ سندھ ہو یا قندھار ہو جہاں کے شرفا لوگوں کے ساتھ نا انصافی کریں گے ، عوام کی سہولتوں کے لیے مختص پیسے ہڑپ کر جائیں گے جہاں اسکول بند رہتے ہوں وہاں ایسا ہونا لازم ہے اب تو لینے کے دینے پڑ گئے افغانستان تو گیا ہی گیا اب تو یہ ملک بھی نذر بحران ہے۔ واہ جنرل ضیا صاحب کیا کہنے ہیں آپ کے ، بات کرنے والے بھی آپ اور جن سے بات کی جا رہی ہے وہ بھی آپ۔ آپ ہی اپنے آپ ہی پرائے۔ آپ ہی دشمن، آپ ہی دوست ۔ یہ نیا پاکستان نہیں تو کیا ہے؟ بولنگ پر بھی عمران خان اور بیٹنگ پر بھی عمران خان۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں