غیر جمہوری طرز عمل

آپ دنیا کے مہذب اور جمہوری معاشروں میں عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے طرز عمل پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا...

آپ دنیا کے مہذب اور جمہوری معاشروں میں عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے طرز عمل پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا وہاں پر منتخب رکن پارلیمنٹ حکومتی مدت کے دوران اپنے حلقے کے عوام سے نہ صرف یہ کہ براہ راست رابطے میں رہتا ہے بلکہ لوگوں کے مسائل و مشکلات حل کرانے میں اپنا کردار پوری دیانت داری اور اخلاص نیت کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں اپنے حلقے کے مسائل کے حوالے سے موثر آواز اٹھاتا ہے اور متعلقہ اداروں سے بھی مسلسل رابطہ کرکے انھیں حل کرانے کی بھرپور کوششیں کرتا ہے۔ عوام اور منتخب نمایندوں کے درمیان رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی، برطانیہ جو جمہوریت کی ماں کہلاتا ہے وہاں عوام اپنے حلقے کے منتخب نمایندوں کو خطوط لکھ کر مسائل سے آگا کرتے ہیں اور انھیں اپنے خطوط کا باقاعدہ جواب بھی موصول ہوتا ہے اور منتخب نمایندے متعلقہ حکام تک اپنے حلقے کے لوگوں کی آواز پہنچاتے ہیں اور درپیش مسائل پر ہونے والی پیش رفت سے اپنے ووٹرز کو آگاہ بھی کرتے ہیں۔

یہی طرز سیاست حقیقی جمہوری نظام کی خوبصورتی ہے خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت بھی ہے اور جمہوری نظام کا پورا سیٹ اپ بھی موجود ہے۔ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں عوام کے منتخب نمایندے پوری ''شان و شوکت'' کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ کابینہ و وزرا کرام بھی پورے ''جاہ و جلال'' کے ساتھ اپنی اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہیں۔ وزیر اعظم، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنرز اور صدر مملکت پوری ''آن بان'' کے ساتھ اپنے اپنے شاندار دفاتر میں رونق افروز ہیں۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام اور ان کے منتخب نمایندوں کے درمیان رابطوں کا گہرا فقدان ہے۔ یہ ایک دوسرے کی آواز سننے، چہرے پہچاننے اور خوشی و غم میں شریک ہونے سے قاصر ہیں۔

ہمارے منتخب نمایندوں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ صرف الیکشن کے دنوں میں اپنے حلقوں میں عوام سے ووٹ کی ''بھیک'' مانگنے جاتے ہیں اور اس کے عوض لوگوں کے مسائل و مشکلات حل کروانے کی یقین دہانیاں کراتے اور بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ غریب، سادہ لوح اور عام آدمی نامزد امیدواروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر امیدوں کے پھول کھلنے کی آرزو میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹوں کی طاقت سے منتخب کرکے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں پہنچتے ہی ان کے دن ''پھر'' جاتے ہیں۔ یہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں ان کے بچے اعلیٰ انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں علاج معالجے کے لیے مہنگے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں پنج ستارہ ہوٹلوں میں لنچ و ڈنر کرتے ہیں۔ قیمتی لباس زیب تن کرتے ہیں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ قومی خزانے سے اپنی تنخواہوں، مراعات اور سہولیات کے بلز اسمبلیوں سے آن واحد میں پاس کروا لیتے ہیں۔


لیکن افسوس صد افسوس کہ عوام کی خدمت کرنے کے دعویدار حلف اٹھانے کے بعد بالعموم اپنے حلقوں میں جانے، لوگوں سے رابطے رکھنے ان کے مسائل و مشکلات حل کروانے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ محض اخباری بیانات جاری کرنے اور ٹی وی ٹاک شوز میں ''فضول باتیں'' کرکے گویا اپنا فرض منصبی ادا کردیتے ہیں۔ ایک اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے اسمبلیوں میں اپنی حاضری یقینی بنانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اہم مواقعوں پر بھی اسمبلیوں کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے اس کی ایک تازہ مثال انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے وقت نظر آئی جب بیشتر اراکین اسمبلی غیر حاضر تھی۔ حکمرانوں کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے تمام اجلاسوں میں شرکت کرنی چاہیے تاکہ دیگر اراکین بھی ان کی پیروی میں اجلاسوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اور ملک و قوم کو درپیش چیلنجوں اور سنگین مسائل پر سیر حاصل بحث کی جاسکے اہم قومی معاملات پر وزرا کرام اراکین کے سوالوں کے جواب دے سکیں اور قانون سازی و دیگر ایشوز پر اتفاق رائے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔ لیکن حاکم وقت قومی اسمبلی و سینیٹ میں بہت کم آتے ہیں۔ اپوزیشن نے حالیہ اجلاس میں وزیر اعظم کی مسلسل غیر حاضری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بجا طور پرکہا کہ وزیر اعظم کو قومی اسمبلی قائد ایوان بناتی ہے اور وزیر اعظم کا کہا ایک ایک لفظ پالیسی بنتا ہے، وزیر اعظم ایوان میں آکر قوم کو بتائیں کہ وہ ان کے لیڈر ہیں۔

پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی عمران ظفر لغاری ، شیخ رشید احمد، عمران خان اور دیگر اراکین اسمبلی نے بھی وزیر اعظم کی عدم حاضری کو تنقید کا نشانہ بنایا اس حوالے سے اپوزیشن نے اسمبلی سے واک آؤٹ بھی کیا۔ وزیراعظم قومی اسمبلی میں تو حاضر ہوگئے جہاں انھوں نے اپنے خطاب میں امن کو ایک اور موقع دیتے ہوئے ملک میں قیام کی خاطر طالبان سے مذاکرات کے لیے باضابطہ ایک مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا جو آج کل طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی سے رابطے اور مذاکرات کر رہی ہے پوری قوم کی نظریں ''امن مذاکرات'' پر لگی ہوئی ہیں اور لوگ دست بہ دعا ہیں کہ حکومت کی مذاکراتی کوششیں ''ثمر آور'' ثابت ہوں اور قوم کو ایک مسلسل عذاب سے نجات مل سکے۔

گزشتہ کارروائی کے دوران اراکین سینیٹ نے وزیر اعظم کے ایوان میں نہ آنے اور سوالات کے جوابات نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔ ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سینیٹر رضا ربانی نے برملا کہا کہ حکومت صبح شام پی آئی اے، اسٹیل ملز ودیگر اداروں کی نجکاری کا واویلا کر رہی ہے لیکن اس حوالے سے پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہونا چاہتی۔ آٹھ ماہ گزر گئے لیکن وزیر اعظم ایوان بالا میں نہیں آئے۔ وزرا جوابات نہیں دیتے ۔ رضا ربانی نے مزید کہا کہ سینیٹ سیکریٹریٹ سے کہا جائے کہ وہ وزرا کا اشتہار اخبار میں دے۔ یہ صورت حال انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔اس صورتحال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ عوام اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں حکومتی رویوں پر تنقید کی جا رہی ہے جو غلط نہیں چونکہ حکومت اپنے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق ملک سے دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، خودکش و ڈرون حملے رکوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی، عوام کو تسلی بخش جواب دینے سے گریزاں ہے اسی لیے حکمران اور وزرا پارلیمانی اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے۔ حکومت کے غیر جمہوری طرز عمل سے اراکین پارلیمنٹ اور عوام دونوں میں مایوسی و بد دلی پھیل رہی ہے۔
Load Next Story