نسلی تفریق کا سماجی و سیاسی کردار دوسرا حصہ
تعمیرات کے نئے نئے پروجیکٹس کے ذریعے اقلیتوںاور معاشی طور پر کم حیثیت لوگوں کو سماج میں کمتر درجے کی...
تعمیرات کے نئے نئے پروجیکٹس کے ذریعے اقلیتوںاور معاشی طور پر کم حیثیت لوگوں کو سماج میں کمتر درجے کی زندگی گزارنے کے لیے باقاعدہ منظم طریقے سے معاشی و سیاسی اور شہرکے جدید مراکز سے دور رکھا جاتا ہے، جیسے پاکستان کے اندر مختلف شہروں میں مسیحی برادری کی بستیاں ہمیشہ سے الگ دکھائی دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ ملازمت کے شعبہ میں کم درجہ کے کمیونٹی کی صفائی اور دیکھ بھال کے کام مسیحی برادری کے سپرد کیے جاتے رہے ہیں اور ابھی تک کئی شہروں میں کوڑا کرکٹ اور شہروں کی گزر گاہوںکی صفائی مسیحی برادری کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے جو کہ پاکستان جیسے مسلم معاشرے میں اقلیت(دوسرے) کی حیثیت سے شناخت کی جاتی ہے۔ پاکستانی سیاست اور سماجت میں پہلے طاقتور اور دوسرے کمزور کو کسی بھی اورمعاشرے میں کئی سطحوں پر شناخت اور دریافت کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی ساختوں میں خواتین کی مخصوص نشستیں اور مسیحی برادری کی مخصوص نمایندگی بھی اسی 'ڈیفرنس 'کے مہیا کردہ جواز کا نتیجہ ہیں، جومذہبی خیالیات کی آغوش سے جنم لے رہا ہے۔یہ فرق ہر سطح پر موجود ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ کس طرح پہچان کے لیے کارآمداختلاف کو استحصالی طبقات نے اپنے ظلم اور بے انصافی کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنی ناجائز اجارہ داریوں کو جائز ثابت کرنے کی ہمیشہ سے کوشش کی ہے۔
علاقائی اور نسلی تعصب کی بنیاد میں موجود اس ڈیفرنس کو مختلف معاشروں کی سماجی و ثقافتی روزمرہ زندگی میں جا بجامادی ساختوں میںبھی شناخت کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ انسانی جسم اس ڈیفرنس کی پہلی مادی ساخت ہے، کیونکہ تاریخی طور پر پہلے مختلف نے دوسرے مختلف کو ہمیشہ اپنے لیے خطرے کے طور پر شناخت کیا ہے، یعنی مخصوص انسانی اجسام کی مادی اشکال اور ان سے وابستہ ڈیفرنس کو جو موجود تو ہوتا ہے مگر اس کو کسی ایک مادی جسم یا معروضی حقیقت میں ایک مخصوص ساخت میں مکمل طور پر شناخت کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کے کئی روپ ہیں جو کبھی خود کو خوف کی صورت عیاں کرتا ہے تو کبھی نفرت کی صورت تو کبھی کسی احساس ِکمتری یا برتری کی ساختوں میں ڈھل کر اپنا کردار ادا کرتا ہے، کبھی یہ پہلے اور دوسرے کے درمیان اس فاصلے کا روپ دھار لیتا ہے جو خالی ہے بھی اور نہیں بھی، جس میں زمان و مکاں دونوں حائل ہیںجس کو پُر کرنے کے لیے کسی نہ کسی آئیڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے، اس فرق کے ابہام سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے استحصالی و سامراجی قوتیں اسے کئی ساختوں میں نمایاں کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
دوسرے مختلف کے خوف سے تحریک پاکر سامراج سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اس ڈیفرنس کی بساط پر کھیلتے ہیںاس کے خالی پن کو مختلف آئیڈیالوجیز سے پُر کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے جو ان کے سیاسی مفادات کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح انسانی جسم رنگ و نسل کے فرق کی بنیاد پر کسی بھی سماج کے طاقت ور طبقات دوسرے کا استحصال کرتے آئے ہیں، مثلاََ Ghetto of the Renaissance انسانی جسم کی مخصوص مادیت سے پیدا ہونے والے اس خوف کا نتیجہ تھا جو مسیحیت کے پیروکاروں کو یہودیوں کو دیکھ کر پیدا ہوا کہ ان کے جسم ایسے وبائی مرض سے آلودہ ہیں اسی لیے ان کو گیٹو کی دیواروں میں قید رکھا جاتا تھا کہ کہیں ان کے' وبائی اجسام' کے چھو جانے سے عیسائیوں کو بھی وہ انجان مرض لاحق نہ ہوجائے جو ان کے خیال سے یہودی جسموں میں موجود ہے۔یہودیوں کے چھو جانے کا خوف درحقیقت اس تفریقی سرحدکی نمایندگی کرتا ہے جو مسیحیت کے پیروکاروں کے مشترک ایک دوسرے سے مماثل اجسام اور ان سے مختلف یہودی اجسام میں موجود تھی، جس کو بنیاد بنا کر مسیحی یہودیوں کو خود سے الگ رکھتے اور اپنے اس خوف سے آزادی کی کوشش کرتے جو 'دوسرے' مختلف سے وابستہ تھا اس طرح اقلیتی یہودی برادری جو کم طاقتور تھی بہت عرصہ تک محفوظ سماجی نظم و نسق کے نام پر تنہائی اور علیحدگی کا نشانہ بنتی رہی،یہاں یہ بات خصوصاََ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیفرنس صرف رنگ و نسل کا ہی نہیں ہوتا تناظر کا بھی ہوتا ہے۔
مختلف سماج کا اور وقت کا بھی ہوتا ہے، جیسے یورپ میں طاقتور پہلا مسیح برصغیرپاک و ہند میں 'دوسرے' کم طاقتور کے طور پر شناخت کیا جا سکتا ہے یعنی ایک سماج سے دوسرے سماج میں موجود حدِ فاصل اور رسم و روایات میں موجود ڈیفرنس اسی 'پہلے' کو' دوسرے' کی سطح پر لے آتا ہے، جو اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ رنگ و نسل کا فرق کسی کو طاقتور یا برتر نہیں بناتا بلکہ حقیقت میں طاقت کی اپنی ساختیں ہیں جو کسی کو 'پہلے 'یا 'دوسرے' کی سطح پر شناخت بخشتی ہیں، جیسے پاکستان میںمسلم اکثریت میں ہونے کی وجہ سے طاقتور ہیں اور تمام وسائل پر بھی ان کی اجارہ داری ہے جو ان کو پہلے کی سطح پر شناخت بخشتی ہے۔ اسی لیے مسیحی برادری کی بستیاںفاصلوں پر الگ دکھائی دیتی ہیں اور مذہبی خیالیات سے جنم لینے والا ڈیفرنس مسلمانوں کے رویوں کو مسیحی برادری کی طرف ایک خاص زاویے سے متعین کرتا ہے ، پسماندہ علاقوں کے لوگوں کا سماجی و سیاسی شعور بھی پسماندہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی بھی پاکستان کے غیر ترقی یافتہ شہروں یا علاقوں کے لوگوں کے رویے مسیحی برادری کے حوالے سے اسی سطح پر شناخت کیے جاسکتے ہیں۔
پاک اور ناپاک کے درمیان موجود ڈیفرنس مذہبی خیالیات کا ڈیفرنس ہے جو اس کے پیروکاروں کی عملی زندگی کو متعین کرتا ہے جو پہلے طاقتور کو دوسرے کم طاقت ور یا اقلیت کی شناخت کمتر درجہ پر متعین کر کے پہلے کی نا انصافی اور ظلم کو جواز فراہم کرتا ہے۔ اسی قسم کی مثال امریکن افریقن کے حوالے سے تاریخ میں Apartheid system تھا جس میں رنگ و نسل کی بنیاد پر ساؤتھ افریقہ کی اکثریت کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ جہاں رنگ و نسل کے ڈیفرنس کو بنیاد بناتے ہوئے قانون کے ذریعے پہلے استحصالی گورے نے' دوسرے' کم طاقتور کالے کو 1948 سے 1994 تک اپنے جبر کا شکار کیے رکھا، مگر ڈیفرنس جس کا جوہر بدلتا وقت ہے اور جو بدلتے وقت پر انحصاربھی کرتا ہے کسی ایک نسل اور سماج یا ساخت میں نہیں رہتا اسی لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے تحت گورے نے گورے کا بھی استحصال کیا، اس کی مثال اسی دور میں پورٹ الزبتھ میں بنایا جانے والا کاروبار اور ملازمتوں سے متعلق قانون تھا جو غریب لوگوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر روزگار کی تلاش میں جانے سے روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس سطح پر ہم ڈیفرنس کو امیر اور غریب کے درمیان معیشت کی ساخت میں شناخت کرسکتے ہیں جو قانون کی مدد سے اپنے خالی پن کو پورا کرتا ہے اور' پہلے' امیر گورے اور 'دوسرے' غریب گورے کے درمیان خود کو قانون کی مدد سے پھیلاتا چلا جاتا ہے۔وسطی وکٹورین عہد کے سماج میں بورژوا خاندان خصوصاََ اربن پالیسی کے تحت 'دوسرے' آلودہ غریب کو خود سے فاصلے پر رکھنے میں بآسانی اس لیے کامیاب رہے کہ معاشی ساختوں کے ڈیفرنس نے ان کو محفوظ سماجی تعمیرات کا تصور عطا کیا،جس کے نتیجے میں اربن ایریاز اور Gated ہاوسنگ پراجیکٹ کی تعمیر ممکن ہوئی۔ڈیفرنس ایسی تجرید ہے جس کو سامراج اور استحصالی طبقات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کئی ساختوں میں شناخت کر کے مستحکم کرسکتے ہیں۔ آج کے دور میں مذہبی آئیڈیالوجی کے اس فرق کے ذریعے مسلمانوں کودوسرے کی سطح پر متعین کیا جا رہا ہے، اس کو مادی سطح پر طالبان کی معروضی جسمانی ساخت میں دریافت کیا جاسکتا ہے۔
ڈیفرنس وہ ہتھیار ہے جسے سامراج کئی ساختوں میں شناخت کرکے استعمال کرتا ہے، جیسے کہ پاکستان میں موجود مذہبی مماثلت پر مبنی افراد کے مابین نسلی منافرت اور مذہبی خیالیات کے اندر ہی سے مختلف شرحوں کی بنیاد پر ایک نیا ڈیفرنس شناخت کر کے سامراج نے اپنے لیے ایک بار پھراپنے لیے طاقتور ہتھیارتیار کر لیا ہے۔اس کی واضح شناخت بلوچستان کی سیاسی ساختوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں پر بیرونی سامراج رنگ و نسل اور علاقہ پرستی کے ڈیفرنس کو مقامی استحصالی طبقے کی مدد سے نمایاں کر کے اس خطے کو توڑنے یا الگ کرنے کے لیے علیحدگی کی مصنوعی تحریک کو حقیقی جواز فراہم کرنے کی بھر پور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف اندرونی سامراج بلوچستان پر اپنے پنجے مضبوط رکھنے کے لیے مذہبی فرقوں میں موجود ڈیفرنس کو نمایاں کر نے کے لیے معصوم عوام کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔تیسری طرف علاقائی سیاست پر یقین رکھنے والے کھلاڑیوں نے بلوچی اور پنجابی کے درمیان ڈیفرنس کو اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے۔
علاقائی اور نسلی تعصب کی بنیاد میں موجود اس ڈیفرنس کو مختلف معاشروں کی سماجی و ثقافتی روزمرہ زندگی میں جا بجامادی ساختوں میںبھی شناخت کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ انسانی جسم اس ڈیفرنس کی پہلی مادی ساخت ہے، کیونکہ تاریخی طور پر پہلے مختلف نے دوسرے مختلف کو ہمیشہ اپنے لیے خطرے کے طور پر شناخت کیا ہے، یعنی مخصوص انسانی اجسام کی مادی اشکال اور ان سے وابستہ ڈیفرنس کو جو موجود تو ہوتا ہے مگر اس کو کسی ایک مادی جسم یا معروضی حقیقت میں ایک مخصوص ساخت میں مکمل طور پر شناخت کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کے کئی روپ ہیں جو کبھی خود کو خوف کی صورت عیاں کرتا ہے تو کبھی نفرت کی صورت تو کبھی کسی احساس ِکمتری یا برتری کی ساختوں میں ڈھل کر اپنا کردار ادا کرتا ہے، کبھی یہ پہلے اور دوسرے کے درمیان اس فاصلے کا روپ دھار لیتا ہے جو خالی ہے بھی اور نہیں بھی، جس میں زمان و مکاں دونوں حائل ہیںجس کو پُر کرنے کے لیے کسی نہ کسی آئیڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے، اس فرق کے ابہام سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے استحصالی و سامراجی قوتیں اسے کئی ساختوں میں نمایاں کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
دوسرے مختلف کے خوف سے تحریک پاکر سامراج سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اس ڈیفرنس کی بساط پر کھیلتے ہیںاس کے خالی پن کو مختلف آئیڈیالوجیز سے پُر کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے جو ان کے سیاسی مفادات کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح انسانی جسم رنگ و نسل کے فرق کی بنیاد پر کسی بھی سماج کے طاقت ور طبقات دوسرے کا استحصال کرتے آئے ہیں، مثلاََ Ghetto of the Renaissance انسانی جسم کی مخصوص مادیت سے پیدا ہونے والے اس خوف کا نتیجہ تھا جو مسیحیت کے پیروکاروں کو یہودیوں کو دیکھ کر پیدا ہوا کہ ان کے جسم ایسے وبائی مرض سے آلودہ ہیں اسی لیے ان کو گیٹو کی دیواروں میں قید رکھا جاتا تھا کہ کہیں ان کے' وبائی اجسام' کے چھو جانے سے عیسائیوں کو بھی وہ انجان مرض لاحق نہ ہوجائے جو ان کے خیال سے یہودی جسموں میں موجود ہے۔یہودیوں کے چھو جانے کا خوف درحقیقت اس تفریقی سرحدکی نمایندگی کرتا ہے جو مسیحیت کے پیروکاروں کے مشترک ایک دوسرے سے مماثل اجسام اور ان سے مختلف یہودی اجسام میں موجود تھی، جس کو بنیاد بنا کر مسیحی یہودیوں کو خود سے الگ رکھتے اور اپنے اس خوف سے آزادی کی کوشش کرتے جو 'دوسرے' مختلف سے وابستہ تھا اس طرح اقلیتی یہودی برادری جو کم طاقتور تھی بہت عرصہ تک محفوظ سماجی نظم و نسق کے نام پر تنہائی اور علیحدگی کا نشانہ بنتی رہی،یہاں یہ بات خصوصاََ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیفرنس صرف رنگ و نسل کا ہی نہیں ہوتا تناظر کا بھی ہوتا ہے۔
مختلف سماج کا اور وقت کا بھی ہوتا ہے، جیسے یورپ میں طاقتور پہلا مسیح برصغیرپاک و ہند میں 'دوسرے' کم طاقتور کے طور پر شناخت کیا جا سکتا ہے یعنی ایک سماج سے دوسرے سماج میں موجود حدِ فاصل اور رسم و روایات میں موجود ڈیفرنس اسی 'پہلے' کو' دوسرے' کی سطح پر لے آتا ہے، جو اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ رنگ و نسل کا فرق کسی کو طاقتور یا برتر نہیں بناتا بلکہ حقیقت میں طاقت کی اپنی ساختیں ہیں جو کسی کو 'پہلے 'یا 'دوسرے' کی سطح پر شناخت بخشتی ہیں، جیسے پاکستان میںمسلم اکثریت میں ہونے کی وجہ سے طاقتور ہیں اور تمام وسائل پر بھی ان کی اجارہ داری ہے جو ان کو پہلے کی سطح پر شناخت بخشتی ہے۔ اسی لیے مسیحی برادری کی بستیاںفاصلوں پر الگ دکھائی دیتی ہیں اور مذہبی خیالیات سے جنم لینے والا ڈیفرنس مسلمانوں کے رویوں کو مسیحی برادری کی طرف ایک خاص زاویے سے متعین کرتا ہے ، پسماندہ علاقوں کے لوگوں کا سماجی و سیاسی شعور بھی پسماندہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی بھی پاکستان کے غیر ترقی یافتہ شہروں یا علاقوں کے لوگوں کے رویے مسیحی برادری کے حوالے سے اسی سطح پر شناخت کیے جاسکتے ہیں۔
پاک اور ناپاک کے درمیان موجود ڈیفرنس مذہبی خیالیات کا ڈیفرنس ہے جو اس کے پیروکاروں کی عملی زندگی کو متعین کرتا ہے جو پہلے طاقتور کو دوسرے کم طاقت ور یا اقلیت کی شناخت کمتر درجہ پر متعین کر کے پہلے کی نا انصافی اور ظلم کو جواز فراہم کرتا ہے۔ اسی قسم کی مثال امریکن افریقن کے حوالے سے تاریخ میں Apartheid system تھا جس میں رنگ و نسل کی بنیاد پر ساؤتھ افریقہ کی اکثریت کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ جہاں رنگ و نسل کے ڈیفرنس کو بنیاد بناتے ہوئے قانون کے ذریعے پہلے استحصالی گورے نے' دوسرے' کم طاقتور کالے کو 1948 سے 1994 تک اپنے جبر کا شکار کیے رکھا، مگر ڈیفرنس جس کا جوہر بدلتا وقت ہے اور جو بدلتے وقت پر انحصاربھی کرتا ہے کسی ایک نسل اور سماج یا ساخت میں نہیں رہتا اسی لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے تحت گورے نے گورے کا بھی استحصال کیا، اس کی مثال اسی دور میں پورٹ الزبتھ میں بنایا جانے والا کاروبار اور ملازمتوں سے متعلق قانون تھا جو غریب لوگوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر روزگار کی تلاش میں جانے سے روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس سطح پر ہم ڈیفرنس کو امیر اور غریب کے درمیان معیشت کی ساخت میں شناخت کرسکتے ہیں جو قانون کی مدد سے اپنے خالی پن کو پورا کرتا ہے اور' پہلے' امیر گورے اور 'دوسرے' غریب گورے کے درمیان خود کو قانون کی مدد سے پھیلاتا چلا جاتا ہے۔وسطی وکٹورین عہد کے سماج میں بورژوا خاندان خصوصاََ اربن پالیسی کے تحت 'دوسرے' آلودہ غریب کو خود سے فاصلے پر رکھنے میں بآسانی اس لیے کامیاب رہے کہ معاشی ساختوں کے ڈیفرنس نے ان کو محفوظ سماجی تعمیرات کا تصور عطا کیا،جس کے نتیجے میں اربن ایریاز اور Gated ہاوسنگ پراجیکٹ کی تعمیر ممکن ہوئی۔ڈیفرنس ایسی تجرید ہے جس کو سامراج اور استحصالی طبقات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کئی ساختوں میں شناخت کر کے مستحکم کرسکتے ہیں۔ آج کے دور میں مذہبی آئیڈیالوجی کے اس فرق کے ذریعے مسلمانوں کودوسرے کی سطح پر متعین کیا جا رہا ہے، اس کو مادی سطح پر طالبان کی معروضی جسمانی ساخت میں دریافت کیا جاسکتا ہے۔
ڈیفرنس وہ ہتھیار ہے جسے سامراج کئی ساختوں میں شناخت کرکے استعمال کرتا ہے، جیسے کہ پاکستان میں موجود مذہبی مماثلت پر مبنی افراد کے مابین نسلی منافرت اور مذہبی خیالیات کے اندر ہی سے مختلف شرحوں کی بنیاد پر ایک نیا ڈیفرنس شناخت کر کے سامراج نے اپنے لیے ایک بار پھراپنے لیے طاقتور ہتھیارتیار کر لیا ہے۔اس کی واضح شناخت بلوچستان کی سیاسی ساختوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں پر بیرونی سامراج رنگ و نسل اور علاقہ پرستی کے ڈیفرنس کو مقامی استحصالی طبقے کی مدد سے نمایاں کر کے اس خطے کو توڑنے یا الگ کرنے کے لیے علیحدگی کی مصنوعی تحریک کو حقیقی جواز فراہم کرنے کی بھر پور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف اندرونی سامراج بلوچستان پر اپنے پنجے مضبوط رکھنے کے لیے مذہبی فرقوں میں موجود ڈیفرنس کو نمایاں کر نے کے لیے معصوم عوام کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔تیسری طرف علاقائی سیاست پر یقین رکھنے والے کھلاڑیوں نے بلوچی اور پنجابی کے درمیان ڈیفرنس کو اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے۔