یہ ہے انٹرنیٹ ریڈیو
انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے پروگراموں اور گانوں سے لطف اندوز ہوں
اکیسویں صدی کو انٹرنیٹ کی صدی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ نئی نئی ٹیکنالوجیز متعارف ہورہی ہیں اور ہم ان کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے ہم انگلیوں کی ذرا سی جنبش سے ہم اپنا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں۔ رابطے کے ان آسان ترین ذرائع نے جہاں پیغامات کی ترسیل کا کام نہایت آسان بنادیا ہے، وہیں اس ضمن میں سماجی ویب سائٹس بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس نئی دنیا میں پُرانے ذرائع ابلاغ بھی نئی صورت اختیار کر رہے ہیں، جیسے ریڈیو۔ کسی زمانے میں ریڈیو سیٹ ہی کے ذریعے ریڈیو کی نشریات سنی جاسکتی تھیں، پھر ہم گاڑی میں یہ نشریات سننے کے قابل ہوگئے۔ اس کے بعد موبائل فون کے وسیلے سے بھی ریڈیو کی نشریات تک ہماری رسائی ہونے لگی۔
بعد ازاں انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے انٹرنیٹ ریڈیو کی صورت میں ذرائع ابلاغ کا ایک نیا سلسلہ سامنے آگیا۔ یہ ریڈیو ملکوں اور سرحدوں کی ضرورتوں سے آزاد ہیں اور ہم دنیا بھر میں قائم ہزاروں ریڈیو چینلز ویب سائٹس کے ذریعے سن سکتے ہیں، بس ویب سائٹ ایڈریس ڈالیے اور مطلوبہ ریڈیو کی نشریات آپ کی سماعت میں گونجنے لگیں گی۔ یوں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے کام کے دوران ریڈیو سے نشر ہونے والے پروگراموں اور گانوں سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔
ریڈیو کی یہ نئی نوع یعنی انٹرنیٹ ریڈیو جس نے گذشتہ سالوں کے دوران اپنا مقام بنایا ہے، تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ ریڈیو ساری دنیا میں اداروں کی اور انفرادی سطح پر چلائے جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ ریڈیو شروع کرنے کے لیے ''اسٹیمنگ'' اور ''سرور'' ورلڈ وائڈ ویب سے نہایت کم نرخوں پر خریدا جاسکتا ہے اور پھر سالانہ فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ ریڈیو تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ چوں کہ انٹرنیٹ کی سہولت پاکستان میں نسبتاً کم لوگوں کو میسر ہے، لہٰذا انٹرنیٹ ریڈیو کے سامعین بھی محدود ہیں۔
اس طرز پر کام کرنے والے ریڈیوچینلوں کا معاہدہ عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی سب سے بڑی کمپنی سے ہے، لہٰذا حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتی۔ البتہ اگر ایسے کسی چینل سے ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہو یا اس کی نشریات ہماری اخلاقی اقدار سے متصادم ہوں تو انٹرنیٹ پروٹوکول سے اس جگہ کی نشان دہی ہوسکتی ہے جہاں سے یہ چینل چلایا جارہا ہے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے۔
ان انٹرنیٹ ریڈیو چینلوں کے سننے والوں کے علاوہ ٹوئٹر اور فیس بک کے یوزرز بھی مستقل بنیادوں پر ان ریڈیو چینلوں سے رابطے میں رہتے ہیں، کیوں کہ سماجی رابطوں کی ان ویب سائٹس پر مختلف لنکس دیے گئے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ویب سائٹس پر ایک قسم کا چیک باکس ہوتا ہے، جہاں پر کوئی بھی کسی بھی وقت وائس چیٹ کی صورت میں مختلف لوگوں تک اپنا پیغام اور رائے پہنچا سکتا ہے۔
ان سائٹس پر اہم امور پر ڈسکیشنز کیے جاتے ہیں۔ سامعین کی سہولت کے لیے ریکارڈ کیے گئے پروگرام کو دوبارہ سننے کے لیے آپشنز بھی دیے جاتے ہیں۔ ان ویب سائٹس کے چیٹ باکس کے ذریعے آپ فوری طور پر اپنے پسندیدہ گانوں کو پلے کرنے کی ریکویسٹ ریڈیو انتظامیہ کو سینڈ کرتے ہیں اور لمحہ بھر میں آپ کی ریکویسٹ وہاں پہنچ جاتی ہے۔
انٹرنیٹ ریڈیو کی زیادہ تر ویب سائٹس گوگل کروم ہی میں ٹھیک طرح کام کرتی ہیں۔ یہ ریڈیو مختلف اسمارٹ فونز میں ایپلی کیشنز کی صورت میں بھی ڈاؤن لوڈ کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان ویب سائٹس پر اسمارٹ فونز کے ایپ ڈاؤن لوڈنگ آپشنز بھی دست یاب ہوتے ہیں، جن کی مدد سے آپ ان انٹرنیٹ ریڈیوز کو ایک کلک پر ہی اپنے فون پر سن سکتے ہیں۔
کسی بھی جدید ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ان ویب سائٹس کا غلط استعمال کرتے ہوئے بہ طور ذریعۂ ابلاغ ریڈیو امیج کو نقصان بھی پہنچا ہے، کیوں کہ انفرادی طور پر پروفیشنل ازم کی کمی کی وجہ سے ریڈیو چینل کی بنیادی ضرورتوں کو اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے، جس سے ریڈیو چینل کی روح مرجاتی ہے۔ اکثر نوجوانوں نے سنگل لیپ ٹاپ پر بھی ریڈیوچینل قائم کر رکھے ہیں، جو کہ کسی بھی صورت میں ریڈیو کی شرائط پر پورے نہیں اترتے اور انھیں ریڈیو کہنا غلط ہوگا۔
انٹرنیٹ ریڈیو کے قیام کے لیے بھی باقاعدہ طور پر اسٹوڈیو سیٹ اپ کا ہونا ضروری ہے، جس میں مختلف اقسام کے کم از کم پانچ کمپیوٹر، کنٹرول پینل، پروفیشنل مائیک، پروفیشنل ہیڈفونز، بجلی کی چوبیس گھنٹے فراہمی اور باقاعدگی سے پروگرام کے شیڈول کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ اس منصوبہ بندی میں انٹرویوز کے لیے مختلف شخصیات سے روابط اور کسی تھیم کے مطابق پریزینٹرز کا پروگرام کرنا شامل ہیں، جس کے لیے اچھے لاکھوں روپے کے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
امکان ہے کہ مستقبل قریب میں انٹرنیٹ ریڈیو، ریڈیو کی سب سے زیادہ مقبول صورت اختیار کرجائیں گے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے ہم انگلیوں کی ذرا سی جنبش سے ہم اپنا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں۔ رابطے کے ان آسان ترین ذرائع نے جہاں پیغامات کی ترسیل کا کام نہایت آسان بنادیا ہے، وہیں اس ضمن میں سماجی ویب سائٹس بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس نئی دنیا میں پُرانے ذرائع ابلاغ بھی نئی صورت اختیار کر رہے ہیں، جیسے ریڈیو۔ کسی زمانے میں ریڈیو سیٹ ہی کے ذریعے ریڈیو کی نشریات سنی جاسکتی تھیں، پھر ہم گاڑی میں یہ نشریات سننے کے قابل ہوگئے۔ اس کے بعد موبائل فون کے وسیلے سے بھی ریڈیو کی نشریات تک ہماری رسائی ہونے لگی۔
بعد ازاں انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے انٹرنیٹ ریڈیو کی صورت میں ذرائع ابلاغ کا ایک نیا سلسلہ سامنے آگیا۔ یہ ریڈیو ملکوں اور سرحدوں کی ضرورتوں سے آزاد ہیں اور ہم دنیا بھر میں قائم ہزاروں ریڈیو چینلز ویب سائٹس کے ذریعے سن سکتے ہیں، بس ویب سائٹ ایڈریس ڈالیے اور مطلوبہ ریڈیو کی نشریات آپ کی سماعت میں گونجنے لگیں گی۔ یوں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے کام کے دوران ریڈیو سے نشر ہونے والے پروگراموں اور گانوں سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔
ریڈیو کی یہ نئی نوع یعنی انٹرنیٹ ریڈیو جس نے گذشتہ سالوں کے دوران اپنا مقام بنایا ہے، تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ ریڈیو ساری دنیا میں اداروں کی اور انفرادی سطح پر چلائے جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ ریڈیو شروع کرنے کے لیے ''اسٹیمنگ'' اور ''سرور'' ورلڈ وائڈ ویب سے نہایت کم نرخوں پر خریدا جاسکتا ہے اور پھر سالانہ فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ ریڈیو تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ چوں کہ انٹرنیٹ کی سہولت پاکستان میں نسبتاً کم لوگوں کو میسر ہے، لہٰذا انٹرنیٹ ریڈیو کے سامعین بھی محدود ہیں۔
اس طرز پر کام کرنے والے ریڈیوچینلوں کا معاہدہ عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی سب سے بڑی کمپنی سے ہے، لہٰذا حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتی۔ البتہ اگر ایسے کسی چینل سے ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہو یا اس کی نشریات ہماری اخلاقی اقدار سے متصادم ہوں تو انٹرنیٹ پروٹوکول سے اس جگہ کی نشان دہی ہوسکتی ہے جہاں سے یہ چینل چلایا جارہا ہے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے۔
ان انٹرنیٹ ریڈیو چینلوں کے سننے والوں کے علاوہ ٹوئٹر اور فیس بک کے یوزرز بھی مستقل بنیادوں پر ان ریڈیو چینلوں سے رابطے میں رہتے ہیں، کیوں کہ سماجی رابطوں کی ان ویب سائٹس پر مختلف لنکس دیے گئے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ویب سائٹس پر ایک قسم کا چیک باکس ہوتا ہے، جہاں پر کوئی بھی کسی بھی وقت وائس چیٹ کی صورت میں مختلف لوگوں تک اپنا پیغام اور رائے پہنچا سکتا ہے۔
ان سائٹس پر اہم امور پر ڈسکیشنز کیے جاتے ہیں۔ سامعین کی سہولت کے لیے ریکارڈ کیے گئے پروگرام کو دوبارہ سننے کے لیے آپشنز بھی دیے جاتے ہیں۔ ان ویب سائٹس کے چیٹ باکس کے ذریعے آپ فوری طور پر اپنے پسندیدہ گانوں کو پلے کرنے کی ریکویسٹ ریڈیو انتظامیہ کو سینڈ کرتے ہیں اور لمحہ بھر میں آپ کی ریکویسٹ وہاں پہنچ جاتی ہے۔
انٹرنیٹ ریڈیو کی زیادہ تر ویب سائٹس گوگل کروم ہی میں ٹھیک طرح کام کرتی ہیں۔ یہ ریڈیو مختلف اسمارٹ فونز میں ایپلی کیشنز کی صورت میں بھی ڈاؤن لوڈ کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان ویب سائٹس پر اسمارٹ فونز کے ایپ ڈاؤن لوڈنگ آپشنز بھی دست یاب ہوتے ہیں، جن کی مدد سے آپ ان انٹرنیٹ ریڈیوز کو ایک کلک پر ہی اپنے فون پر سن سکتے ہیں۔
کسی بھی جدید ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ان ویب سائٹس کا غلط استعمال کرتے ہوئے بہ طور ذریعۂ ابلاغ ریڈیو امیج کو نقصان بھی پہنچا ہے، کیوں کہ انفرادی طور پر پروفیشنل ازم کی کمی کی وجہ سے ریڈیو چینل کی بنیادی ضرورتوں کو اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے، جس سے ریڈیو چینل کی روح مرجاتی ہے۔ اکثر نوجوانوں نے سنگل لیپ ٹاپ پر بھی ریڈیوچینل قائم کر رکھے ہیں، جو کہ کسی بھی صورت میں ریڈیو کی شرائط پر پورے نہیں اترتے اور انھیں ریڈیو کہنا غلط ہوگا۔
انٹرنیٹ ریڈیو کے قیام کے لیے بھی باقاعدہ طور پر اسٹوڈیو سیٹ اپ کا ہونا ضروری ہے، جس میں مختلف اقسام کے کم از کم پانچ کمپیوٹر، کنٹرول پینل، پروفیشنل مائیک، پروفیشنل ہیڈفونز، بجلی کی چوبیس گھنٹے فراہمی اور باقاعدگی سے پروگرام کے شیڈول کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ اس منصوبہ بندی میں انٹرویوز کے لیے مختلف شخصیات سے روابط اور کسی تھیم کے مطابق پریزینٹرز کا پروگرام کرنا شامل ہیں، جس کے لیے اچھے لاکھوں روپے کے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
امکان ہے کہ مستقبل قریب میں انٹرنیٹ ریڈیو، ریڈیو کی سب سے زیادہ مقبول صورت اختیار کرجائیں گے۔