داغ داغ جمہوریت
آج سیاست کے نام پر لوٹ مار کا جو بازار گرم ہے اس کے پس منظر میں ایماندارانہ سیاست کا تصور بھی حماقت ہے
MILAN:
سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان نے اپنے حلقے میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہر قسم کی قیمت لگ جاتی ہے، کھرے کی اور کھوٹے کی بھی لیکن میں نے اپنی قیمت نہیں لگوائی 35 سال میں میرا ریکارڈ دیکھ لو، بہتر ہوگا۔ سیاست عہدوں کے لیے نہیں عزت کے لیے کرتا ہوں۔
عزت کردار میں ہوتی ہے عہدوں میں نہیں۔ مجھے بڑے بڑے عہدوں کی آفر کی گئی میں اپنے مقام پر کھڑا رہا۔ چوہدری نثار علی خان کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو بدنام نہیں ہوئے۔
اس لیے ان کی عزت بھی کی جاتی ہے جب کہ ہمارے ملک میں سیاست بدنامی کا دوسرا نام بن گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیاست کی غلاظت میں اکیلا ایماندار سیاستدان کیا سیاست کا حلیہ بدل سکتا ہے ، ہمارے میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ ایماندار عوام دوست سیاستدانوں کی حمایت کرے۔
سیاست کا نام بددیانتی بن گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھے سیاستدان سیاست میں بدنام نہیں ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاست میں صرف چند سیاستدان ہی ایماندار ہیں ؟ بد قسمتی یہ ہے کہ ایماندار سیاستدانوں کو ڈھونڈنا پڑتا ہے اگرچہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے لیکن اس گند میں اپنے آپ کو بچائے رکھنا ایک بڑی قربانی ہے۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو انھیں ٹھیک کرنے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔
سیاست ایک بڑی ذمے داری ہے اور سیاستدان کی پہلی ضرورت ایمانداری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ہمہ تن غلاظت میں ڈوبے ہوئے ہیں ان میں کوئی مثبت تبدیلی کی کوئی امید نہیں بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ہر آنے والے دن میں سیاستدان اور زیادہ غلیظ ہوتے جا رہے ہیں وہ زمانہ بھی تھا جب ایماندار سیاستدان نہ صرف باعزت ہوتے تھے بلکہ عوام ان کی قدر کرتے تھے۔
اب صورتحال اس قدر مایوس کن ہے کہ عوام سیاستدانوں سے کوئی اچھی امید رکھنا غلطی کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ویسے تو سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی شعبہ ایسا نہیں جو کرپشن کی بنیاد پر کھڑا نہ ہو آج ملک میں عوام جن حالات کا شکار ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کی دین کرپشن ہے ، چونکہ ملک میں ایماندار سیاستدانوں کا قحط ہے لہٰذا یہ امید رکھنا سیاست میں ایمانداری جگہ بنائے گی ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں، مشکل یہ ہے کہ جب آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو تو تبدیلی کہاں سے شروع کی جائے؟
پاکستان کی تاریخ کرپشن سے شروع ہو کر کرپشن پر ختم ہوتی ہے۔ ایسے ملک میں سیاست کرپشن کے سوا اورکیا ہو سکتی ہے دنیا کے دوسرے ملکوں میں کرپشن ہے اور سیاستدان بدنام ہیں لیکن جو حال پاکستان میں ہے اس کی کہیں مثال نہیں دی جاسکتی۔
آج سیاست کے نام پر لوٹ مار کا جو بازار گرم ہے اس کے پس منظر میں ایماندارانہ سیاست کا تصور بھی حماقت ہے اگر اس ملک میں سیاست میں تبدیلی لانا ہو تو طاقت غریب آدمی کے ہاتھ میں دی جائے ویسے بھی جمہوریت کا نام اکثریت ہے پاکستان میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں اور اتنے ہی کسان وغیرہ ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی بڑی اکثریت کا ہماری جمہوریت میں کوئی کردار ہے، سوائے پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کے؟
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے عوام پر بڑا کرم کیا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کردی اور فرمایا ہے کہ حکومت پٹرول میں اضافے کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالے گی۔
وزارت خزانہ کے مطابق حکومت یہ بوجھ خود اٹھانے کی کوشش کرے گی یقینا وزیر اعظم نے یہ قدم بڑی نیک نیتی سے اٹھایا ہوگا لیکن عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ متعلقہ وزارت ہمیشہ ایسے کام بڑی نیک نیتی سے کرتی ہے لیکن مذکورہ وزارت میں ایسے بے لگام گھوڑے ہیں جو نیک نیت لوگوں کی نیک نیتی کا بیڑا غرق کردیتے ہیں ان فنکاروں سے عوام کو بچانا کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ لٹیروں کا ایک منظم گروہ ہے جو عوام کو لوٹنے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اس میں مشکلات اور ناکامیاں اس لیے پیش آتی ہیں کیونکہ وزارتوں میں ایسے عوام دشمن موجود ہیں جو عوام کو لوٹنے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
دیکھا یہی گیا ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے جس کا کوئی حل نہیں اب ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں اس میں عوام کی روزی میں سال میں ایک مرتبہ اتنا معمولی اضافہ کیا جاتا ہے کہ مہنگائی سے اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے یہ عجیب بات ہے کہ سال میں ایک مرتبہ عوام کی آمدنی میں برائے نام اضافہ کیا جاتا ہے اور مختلف حوالوں سے سال میں بار بار قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
تقریباً دنیا کے سارے ملکوں میں بجٹ کے دوران قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن قیمتوں میں اضافے کا کوئی ایسا حل نکالا نہیں جاتا جو مہنگائی کا مقابلہ کرسکے، سرمایہ دارانہ نظام کی خوبی یہ ہے کہ غریب آدمی کو ہر طریقے سے لوٹا جاتا ہے لیکن اسے اس لوٹ مار سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ المیہ یہ ہے کہ مہنگائی اب عوام کی دسترس سے باہر ہے اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمومی بجٹ کے بعد مزید بجٹ عوام کے سروں پر تھوپے جاتے ہیں جس کا مقابلہ کرنا غریب عوام کے بس کی بات نہیں۔