آئی ایم ایف ورلڈ بینک قصورکس کا پہلاحصہ
عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا دائرہ کار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے
FRANKFURT:
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو بالآخر ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر کے قرض کی قسط جاری کردی گئی ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک کی طرح پاکستان کے لیے بھی یہ کوئی غیر معمولی رقم نہیں ، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آئی ایم ایف تعاون کرنے سے اگر انکار کر دیتا تو دنیا کا کوئی بھی مالی ادارہ ہم کو قرض نہیں دیتا اور اسے کسی طرح تیارکر بھی لیا جاتا تو اس کی جانب سے انتہائی زیادہ شرح سود پر ہمیں یہ سہولت دستیاب ہوتی۔
دراصل آئی ایم ایف کی حمایت اس سند کا درجہ رکھتی ہے کہ پاکستان مالیاتی طور پر نادہندہ نہیں ہوگا، لہٰذا اس کے ساتھ مالی تعاون اورکاروبار کرنے کے حوالے سے کسی بیرونی بینک یا مالی ادارے کو کسی خطرے کا سامنا نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کسی بھی پیکیج کی منظوری دینے اور قرض فراہم کرنے سے پہلے بعض کڑی شرائط عائد کرکے یہ اطمینان کرلیتا ہے کہ اس پر اعتماد کرنے والے ملکوں اور کاروباری اداروں کو نقصان نہ اٹھانا پڑے اور جس ملک کو قرض کی سہولت دی جارہی ہے وہ اس قرض کو واپس بھی کرسکے۔
پاکستان کو قرض دیتے وقت آئی ایم ایف نے نہ صرف غیر معمولی سخت شرائط پوری کرنے کی ہدایت کی بلکہ یہ اصرار بھی کیا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کر کے اس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جائے۔ اس تناظر میں جس ہنگامی انداز میں ایوان زیریں اور ایوان بالا سے قانون منظورکرائے گئے اس کی تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔
تاہم ، عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے تعاون حاصل کرنے کے ضمن میں نہ صرف ہمارے ملک بلکہ دنیا میں ہمیشہ سے دو رائے موجود رہی ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ یہ امریکا اور مغربی ملک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے ترقی پذیر ملکوں کی معیشتوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور جو ملک ان کے جال میں ایک بار پھنس جاتے ہیں ، ان کے لیے اس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس دلیل میں وزن ضرور ہے لیکن اسے مکمل سچ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف یا عالمی بینک دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس خود چل کر نہیں آتا۔ اس کے برعکس ایسی حکومتیں جو سیاسی مصلحتوں یا غلط معاشی پالیسیوں کے باعث اپنی معیشتوں کو تباہی سے دوچارکردیتی ہیں یا انھیں دیوالیہ کرنے کے قریب پہنچا دیتی ہیں وہ خود آئی ایم ایف کے پاس جاکر درخواست کرتی ہیں کہ انھیں عالمی سطح پر نادہندہ ہونے سے بچایا جائے۔
ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ پہلے آئی ایم ایف کے پاس جا کر مدد کے لیے اس کی خوشامد کی جائے اور مدد ملنے کے بعد یہ تاثر دیا جائے کہ عوام پر اس حوالے سے جو بھی بوجھ پڑ رہا ہے وہ آئی ایم ایف کی شرائط کا نتیجہ ہے۔ اس ابہام کو دور کرنے کے لیے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی تشکیل اور اس کے پس منظر کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
1944 میں امریکا کے شہر بریٹن ووڈ میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں انٹرنیشنل بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کے قیام کا اعلان کیا گیا ، جسے ہم ورلڈ بینک کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
اس بینک کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے آئی ایم ایف کے نام سے ایک اور ادارہ قائم کیا جس کا کوئی بھی آزاد اور خود مختار ملک رکن بن سکتا ہے۔ آج ان اداروں کے رکن ملکوں کی تعداد 190 ہے۔
اس تعداد کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے تقریباً 90 فی صد ملک ان کے رکن ہیں۔ ہر ملک رضاکارانہ طور پر ان اداروں کی رکنیت اختیار کرسکتا ہے اور اگر کوئی ملک اپنی رکنیت سے الگ ہونا چاہے تو وہ ایسا کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ ان اداروں کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ رکن ملکوں کو مالی بحران سے بچایا جائے اور پیداواری منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری اور قرضے فراہم کیے جائیں۔
کسی بھی رکن ملک کو قرض جاری کرنے سے پہلے ماہرین اس امرکو یقینی بناتے ہیں کہ قرض کا طلب گار ملک پہلے ان کی شرائط کو قبول کرے۔ ہنگامی ضرورت کے تحت قرض دیتے وقت عام طور پر بعض سخت شرائط عائد کی جاتی ہیں ، تاکہ قرض کے طور پر فراہم کردہ سرمائے کا تحفظ ہوسکے اور اس کی واپسی یقینی بنائی جاسکے۔
اگر بہ نظر غائر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اپنے قیام کے بعد، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے والے یورپی ممالک کی تعمیر نو میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم، 1960 کی دہائی کے آخر میں انھوں نے اپنی توجہ غریب ملکوں کی جانب مرکوز کی اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ترقی پذیر ملکوں کو بھی قرض فراہم کرنا شروع کیا۔
عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا دائرہ کار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ عالمی بینک ان ملکوں کو قرض اور تکنیکی مشاورت فراہم کرتا ہے جو معاشی طور پر نسبتاً مستحکم ہوتے ہیں اور انھیں پائیدار ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بینک ایسے ملکوں کو کافی آسان شرائط اور اقساط پر قرض دیتا ہے تاکہ وہ اپنے معاشی اور سماجی انفرا اسٹرکچر کو ترقی دے سکیں۔
دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ عالمی بینک غریب نہیں بلکہ درمیانی آمدنی رکھنے والے ممالک کی معاشی صحت کو مزید بہتر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس وقت عالمی بینک کا نعرہ دنیا سے غربت کا خاتمہ ہے۔
جہاں تک آئی ایم ایف کا تعلق ہے تو اس کا دائرہ کار ورلڈ بینک سے کافی مختلف ہے۔ آئی ایم ایف ان ملکوں کی مدد کرتا ہے جن کی معیشتیں دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتی ہیں اور ان کی معاشی صحت نازک ہوتی ہے۔ یہ ادارہ ایسی معیشتوں کو فوری مالی مدد فراہم کرکے انھیں دیوالیہ ہونے سے بچاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا بنیادی مقصد بین الاقوامی مالیاتی تعاون کو فروغ دینا بھی ہے۔ یہ ادارہ ان ملکوں کی مدد کرتا ہے جو پاکستان کی طرح توازن ادائیگی کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی تشکیل کے لیے مشاورت بھی فراہم کرتا ہے۔ ہر آزاد اور خود مختار ریاست اس کی رکنیت اختیار کرسکتی ہے۔ جب بھی کوئی ملک اس ادارے کی رکنیت اختیار کرتا ہے تو اس کی معاشی حیثیت کے مطابق اسے اسپیشل ڈرائنگ رائٹ (SDR) کے تحت ایک کوٹہ مختص کیا جاتا ہے۔
کوٹے کے اعتبار سے سب سے زیادہ 17 فیصد حصہ امریکا کا ہے۔ امریکا کے بعد کوٹے کے اعتبار سے سرفہرست ملکوں میں چین، جاپان، جرمنی، برطانیہ ، فرانس وغیرہ شامل ہیں۔ آئی ایم ایف میں کوٹے کے مطابق ہی اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کس رکن ملک کے کتنے ووٹ ہوں گے۔
اس معیار کے مطابق آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی میں امریکا کو تقریباً 16.5 فیصد جب کہ یورپی ملکوں کو مجموعی طور پر 30 فی صد ووٹ حاصل ہیں۔ آئی ایم ایف میں اہم فیصلوں کے لیے 85 فیصد ووٹوں کی شرط عائد کی گئی ہے۔ اس لیے اگر امریکا کسی بھی فیصلے کی مخالفت کردے تو وہ منظور نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے یہ امر قابل فہم ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر امریکا اور یورپی ملکوں کو مکمل غلبہ حاصل ہے۔
اس لیے یہ ادارے اگر امریکا اور مغربی حلیفوں کے مفادات اور سیاسی پالیسیوں کو پیش نظر رکھتے ہیں تو اس میں حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ تاہم، ہر ملک جو ان اداروں کی رکنیت اختیار کرتا ہے اسے اس تلخ حقیقت کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ مفروضہ درست نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ملک ان اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ملکوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے کوئی جبر کرتے ہیں۔ قصور ہمارا ہے ہم ان کے پاس جاتے کیوں ہیں؟
(جاری ہے)