جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف

مزدوروں کو سعودی عرب ہو یا ایران کہیں بھی یونین بنانے کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے


Zuber Rehman February 10, 2022
[email protected]

HYDERABAD: جنگ ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف، امن پرامن زندگی کی بقا کے لیے۔ اس وقت ساری دنیا میں بارود کی بو آ رہی ہے ، اگر اس کی جگہ گلاب کی خوشبو سے دنیا معطر ہوتی، لوگ پھر خوش مزاج ہوتے اور دنیا میں خوشحالی بھی ہوتی۔ پھر یہ دنیا جنت نظیر ہونے کا نمونہ پیش کرتی، جب کہ ایسا نہیں ہے۔

اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ایٹم بم روس کے پاس ہے اور دوسرے نمبر پر امریکا۔ دونوں ملکوں کے ایٹم بموں کی کل تعداد 7 ہزار ہے۔ ان ایٹم بموں سے اس کرہ ارض کو کئی سو بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔

ان کے علاوہ برطانیہ ، اسرائیل ، فرانس ، چین ، بھارت اور سوشلسٹ کوریا بھی ہیں مگر ان سب کے پاس دو چار سو سے زیادہ نہیں ہیں۔ ان ایٹم بموں سے انسانوں کو قتل کیا جاتا ہے، املاک کو تباہ کیا جاتا ہے اور پھر فاتح ، مفتوح پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو بم گرانے سے لاکھوں انسان لقمہ اجل ہوئے ، جاپان اور ویت نام کے متاثرہ علاقوں میں آج بھی معذور بچے پیدا ہو رہے ہیں۔

ایٹم بموں کے علاوہ اسلحے سے روزانہ اس دنیا میں سیکڑوں لوگ جان سے جا رہے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں 5 کروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ صرف نو آبادیات کے حصول کے لیے یہ سب کچھ ہوا ، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اسپین اور برطانیہ نے جنوبی اور شمالی امریکا پر ہلہ بولا، قتل و غارت گری کی، وہاں کے وسائل کو لوٹا۔ جب کہ پرتگال اور برطانیہ نے برصغیر ، چین ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر حملہ کیا اور قتل عام کیا۔

ان ملکوں کی مقامی آبادیوں نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ سامراجیوں نے وہاں سے سونا، چاندی اور قیمتی وسائل کو لوٹنے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ جب ایٹم بم نہیں تھے تو میزائل تھے، جب میزائل نہیں تھے تو توپیں تھیں، جب توپیں نہیں تھیں تو تلواریں اور اس سے قبل تیرکمان تھے۔ یعنی ہر صورت میں اسلحے نے انسانی ترقی ، تہذیب ، تمدن اور ہنستے بستے لوگوں اور بستیوں کو اجاڑ دیا۔

نخلستان کو ریگستان اور بیابان میں تبدیل کردیا۔ روسو کا کہنا تھا کہ وہ دورکتنا اچھا تھا جب انسان سرسبز و شاداب جنگلوں میں ، ساحلوں اور دریاؤں پر بستے تھے، ہر چیز ملاوٹ سے پاک، بیماریوں سے دور اور جنگوں کے فلسفے سے دور ہوتے تھے۔

سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوتا تھا۔ آج سے سات ہزار سال قبل موئن جو دڑو، ہڑپہ اور مہرگڑھ میں کوئی جنگی سازو سامان ملے، نہ محل ملے۔ انھوں نے کسی پر حملہ کیا اور نہ ان پر کسی نے حملہ کیا۔ ان کا ایک ''دیوتا '' ہوتا تھا اسے صرف وہ معاہدات کرنے کے لیے گواہ بناتے تھے۔ آج دنیا کا سب سے جمہوری اور مہذب کہلانے والا ملک امریکا کی صنعتی پیداوار کا 70 فیصد اسلحہ ہے۔

جو اسلحہ خریدنے کے لیے بظاہر مجبور تو نہیں کرتا لیکن ایسے حالات اور ماحول پیدا کرتا ہے کہ ممالک اسلحہ خریدتے ہیں۔ ان پر ایسی طاقتیں مسلط کردی جاتی ہیں کہ وہ ہر وقت اپنے پڑوسیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں اور اسی خاطر اسلحہ امریکا سے خریدتے ہیں۔ سعودی عرب ، عرب امارات اور اردن یہ خود کفیل دولت مند ، خوشحال اور تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔

انھیں کسی قسم کی اسلحے کی کیا ضرورت ہے۔ حال ہی میں امریکا نے اردن کو 4.21 ارب ڈالر، سعودی عرب کو 2 کروڑ 37 لاکھ ڈالر اور متحدہ عرب امارات کو 3 کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ یعنی کل اسلحہ 4 ارب 26 کروڑ37 لاکھ ڈالر کا ہے۔ ہرچند کہ یہ خطہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔

اس کے باوجود یہ خطہ آئی ایم ایف کے قرضوں میں پھنسا ہوا ہے۔ ایران پر تو امریکا نے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، سعودی عرب کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ہے جن میں اکثریت انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، فلپائن اور سری لنکا کے مزدور کام کرتے ہیں۔ مرغی کے دڑبوں کی طرح کمروں 50/50 مزدورکرائے پر رہتے ہیں۔ بھیڑ بکریوں کی طرح صبح اٹھتے ہیں اور 10/10 گھنٹے تھکے ماندے کام کرکے شام کو اپنے دڑبوںمیں واپس آجاتے ہیں۔

مزدوروں کو سعودی عرب ہو یا ایران کہیں بھی یونین بنانے کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ عالمی سطح پر توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے امریکا اور روس اپنے اپنے مسلز (پٹھے) دکھانے میں مصروف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔