جھٹکے کے بعد عدالتی ریلیف
الیکشن کمیشن کی جانب سے کئی بار خبردار کیے جانے کے باوجود موصوف کے کان پر جوں تک نہیں رینگی
ISLAMABAD:
تبدیلی سرکار کے ساڑھے تین سالہ ''کارنامے'' ہی اس کے گلے کا پھندا بن چکے ہیں، مہنگائی،بے روزگاری، بدامنی، بیڈ گورننس اور نااہل وزیروں کی جو مثالیں موجودہ دور میں رقم ہوئی ہیں، اس کی مثال برسوں میں نہیں ملتی۔
ستر برسوں کو بھی چھوڑیں مجھے تو لگتا ہے اگر اس کارکردگی کا موازنہ کرنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو شائد مغلیہ سلطنت کے چودھویں بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ غضب ناک کہانیاں اسی تین ساڑھے تین سالہ دور میں نت نئے انداز سے سامنے آئی ہیں۔
اس کارکردگی کے عملی نتائج آنا شروع ہو چکے ہیں، خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں عوام نے تبدیلی کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اسلام آباد کے ایوانوں میں لرزہ برپا کردیا ہے، تبدیلی سرکار بوکھلاہٹ میں وہ کام کررہی ہے جو اس کی مشکلات میں کمی لانے کے بجائے مزید اضافہ کررہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ الٹی گنتی کا آغاز خیبر پختونخوا سے شروع ہوچکا ہے۔
خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات نے قومی سطح پر ایک سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے، حکمران جماعت ان انتخابات سے بظاہر پریشان ہے تو حزب اختلاف انتخابات کے نتائج کو 'امید کی کرن' کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے حیران کن نتائج کو دیکھ کر کپتان کو پی ٹی آئی کی تنظیمیں توڑنا پڑیں اور انھوں نے اعلان کیا کہ آیندہ میں خود ٹکٹیں تقسیم کروں گا۔ کپتان کے غصے کو دیکھ کر کچھ سیاسی رہنما دوسرے مرحلے میں اپنے چہیتوں کی کامیابی کے لیے خود میدان میں اتر آئے اور کامیابی کا ہما پکڑنے کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
ان میں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور بھی پیش پیش نظر آئے۔ موصوف کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہیں سے 2018 میں رکن قومی اسمبلی ''بنے یا بنائے'' گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تحصیل میئر کے لیے پی ٹی آئی کا امیدوار ان کا بھائی عمر امین گنڈا پور تھا، جس کی انتخابی مہم چلانے کے لیے وہ خود بھی متحرک رہے تھے، الیکشن قوانین اور ضابطہ اخلاق کے مطابق کوئی وزیر الیکشن والے حلقے کا وزٹ نہیں کرسکتا۔
بلدیاتی الیکشن سے پہلے عمران خان نے بھی کے پی کے عوام کے لیے جتنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا وہ بھی دراصل ووٹرز کو سیاسی رشوت کے مترادف تھا۔ اسی طرح علی امین گنڈا پور بھائی کی انتخابی مہم زور شور سے چلا رہے تھے، الیکشن کمیشن کی جانب سے کئی بار خبردار کیے جانے کے باوجود موصوف کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
الیکشن کمیشن نے بلدیاتی امیدوار عمر امین گنڈا پور کو نااہل قرار دے دیا اور علی امین گنڈا پور کو پچاس ہزار روپے جرمانہ کیا۔ وزیر علی امین گنڈا پور کو بلدیاتی انتخابی مہم میں شرکت سے روک دیا۔
تاہم الیکشن کمیشن نے علی امین گنڈا پور کے ڈیرہ اسمعیل خان جانے پر پابندی ختم کر دی ہے۔ بلاشبہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ اسلام آباد کے لرزتے ایوانوں کے لیے ایک اور بڑا دھچکہ تھا۔ تبدیلی سرکار نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں سے انھیں حکم امتناعی کی صورت میں ریلیف مل گیا۔ کاش حکم امتناعی جاری نہ ہو تا مگر عدالت کا فیصلہ سب کو ماننا پڑے گا۔ مگر اس فیصلہ سے جمہوریت پسند اور قانون کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کو مایوسی ہوئی۔
گوکہ گنڈا پور برادران کو عارضی ریلیف مل گیا ہے تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ان کی سیاسی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا ہے۔ ان پر گلگت بلتستان داخلے پر پابندی لگی۔ یہی رویہ پی ٹی آئی کے باقی وزراء کا ہے وہ سمجھتے ہیں خان ایسے کام پسند کرتا ہے۔
اب بھی کوئی یہ توقع رکھے کہ بالائی سپورٹ کے علاوہ پی ٹی آئی الیکشن جیت جائے گی تو یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں پہلے سے بد تر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس شکست کا ذمے دار علی امین گنڈا پور جیسے وزراء ہوں گے کوئی اور نہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنا کام آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نہایت جرات و بہادری سے کردیا، اب عمر امین گنڈا پوری کا معاملہ ہائی کورٹ میں ہے۔ اب قوم کی نگاہیں عدالت عالیہ کی جانب لگی ہوئی ہیں۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر تحریک انصاف کے صوبائی وزیر شاہ محمد کو 5 سال کے لیے نااہل کر دیا تھا۔ بنوں کی تحصیل بکاخیل میں امن و امان کیس میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کیا، فیصلے میں صوبائی وزیر شاہ محمد کو ذمے دار قرار دیا ہے۔
شاہ محمد بکاخیل پولنگ اسٹیشنز پر حملے میں ملوث تھے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے انھیں ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔ اس معاملے میں ان کے بیٹے مامون رشید کو بھی الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا تھا۔ اسی طرح بدھ کے روز الیکشن کمیشن نے سینیٹر فیصل وواڈا کو بھی جھوٹے دستاویزات اور جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر نااہل قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں دو ماہ میں بطور ایم این اے اور سینیٹر جتنی تنخواہیں اور مراعات لی ہیں واپس کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
تبدیلی سرکار کے ساڑھے تین سالہ ''کارنامے'' ہی اس کے گلے کا پھندا بن چکے ہیں، مہنگائی،بے روزگاری، بدامنی، بیڈ گورننس اور نااہل وزیروں کی جو مثالیں موجودہ دور میں رقم ہوئی ہیں، اس کی مثال برسوں میں نہیں ملتی۔
ستر برسوں کو بھی چھوڑیں مجھے تو لگتا ہے اگر اس کارکردگی کا موازنہ کرنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو شائد مغلیہ سلطنت کے چودھویں بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ غضب ناک کہانیاں اسی تین ساڑھے تین سالہ دور میں نت نئے انداز سے سامنے آئی ہیں۔
اس کارکردگی کے عملی نتائج آنا شروع ہو چکے ہیں، خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں عوام نے تبدیلی کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اسلام آباد کے ایوانوں میں لرزہ برپا کردیا ہے، تبدیلی سرکار بوکھلاہٹ میں وہ کام کررہی ہے جو اس کی مشکلات میں کمی لانے کے بجائے مزید اضافہ کررہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ الٹی گنتی کا آغاز خیبر پختونخوا سے شروع ہوچکا ہے۔
خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات نے قومی سطح پر ایک سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے، حکمران جماعت ان انتخابات سے بظاہر پریشان ہے تو حزب اختلاف انتخابات کے نتائج کو 'امید کی کرن' کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے حیران کن نتائج کو دیکھ کر کپتان کو پی ٹی آئی کی تنظیمیں توڑنا پڑیں اور انھوں نے اعلان کیا کہ آیندہ میں خود ٹکٹیں تقسیم کروں گا۔ کپتان کے غصے کو دیکھ کر کچھ سیاسی رہنما دوسرے مرحلے میں اپنے چہیتوں کی کامیابی کے لیے خود میدان میں اتر آئے اور کامیابی کا ہما پکڑنے کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
ان میں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور بھی پیش پیش نظر آئے۔ موصوف کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہیں سے 2018 میں رکن قومی اسمبلی ''بنے یا بنائے'' گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تحصیل میئر کے لیے پی ٹی آئی کا امیدوار ان کا بھائی عمر امین گنڈا پور تھا، جس کی انتخابی مہم چلانے کے لیے وہ خود بھی متحرک رہے تھے، الیکشن قوانین اور ضابطہ اخلاق کے مطابق کوئی وزیر الیکشن والے حلقے کا وزٹ نہیں کرسکتا۔
بلدیاتی الیکشن سے پہلے عمران خان نے بھی کے پی کے عوام کے لیے جتنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا وہ بھی دراصل ووٹرز کو سیاسی رشوت کے مترادف تھا۔ اسی طرح علی امین گنڈا پور بھائی کی انتخابی مہم زور شور سے چلا رہے تھے، الیکشن کمیشن کی جانب سے کئی بار خبردار کیے جانے کے باوجود موصوف کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
الیکشن کمیشن نے بلدیاتی امیدوار عمر امین گنڈا پور کو نااہل قرار دے دیا اور علی امین گنڈا پور کو پچاس ہزار روپے جرمانہ کیا۔ وزیر علی امین گنڈا پور کو بلدیاتی انتخابی مہم میں شرکت سے روک دیا۔
تاہم الیکشن کمیشن نے علی امین گنڈا پور کے ڈیرہ اسمعیل خان جانے پر پابندی ختم کر دی ہے۔ بلاشبہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ اسلام آباد کے لرزتے ایوانوں کے لیے ایک اور بڑا دھچکہ تھا۔ تبدیلی سرکار نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں سے انھیں حکم امتناعی کی صورت میں ریلیف مل گیا۔ کاش حکم امتناعی جاری نہ ہو تا مگر عدالت کا فیصلہ سب کو ماننا پڑے گا۔ مگر اس فیصلہ سے جمہوریت پسند اور قانون کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کو مایوسی ہوئی۔
گوکہ گنڈا پور برادران کو عارضی ریلیف مل گیا ہے تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ان کی سیاسی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا ہے۔ ان پر گلگت بلتستان داخلے پر پابندی لگی۔ یہی رویہ پی ٹی آئی کے باقی وزراء کا ہے وہ سمجھتے ہیں خان ایسے کام پسند کرتا ہے۔
اب بھی کوئی یہ توقع رکھے کہ بالائی سپورٹ کے علاوہ پی ٹی آئی الیکشن جیت جائے گی تو یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں پہلے سے بد تر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس شکست کا ذمے دار علی امین گنڈا پور جیسے وزراء ہوں گے کوئی اور نہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنا کام آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نہایت جرات و بہادری سے کردیا، اب عمر امین گنڈا پوری کا معاملہ ہائی کورٹ میں ہے۔ اب قوم کی نگاہیں عدالت عالیہ کی جانب لگی ہوئی ہیں۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر تحریک انصاف کے صوبائی وزیر شاہ محمد کو 5 سال کے لیے نااہل کر دیا تھا۔ بنوں کی تحصیل بکاخیل میں امن و امان کیس میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کیا، فیصلے میں صوبائی وزیر شاہ محمد کو ذمے دار قرار دیا ہے۔
شاہ محمد بکاخیل پولنگ اسٹیشنز پر حملے میں ملوث تھے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے انھیں ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔ اس معاملے میں ان کے بیٹے مامون رشید کو بھی الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا تھا۔ اسی طرح بدھ کے روز الیکشن کمیشن نے سینیٹر فیصل وواڈا کو بھی جھوٹے دستاویزات اور جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر نااہل قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں دو ماہ میں بطور ایم این اے اور سینیٹر جتنی تنخواہیں اور مراعات لی ہیں واپس کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔