کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز 20 مہینے تک موجود رہتی ہیں تحقیق

کورونا وائرس کے خلاف جسم میں قدرتی مدافعت ہماری سوچ سے کہیں طویل عرصے تک برقرار رہتی ہے


ویب ڈیسک February 12, 2022
کورونا وائرس کو شکست ددینے والوں کے خون سے الگ کیا گیا پلازما، جو اپنی اینٹی باڈیز کی بدولت امید کی کرن ثابت ہوا ہے۔ (فوٹو: جان ہاپکنز)

ISLAMABAD: امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ویکسین لگوائے بغیر کووِڈ 19 کو شکست دے کر صحت یاب ہوجانے والوں میں اس بیماری کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیز 20 ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے تحت پچھلے سال شروع ہونے والی اس تحقیق میں ایسے 1580 رضاکار بھرتی کیے گئے جو کووِڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہوگئے تھے مگر ان میں سے کسی نے بھی کووِڈ ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

ان رضاکاروں کے میڈیکل ریکارڈ کی چھان بین اور تصدیق سے معلوم ہوا کہ یہ افراد پچھلے چھ ماہ سے دو سال کے دوران کووِڈ 19 کا شکار ہو کر صحت یاب ہوئے تھے جبکہ ان میں سے کسی نے بھی کورونا ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

ان سے حاصل شدہ خون کے نمونوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کورونا وائرس (سارس کوو 2) کا قلع قمع کرنے والی مخصوص اینٹی باڈیز ان تمام افراد کے خون میں موجود تھیں۔

اگرچہ وہ لوگ جو پہلے کووِڈ 19 کو شکست دے کر صحت یاب ہوئے تھے ان کے خون میں مذکورہ اینٹی باڈیز کی مقدار کچھ کم تھی لیکن یہ اتنی ضرور تھی کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے کی تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ کورونا وائرس کو شکست دینے کےلیے امنیاتی نظام (امیون سسٹم) کی تیار کردہ مخصوص اینٹی باڈیز چھ ماہ تک خون میں موجود رہتی ہیں۔

ریسرچ جرنل 'جاما نیٹ ورک' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ہمارے جسم میں قدرتی مدافعت 20 ماہ تک برقرار رہتی ہے۔

بتاتے چلیں کہ اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ ویکسی نیشن کے بغیر کورونا وائرس کے خلاف جسم میں پیدا ہونے والی قدرتی مدافعت/ مزاحمت عملاً کتنے عرصے تک برقرار رہتی ہے۔

البتہ، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ قدرتی انسانی مدافعت کو بنیاد بناتے ہوئے کورونا ویکسین لگوانے ہی سے انکار کردیا جائے۔ یہ حرکت آنے والے مہینوں میں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے جس کا نتیجہ کورونا وائرس کے مزید نئے ویریئنٹس کی شکل میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں