شہید وطن کا مشن نیو نیشنلزم
پیپلز پارٹی کا منشور اس سرزمین کے پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک خوشخبری تھی
WASHINGTON:
خیبر پختونخوا کے جوانی میں عظمت کی بلندیوں کو چھونے والے رہنماء '' شہید وطن حیات محمد خان شیر پاؤ'' کو قوم سے جدا ہوئے 47 برس ہوگئے لیکن وہ اور ان کی یادیں آج بھی پختون قوم کے دلوں میں زندہ ہیں'انھوں نے صرف سیاست نہیں کی بلکہ پختون قوم کو ایک نیا فلسفہ اور نظریہ بھی دیا'ان کی برسی 8فروری کو ہے لیکن ان کی یاد میں عظیم الشان جلسہ شیرپاؤ میں 15فروری 2022 کو منعقد ہوگا۔
1970 تک سابقہ صوبہ سرحد میں روایتی پارٹیاں مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی تھیں' مسلم لیگ مضبوط مرکز کی حامی تھی' دوسری طرف نیشنل عوامی پار ٹی تھی جس کا نعرہ تھا کہ پاکستان کو ایک وفاقی ریاست ہونا چاہیے جہاں پر صوبائی خود مختاری ہو۔دونوں پارٹیوں کے پروگرام میں محنت کش' مزدور اور کسان طبقے کے مسائل کا ذکر نہیں تھا۔ایسے دور میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور صوبہ سرحد میں شہید حیات محمد خان شیرپاؤ کو اس کی قیادت سونپی گئی۔
پیپلز پارٹی کا منشور اس سرزمین کے پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک خوشخبری تھی 'اس منشور میں صوبائی حقوق کے ساتھ ساتھ زیادہ زور عوامی مسائل اور خاص کر غریب محنت کش ' کسان اور مزدور طبقوں کے مسائل پر دیا گیا تھا'اس نئے نعرے کو صوبے میں متعارف کرانے کے لیے حیات شہید نے دن رات ایک کر دیے۔
اور دونوں روایتی پارٹیوں کے بیچ میں راستہ بناتے ہوئے 'مشکل حالات میںعوام میں اپنا ایک اعلیٰ مقام پیدا کیا ' یہاں تک کہ 1970کے انتخابات میں خان قیوم کو صوبائی سیاست سے دور رکھنے کے لیے ولی خان کو حیات شہید کا سہارا لینا پڑا 'ان کی اسی سیاست اور مقبولیت کو مفاد پرست طبقے ہضم نہ کرسکے اور8فروری 1975کو ان کو پشاور یونیورسٹی کے ایک پروگرام کے دوران شہید کردیا گیا۔
حیات شہید نے پارٹی کی ترویج کے ساتھ ساتھ پختونوں کی روایتی قوم پرستوں کی عدم توجہ کی وجہ سے محرومی ومایوسی کے خاتمے اور شناخت دلانے اور ان کی آواز مرکز تک پہنچانے میں جو اہم کردار ادا کیا۔
اس کی بدولت روایتی قوم پرست سیاستدانوں کی پا لیسیوں کے برعکس پسے ہوئے اور محنت کش پختونوں کو سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ کوعوامی مقبولیت اور پختون قوم کے ہر دلعزیزرہنماء کی حیثیت سے کم عرصہ میں جو پذیرائی ملی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی'ان کی شہادت کے بعد ان کی سوچ نے ایک مشن کی شکل اختیار کی اور اس مشن کی تکمیل کے لیے'ان کے چھوٹے بھائی ملی رہبر آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے نہایت ہی نا مساعد حالات کے باوجود بڑی ثابت قدمی سے جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں سختیوں کے باوجود ایک مرد آہن کی شکل میں حیات شہید کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا مشن پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانااور محروم طبقوں کی محرومیاں دور کرنا تھا اور یہی ملک کی ترقی کا راستہ ہے۔
چھوٹی قومیتوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی حقوق دینے کے بہانے نیم دلانہ اقدامات کی کو شش کی گئی ہے' اس ترمیم یا قومی مسئلے کے حل کے لیے دیگر نیم دلانہ اعلانات اصل میں بالادست طبقوں کا ایجنڈا ہے 'چھوٹی قومیتیں ایک نئے معاہدہ عمرانی (New Social Contract) کا مطالبہ کر رہی تھیں' اس لیے ان کو ا ٹھارویں ترمیم کے لالی پاپ سے بہلانے کی کو شش کی گئی 'مسائل بہت گھمبیر ہیں ا س لیے قومی اور طبقاتی مسائل کے حل کے لیے معاشرے کے مختلف قوتوں کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔
یہ سب قوتیں مل کر اس خطے کو مصیبت سے نکالنے کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہیں۔شہید وطن حیات خان شہید کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے اور پختون قوم کے مسائل حل کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔
دہشت گردی اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ قومی استحصال پوری قوم کا مسئلہ ہے اور ان کو حل کرنے کی ذمے داری بھی پوری قوم کی ہے' ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہمسایوں کے ساتھ امن اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کرکے تزویراتی گہرائی 'بھارت دشمنی 'پراکسی جنگوں اورجہاد اور اسلحہ سازی کے بجائے خارجہ اور داخلہ محاذوں پرترقی'امن اور خوشحالی کا ایجنڈا اپنائیں۔
حیات شہید کے مشن کو پورا کرنے کے لیے ملی رہبر آفتاب شیرپاؤ قومی وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے نیو نیشلزم کے نعرے کے تحت سرگرم عمل ہیں۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل ہونے کے بعد مکمل مراعات' اس کے علاوہ CPEC میں صوبے کے جائز حق کا حصول ' پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانے کے لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ اور 'پختون قوم کی بہتری اور ترقی حیات شہید کا و ہ راستہ ہے جو قومی وطن پارٹی اور ملی رہبر کے لیے نشان راہ ہے۔روایتی پختون لیڈرشپ نے کبھی بھی اپنی قوم کے مفادات کی خاطر درست فیصلے نہیں کیے۔
مختلف مواقعے میسر ہونے کے باوجود ان روایتی قوم پرست لیڈروں نے شعوری یا کم علمی کی بنیاد پران مواقع کو ضایع کیا اور قوم کا مقدمہ غلط جگہ اور غلط انداز میں پیش کرکے پختون قوم کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کیاجس کی سزا پختون قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے بھگت رہی ہے 'روایتی قوم پرستوں نے ہمیشہ غیر ملکی ایجنڈوں کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بنیاد بناکر پختون قوم پر مسلط کیا۔
شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ نے محسوس کیا کہ پاکستان کی سیاست میں پختون قوم کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں پختون قوم کی آواز کی شکل میں شامل ہو کر اپنے قوم کی نمایندگی کے لیے کمر بستہ ہوئے اور دن رات محنت کرکے پیپلز پارٹی کو پختونوں کے اس خطے میں کونے کونے تک پہنچایااور پارٹی کے ایک بانی ممبر کی حیثیت سے اپنی سیاست اور تدبر کا لوہا منوا یا۔آج یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ حکومت پشتو زبان کو نصاب سے نکال رہی ہے' حالانکہ یہ المیہ تو کب کا وقوع پذیر ہو چکا ہے۔
1970 کے انتخابات کے بعد 'صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کو مخلوط حکومت بنانے کا موقع مل گیا 'یہ ایک اچھا موقع تھا 'قوم پرستوں کو قیام پاکستان کے بعد پہلی دفعہ حکومت کا موقعہ ملا تھا 'صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب ممتاز بھٹو صاحب نے سندھی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا اعلان کیا۔
قائد حزب اختلاف حیات محمد خان شیرپاؤ نے صوبے میں پشتو کو سرکاری زبان قرار دینے اور صوبے کا نام تبدیل کرنے کے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا ' ان کے اس اعلان کے باوجود نیپ اور جمعیت کی حکومت نے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اردو کو صوبے کی سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا۔
کثیر قطبی(Multi Polar)دنیا کے ظہور اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے تمام دنیا کی سیاسی و معاشی خد و خال میں واضح تبدیلیاں رو نما ہورہی ہیں'جس کا اثر ملک گیر سیاسی پارٹیوں پر پڑنا ایک لازمی امر تھا 'نئے سیاسی منظر نامہ میں پختون قوم کا یہ خطہ ایک نئی اہمیت کا حامل ہے اور بین الاقوامی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
پختون قوم آج تاریخ کے ایک ایسے نازک اور مشکل موڑ پر کھڑی ہے کہ جس کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ' ' نیو نیشلزم '' سے لیس ایک ایسی پارٹی کی ضرورت تھی 'جو حیات شہید کے مشن کو آگے بڑھائے اور جس کی قیادت مضبوط'باکردار 'بے لوث'جرات مند 'با اعتماد 'محب وطن اور دور اندیش رہنما کے ہاتھ میں ہوجو پختون قوم کو ان مشکلات سے نکال کر ترقی 'خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن کر سکے' جس طرح دنیا کے دوسری اقوام نے حالات اور گلوبلائزیشن کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے روایتی لیڈر شپ کے اپنائے ہوئے فلسفوں سے نکل کر روایتی نیشلزم کے بجائے حقیقت پر مبنی ''نیو نیشنلزم'' کی راہ اختیارکی اور ترقی 'خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن ہوئے۔
اسی طرح اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے روایتی نیشنلزم کے منفی اثرات سے پختون قوم کو آگاہ و خبردار کرنے کے لیے نیشنلزم کی جدید نقطہ نظر کی راہ اختیار کرتے ہوئے پختون قوم کی رہنمائی کرنے کے لیے قومی وطن پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اس پارٹی اور اس کی قیادت کی عوامی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ '' شہید وطن ''حیات شہید کے ارمانوں کا جھنڈا ' قومی وطن پارٹی کے ہزاروں باشعور کارکنوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ قافلہ ملی رہبر آفتاب شیرپاؤ اور نوجوان قائد سکندر خان شیرپاؤ کی قیادت میں پورے جوش و خروش کے ساتھ پختون قوم کی نجات کی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔قومی وطن پارٹی کا نظریہ اور سوچ ترقی پسند ہے۔
خیبر پختونخوا کے جوانی میں عظمت کی بلندیوں کو چھونے والے رہنماء '' شہید وطن حیات محمد خان شیر پاؤ'' کو قوم سے جدا ہوئے 47 برس ہوگئے لیکن وہ اور ان کی یادیں آج بھی پختون قوم کے دلوں میں زندہ ہیں'انھوں نے صرف سیاست نہیں کی بلکہ پختون قوم کو ایک نیا فلسفہ اور نظریہ بھی دیا'ان کی برسی 8فروری کو ہے لیکن ان کی یاد میں عظیم الشان جلسہ شیرپاؤ میں 15فروری 2022 کو منعقد ہوگا۔
1970 تک سابقہ صوبہ سرحد میں روایتی پارٹیاں مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی تھیں' مسلم لیگ مضبوط مرکز کی حامی تھی' دوسری طرف نیشنل عوامی پار ٹی تھی جس کا نعرہ تھا کہ پاکستان کو ایک وفاقی ریاست ہونا چاہیے جہاں پر صوبائی خود مختاری ہو۔دونوں پارٹیوں کے پروگرام میں محنت کش' مزدور اور کسان طبقے کے مسائل کا ذکر نہیں تھا۔ایسے دور میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور صوبہ سرحد میں شہید حیات محمد خان شیرپاؤ کو اس کی قیادت سونپی گئی۔
پیپلز پارٹی کا منشور اس سرزمین کے پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک خوشخبری تھی 'اس منشور میں صوبائی حقوق کے ساتھ ساتھ زیادہ زور عوامی مسائل اور خاص کر غریب محنت کش ' کسان اور مزدور طبقوں کے مسائل پر دیا گیا تھا'اس نئے نعرے کو صوبے میں متعارف کرانے کے لیے حیات شہید نے دن رات ایک کر دیے۔
اور دونوں روایتی پارٹیوں کے بیچ میں راستہ بناتے ہوئے 'مشکل حالات میںعوام میں اپنا ایک اعلیٰ مقام پیدا کیا ' یہاں تک کہ 1970کے انتخابات میں خان قیوم کو صوبائی سیاست سے دور رکھنے کے لیے ولی خان کو حیات شہید کا سہارا لینا پڑا 'ان کی اسی سیاست اور مقبولیت کو مفاد پرست طبقے ہضم نہ کرسکے اور8فروری 1975کو ان کو پشاور یونیورسٹی کے ایک پروگرام کے دوران شہید کردیا گیا۔
حیات شہید نے پارٹی کی ترویج کے ساتھ ساتھ پختونوں کی روایتی قوم پرستوں کی عدم توجہ کی وجہ سے محرومی ومایوسی کے خاتمے اور شناخت دلانے اور ان کی آواز مرکز تک پہنچانے میں جو اہم کردار ادا کیا۔
اس کی بدولت روایتی قوم پرست سیاستدانوں کی پا لیسیوں کے برعکس پسے ہوئے اور محنت کش پختونوں کو سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ کوعوامی مقبولیت اور پختون قوم کے ہر دلعزیزرہنماء کی حیثیت سے کم عرصہ میں جو پذیرائی ملی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی'ان کی شہادت کے بعد ان کی سوچ نے ایک مشن کی شکل اختیار کی اور اس مشن کی تکمیل کے لیے'ان کے چھوٹے بھائی ملی رہبر آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے نہایت ہی نا مساعد حالات کے باوجود بڑی ثابت قدمی سے جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں سختیوں کے باوجود ایک مرد آہن کی شکل میں حیات شہید کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا مشن پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانااور محروم طبقوں کی محرومیاں دور کرنا تھا اور یہی ملک کی ترقی کا راستہ ہے۔
چھوٹی قومیتوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی حقوق دینے کے بہانے نیم دلانہ اقدامات کی کو شش کی گئی ہے' اس ترمیم یا قومی مسئلے کے حل کے لیے دیگر نیم دلانہ اعلانات اصل میں بالادست طبقوں کا ایجنڈا ہے 'چھوٹی قومیتیں ایک نئے معاہدہ عمرانی (New Social Contract) کا مطالبہ کر رہی تھیں' اس لیے ان کو ا ٹھارویں ترمیم کے لالی پاپ سے بہلانے کی کو شش کی گئی 'مسائل بہت گھمبیر ہیں ا س لیے قومی اور طبقاتی مسائل کے حل کے لیے معاشرے کے مختلف قوتوں کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔
یہ سب قوتیں مل کر اس خطے کو مصیبت سے نکالنے کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہیں۔شہید وطن حیات خان شہید کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے اور پختون قوم کے مسائل حل کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔
دہشت گردی اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ قومی استحصال پوری قوم کا مسئلہ ہے اور ان کو حل کرنے کی ذمے داری بھی پوری قوم کی ہے' ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہمسایوں کے ساتھ امن اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کرکے تزویراتی گہرائی 'بھارت دشمنی 'پراکسی جنگوں اورجہاد اور اسلحہ سازی کے بجائے خارجہ اور داخلہ محاذوں پرترقی'امن اور خوشحالی کا ایجنڈا اپنائیں۔
حیات شہید کے مشن کو پورا کرنے کے لیے ملی رہبر آفتاب شیرپاؤ قومی وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے نیو نیشلزم کے نعرے کے تحت سرگرم عمل ہیں۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل ہونے کے بعد مکمل مراعات' اس کے علاوہ CPEC میں صوبے کے جائز حق کا حصول ' پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانے کے لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ اور 'پختون قوم کی بہتری اور ترقی حیات شہید کا و ہ راستہ ہے جو قومی وطن پارٹی اور ملی رہبر کے لیے نشان راہ ہے۔روایتی پختون لیڈرشپ نے کبھی بھی اپنی قوم کے مفادات کی خاطر درست فیصلے نہیں کیے۔
مختلف مواقعے میسر ہونے کے باوجود ان روایتی قوم پرست لیڈروں نے شعوری یا کم علمی کی بنیاد پران مواقع کو ضایع کیا اور قوم کا مقدمہ غلط جگہ اور غلط انداز میں پیش کرکے پختون قوم کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کیاجس کی سزا پختون قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے بھگت رہی ہے 'روایتی قوم پرستوں نے ہمیشہ غیر ملکی ایجنڈوں کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بنیاد بناکر پختون قوم پر مسلط کیا۔
شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ نے محسوس کیا کہ پاکستان کی سیاست میں پختون قوم کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں پختون قوم کی آواز کی شکل میں شامل ہو کر اپنے قوم کی نمایندگی کے لیے کمر بستہ ہوئے اور دن رات محنت کرکے پیپلز پارٹی کو پختونوں کے اس خطے میں کونے کونے تک پہنچایااور پارٹی کے ایک بانی ممبر کی حیثیت سے اپنی سیاست اور تدبر کا لوہا منوا یا۔آج یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ حکومت پشتو زبان کو نصاب سے نکال رہی ہے' حالانکہ یہ المیہ تو کب کا وقوع پذیر ہو چکا ہے۔
1970 کے انتخابات کے بعد 'صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کو مخلوط حکومت بنانے کا موقع مل گیا 'یہ ایک اچھا موقع تھا 'قوم پرستوں کو قیام پاکستان کے بعد پہلی دفعہ حکومت کا موقعہ ملا تھا 'صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب ممتاز بھٹو صاحب نے سندھی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا اعلان کیا۔
قائد حزب اختلاف حیات محمد خان شیرپاؤ نے صوبے میں پشتو کو سرکاری زبان قرار دینے اور صوبے کا نام تبدیل کرنے کے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا ' ان کے اس اعلان کے باوجود نیپ اور جمعیت کی حکومت نے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اردو کو صوبے کی سرکاری اور دفتری زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا۔
کثیر قطبی(Multi Polar)دنیا کے ظہور اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے تمام دنیا کی سیاسی و معاشی خد و خال میں واضح تبدیلیاں رو نما ہورہی ہیں'جس کا اثر ملک گیر سیاسی پارٹیوں پر پڑنا ایک لازمی امر تھا 'نئے سیاسی منظر نامہ میں پختون قوم کا یہ خطہ ایک نئی اہمیت کا حامل ہے اور بین الاقوامی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
پختون قوم آج تاریخ کے ایک ایسے نازک اور مشکل موڑ پر کھڑی ہے کہ جس کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ' ' نیو نیشلزم '' سے لیس ایک ایسی پارٹی کی ضرورت تھی 'جو حیات شہید کے مشن کو آگے بڑھائے اور جس کی قیادت مضبوط'باکردار 'بے لوث'جرات مند 'با اعتماد 'محب وطن اور دور اندیش رہنما کے ہاتھ میں ہوجو پختون قوم کو ان مشکلات سے نکال کر ترقی 'خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن کر سکے' جس طرح دنیا کے دوسری اقوام نے حالات اور گلوبلائزیشن کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے روایتی لیڈر شپ کے اپنائے ہوئے فلسفوں سے نکل کر روایتی نیشلزم کے بجائے حقیقت پر مبنی ''نیو نیشنلزم'' کی راہ اختیارکی اور ترقی 'خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن ہوئے۔
اسی طرح اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے روایتی نیشنلزم کے منفی اثرات سے پختون قوم کو آگاہ و خبردار کرنے کے لیے نیشنلزم کی جدید نقطہ نظر کی راہ اختیار کرتے ہوئے پختون قوم کی رہنمائی کرنے کے لیے قومی وطن پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اس پارٹی اور اس کی قیادت کی عوامی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ '' شہید وطن ''حیات شہید کے ارمانوں کا جھنڈا ' قومی وطن پارٹی کے ہزاروں باشعور کارکنوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ قافلہ ملی رہبر آفتاب شیرپاؤ اور نوجوان قائد سکندر خان شیرپاؤ کی قیادت میں پورے جوش و خروش کے ساتھ پختون قوم کی نجات کی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔قومی وطن پارٹی کا نظریہ اور سوچ ترقی پسند ہے۔