جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ

کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ اسلحہ بردار ڈکیت مسلسل ڈکیتیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں ، عام شہری ہر روز دھڑلے سے لٹ رہے ہیں ، ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اس شہر میں اب پولیس صرف یونیفارم پہننے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پولیس کا کام صرف سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ کر گشت کرنا رہ گیا ہے، جرائم پیشہ افراد اسلحے کے زور پر کسی کو بھی کہیں بھی لوٹ سکتے ہیں۔

عوام کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے ، مہنگائی اور بے روزگاری نے زندگی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، اوپر سے یہ جرائم پیشہ لوگ کوئی شخص گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر، جرائم پیشہ افراد چھلاوے کی طرح منٹوں میں واردات کرکے چلے جاتے ہیں ، اگر کسی نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت کی کوشش کی تو اسے گولیاں مار دی جاتی ہیں ، جب جرائم کا یہ حال ہے توشہری کہاں جائیں قانون نافذ کرنے والے افراد منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

کراچی ایک ترقی یافتہ شہر ہے جہاں ہر روز اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے، ایسے تجارتی شہر میں اگر جرائم کا یہ حال ہو کہ کوئی گھر کے اندر محفوظ ہو نہ گھر کے باہر۔ والدین اپنے بچوں کو کام پر بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں ،کام سے واپس آنے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

نئی نئی گاڑیوں اور شہر میں رنگا رنگ وردیوں میں گھومنے والے سپاہی جرائم کو تو نہیں روک پا رہے ہیں البتہ گشت میں مصروف رہتے ہیں، شہری تین طرح سے پریشان ہیں، ایک ڈاکوؤں سے دوسرا مہنگائی سے تیسرا کورونا وائرس سے۔ یہ تینوں بیماریاں لاعلاج ہیں، بے چارے ان مصیبتوں میں گھرے حیران و پریشان ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں۔

ہمارے ملک میں پولیس اس قدر غیر ذمے دار ہے کہ شہری ان سے مدد لیتے ہوئے خوف زدہ رہتے ہیں ، رشوت کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، ایف آئی آر درج ہونے کے بعد شہری کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے کہ وہ صورتحال معلوم کرنے کے لیے روزانہ پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹتا رہے جب چکر کاٹتے کاٹتے تھک جاتے ہیں تو اپنی ساری عمر کی کمائی اپنے لوٹے ہوئے مال سے دست بردار ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں اور جب تک لوٹے ہوئے مال کے حصے بخرے ہو جاتے ہیں۔


چوری ڈکیتی لوٹ مار کرنے والوں کا تعلق عموماً ملک کے دوسرے شہروں سے ہوتا ہے، وہ لوٹ کا مال لے کر اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں ، کچھ دن عیش و آرام کرنے کے بعد عوام کی لوٹی ہوئی رقم کو ٹھکانے لانے کے بعد پھر اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ عوام کے لوٹے ہوئے مال میں سرکاری اہلکاروں کا معقول حصہ ہوتا ہے اور اس حصے ہی کی وجہ سے سرکاری اہلکار ان جرائم پیشہ افراد کو ہر طرح کی سہولت مہیا کرتے ہیں جب تک کراچی میں سرکاری اہلکار اور جرائم پیشہ افراد میں یہ محبت قائم رہے گی، جرائم کی بھرمار ہوتی رہے گی اور بے چارے عوام آئے دن لٹتے رہیں گے۔

عوام ایک طرف ڈاکوؤں سے پریشان ، دوسری طرف مہنگائی سے پریشان ہیں۔ پاکستانی عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے ، انھیں دو وقت کی روٹی چاہیے، دن بہ دن قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے پاس دو نمبر پیسہ ہے وہ بڑی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں اور جو بے چارے محنت مزدوری کرکے اپنے بال بچوں کو پال رہے ہیں، وہ کہاں سے اپنے بچوں کو اچھی غذا مہیا کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کورونا نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

ادویات کی قیمتوں میں کمی تو دور کی بات ہے آئے دن قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ امیر آدمی تو قیمتی دوائیں لے سکتا ہے مگر غریب آدمی کہاں سے قیمتی دوائیں لے۔ انھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہ دوا کہاں سے لے۔ بیماریوں میں مبتلا عوام سے علاج کی سہولت چھین لی گئی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ اور اسپتالوں میں دی جانے والی مفت ادویات کی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے۔

عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آئے دن بجلی اور پٹرولیم مصنوعات ہی نہیں بلکہ آٹے، گھی، تیل، دالیں اور اس طرح کی روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی آخر کیوں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے، عام آدمی کی پریشانی ناقابل بیان حد تک بڑھ رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ غریبوں سے دو وقت کی روٹی نہ چھینیں، عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے بڑی سنجیدگی اور برد باری سے حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ عام آدمی کو ریلیف ملے اور کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پرکنٹرول کریں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کوئی موثر اقدام اٹھائیں۔
Load Next Story