وزیر اعظم کا دورہ چین

چین پاکستان کا سب سے زیادہ قابل اعتماد دوست ملک ہے

mjgoher@yahoo.com

پاکستان کو عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر دنیا میں بالعموم اور ایشیا میں بالخصوص ایک اہم مقام حاصل ہے۔ وطن عزیز کی جغرافیائی حیثیت دنیا بھر میں مسلمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی عالمی سیاست میں پاکستان کے کردارکو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔

دو اہم پہلو یعنی جغرافیائی اور نظریاتی اعتبار سے پاکستان کے اپنے دیگر ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت ، بنگلہ دیش ، افغانستان ، ایران اور چین پھر اسلامی دنیا اور عالمی قوتوں بالخصوص امریکا ، برطانیہ ، فرانس اور روس وغیرہ سے تعلقات کی بنیاد کن عوامل پر ہونی چاہیے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر عالمی سیاست کے ماہرین ، مفکرین ، مدبرین اور تجزیہ کار مباحثہ کرتے رہتے ہیں۔

چین پاکستان کا سب سے زیادہ قابل اعتماد دوست ملک ہے جو پرخلوص ہمسائیگی کے معیار پر کماحقہ پورا اترتا ہے۔ پاک چین دوستی کو شہد سے زیادہ میٹھا ، سمندر سے زیادہ گہرا اورکوہ ہمالیہ سے زیادہ بلند اور مضبوط قرار دیا جاتا ہے۔ برے وقتوں میں چین پاکستان کے کاندھے سے کاندھا ملا کرکھڑا ہو جاتا ہے۔

پاک چین تعلقات ہر دو جانب حکومتوں کی تبدیلی سے ماورا ہیں۔ دونوں ملکوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو اورکوئی بھی رہنما مسند اقتدار پر براجمان ہو پاک چین باہمی تعلقات میں گرم جوشی میں کبھی کمی نہیں آئی۔

پاکستان میں ایک طویل عرصے تک مختلف اوقات میں غیر سیاسی قوتیں بھی برسر اقتدار رہیں لیکن چینی قیادت نے پاکستان میں برسر اقتدار سیاسی و غیر سیاسی ہر دو رہنماؤں کا دل کی گہرائیوں سے خیرمقدم کیا۔ دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی میں باہمی اعتبار کا عامل ہمیشہ سرفہرست رہا ہے اور اعتماد و اعتبار کا یہ رشتہ کسی جانب سے کبھی متزلزل نہیں ہوا۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے 4 مئی 1950 کو واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب کے ایک ظہرانے میں یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان نے پیپلز ری پبلک آف چائنا کو تسلیم کرلیا ہے۔ چین کو تسلیم کرنے کے بعد دونوں ملکوں میں ابتدائی مرحلے میں تعلقات کا آغاز تجارتی روابط سے ہوا۔ 1960 کی دہائی میں پاک چین دوستی میں بہت سی حد بندیاں اور مشکلات بھی حائل رہیں۔

کیوں کہ پاکستان کا واحد معیار دوستی یہ تھا کہ ملک کشمیر کے مسئلے پر کیا کہتا ہے اور اس نے بھارت کو فوجی امداد دی یا نہیں دی۔ اسی طرح چین کے لیے تائیوان کی تائید حساس مسئلہ تھا۔ تاہم پاکستان نے 1965 میں صاف الفاظ میں اعلانیہ کہہ دیا کہ تائیوان چین کا اٹوٹ انگ ہے۔ جس کے بعد پاک چین تعلقات میں بہتری اور گرم جوشی کے امکانات بھی روشن ہوگئے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران چین پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔


اس وقت کے چینی وزیر اعظم چو این لائی نے یہ یقین دہانی کرائی کہ ہر صورت چین کی امداد پاکستان کو حاصل رہے گی۔ چینی قیادت نے یہاں تک واضح کردیا تھا کہ بھارت کی جانب سے مشرقی پاکستان پر حملے کی صورت میں چین نہ صرف وہاں بلکہ شمالی سرحد پر بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ یہ یقین دہانی بھارت کے لیے یقینا ایک پیغام تھا۔ امریکا کا ساتواں بحری بیڑا تو پاکستان کی مدد کے لیے نہ آیا لیکن چین نے پاکستان کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

ہر دو ممالک میں خارجہ تعلقات کی بنیاد ملکی مفادات ہمیشہ ترجیح ہوتے ہیں۔ ہر ملک اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر خارجہ پالیسی کے خد و خال ترتیب دیتا ہے۔ اسی باعث ہر دو ملکوں کے تعلقات میں مد و جزر کی کیفیت رہتی ہے۔

1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے چین کے ساتھ جن خوشگوار تعلقات کا آغاز کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مزید گہرے اور مستحکم ہوتے چلے گئے۔ آج پاکستان اور چین کے تعلقات مد و جزرکی منزلیں طے کرتے ہوئے مستحکم در مستحکم ہوتے جا رہے ہیں۔ شاہراہ قراقرم کے بعد اقتصادی راہ داری منصوبے سی پیک نے دونوں ملکوں کی دوستی کو جو اعتماد اور اعتبار بخشا ہے اس میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سی پیک سے خائف ممالک امریکا و بھارت کی خفیہ سازشوں کے باوجود یہ منصوبہ تکمیل کی شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ اسے مکمل کرنے کے عزم کا اعتماد کرتی چلی آ رہی ہے کہ یہی منصوبہ ''گیم چینجر'' ہے، پاکستان کی معاشی ترقی کا ضامن ہے، اس سے جڑے منصوبے عوام کی نجی زندگی کے معیار کو بلند کرنے، پسماندگی و غربت دور کرنے اور روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔ اگرچہ ان کا یہ دورہ بظاہر چین میں منعقد ہونے والے سہ ماہی اولمپک کھیلوں کی تقریب میں دیگر سربراہان مملکت کی طرح شرکت سے منسلک تھا ، تاہم دونوں کے سربراہان کے مابین خصوصی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ علاقائی، عالمی اور خطے کی سیاسی، معاشی اور حربی صورتحال پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

چینی وزیر اعظم لی کی کیانگ سے اپنی ملاقات کے دوران دو طرفہ تجارتی و معاشی تعلقات اور سی پیک پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور خطے کی تازہ اور اطراف کے ممالک کے کردار اور پاک چین تزویراتی تعاون اور باہمی مفادات کے معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت و تعاون کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

پاکستان میں سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں چینی ماہرین کے تعاون کے ضمن میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ کاوشیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ پاکستان میں چینی شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے چینی قیادت کو آگاہ کیا گیا۔ معاشی اور تجارتی حوالوں سے مختلف چینی اداروں کے سربراہان سے وزیر اعظم عمران خان نے تبادلہ خیال کیا۔ اس ضمن میں مختلف معاہدوں پر دستخط بھی کیے گئے۔

وزیر اعظم کے عین دورہ چین کے موقع پر یوم یکجہتی کشمیر بھی آگیا اور موقع کی مناسبت سے وزیر اعظم عمران خان نے چینی معروف تھنک ٹینکوں، یونیورسٹیوں کے سربراہوں اور نمایندوں پر مشتمل خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جارحانہ کردار، ہندوتوا نظریے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزیر اعظم کے دورہ چین کے مثبت نتائج سے سی پیک کی تکمیل اور معاشی اہداف حاصل کرنے میں یقینا مدد ملے گی۔
Load Next Story