سیاسی غلط فہمی اور بیانات
ہم بھی عجیب آدمی ہیں ہر دفعہ کمرکس کرکالم لکھنے بیٹھ جاتے ہیں
ہم بھی عجیب آدمی ہیں ہر دفعہ کمرکس کرکالم لکھنے بیٹھ جاتے ہیں لوگ پڑھتے ہیں خاکسار کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ آپ کو عوامی مسائل کی بہت تکلیف ہے مگر دکھ تو اس بات کا ہے جن کے لیے ہم لکھتے ہیں وہ ہم اور عوام سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ قوم کے مسائل کے تکیے پر سر رکھ کر فراٹے بھرتے ہیں اور قوم ہے کہ مسلسل جاگ رہی ہے، بیانات کے سلسلے نے اس قوم کو اکتا کے رکھ دیا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔
عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں صرف بیانات سے عوامی مسائل پورے نہیں ہوتے مہنگائی کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، وہاں عوامی مسائل، قانون، ٹریفک، ایئرلائن، ریلوے غرض ضروریات زندگی کے الگ الگ خوب صورت پودے ہیں ، مثالیں وہاں کی دی جاتی ہیں سوچیں کہ عوام کس اذیت سے گزرتے ہیں۔
ان بیانات کی وجہ سے مگر لیڈر سمجھتے ہیں کہ اس قوم کو بے وقوفی کا جھنڈا بلند کرکے دیں تاکہ اس کی شاموں میں یہ قوم زندگی گزارے مگر آخر کب تک یاد رکھیں گلاس وہاں تک پانی برداشت کرتا ہے ، جہاں تک اس میں جگہ ہے اس چیز کو ہمارے سیاست دان نہیں سمجھ رہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان بیانات سے عوام مطمئن زندگی گزار رہی ہے یہ سیاسی غلط فہمی ہے۔
اس غلط فہمی کو سیاست دانوں کو مٹانا ہوگا کراچی سے لے کر خیبر تک یہ سلسلہ جاری ہے آنیوالے الیکشن میں یہ قوم کے سامنے کس طرح جائیں گے کہ ہفتوں میں انٹرنیٹ نے لوگوں کے خیالات بدل دیے ہیں ترقی یافتہ ممالک میں کیا ہو رہا ہے وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں مگر کچھ سیاست دان بے حسی کی چادر اوڑھ کے بیٹھے ہیں جو مستقبل کے لیے الیکشن میں ان کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا۔
ایک جماعت کے امیر فرما رہے تھے کہ اہل اور ایماندار قیادت کو ملک کی خدمت کا موقع دیا جائے تمام سیاسی جماعتوں کے کچھ سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اداروں میں کرپشن کی خبریں روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں میڈیکل، صحت و صفائی، ایئرلائن غرض کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس کی کرپشن کی خبریں روزانہ نہ آتی ہوں لاقانونیت آپ کے سامنے ہے ایسے ایسے واقعات انٹرنیٹ پر آن ایئر ہوتے ہیں کہ دماغ سن ہوکر رہ جاتا ہے۔
ڈاکو حضرات کا تشدد تو اب فیشن بنتا جا رہا ہے ،کوئی پرسان حال نہیں ہر ماہ سیکڑوں لوگ چاروں صوبوں سے اس کا شکار ہوتے ہیں ، زخمیوں کی تعداد تو لکھنا بے کار ہے ، انٹرنیٹ نے گاڑیوں کے نمبر چہرے ہر چیز پر روشنی ڈالی ہے مگر قبرستان کی سی خاموشی ہے اپوزیشن حکومتی ہانڈی چولہے سے نیچے اتارنے کے لیے کوشاں ہے حکومتی حضرات اس کے جوابات دیتے ہیں۔
اب ان دو باتوں کے درمیان جگہ مسائل کی خالی ہے جو اپنی جگہ قائم ہے ہر چوتھی سیاسی شخصیت پر کرپشن کے الزامات ہیں پھر اگر یہ کہا جائے کہ اہل اور ایماندار قیادت کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے تو یہ صرف اور صرف دیوانے کا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں اگر حکومت کوکوئی ہم جیسا مفلس اور غریب لاچار صحافی کوئی مشورہ دینا چاہے تو وہ بھی لکڑی کی طرح تندور میں ڈال دیا جاتا ہے مگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ نظر اندازی کبھی کبھی بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ، ابھی لوگوں کو احساس نہیں ہے جس دن احساس اجاگر ہو گیا اس دن پرسکون چراغ روشن ہوں گے۔
گزشتہ دنوں سری لنکا کے حوالے سے ایک خبر منظر عام پر آئی کہ سری لنکا پاکستان سے 20 کروڑ ڈالر قرض لے گا اور اس قرض سے سیمنٹ اور چاول خریدا جائے گا کسی نے اس پر روشنی نہیں ڈالی تاکہ حکومتی ارکان اس پر عمل کرتے اور جنھوں نے مشورہ دیا سیمنٹ اور چاول کا وہ بھی خوب ہے سیمنٹ تو امیروں کا کھیل ہے کچی آبادی اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والا تو زندگی مرتے دھرتے گزار رہا ہے۔
اب رہا معاملہ چاول کا تو 80 فیصد لوگوں کی ضرورت زندگی چاول نہیں ہیں سری لنکا میں گائے بکرے بے انتہا پائے جاتے ہیں وہ تو دوسرے ممالک کو بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ان 20 کروڑ ڈالرز سے چاول اور سیمنٹ صرف 10کروڑ ڈالرز سے لیے جائیں، باقی دس کروڑ ڈالر سے یہ جانور منگوائے جائیں۔ راقم ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ بے چارے بقر عید کے موقع پر تحفے میں دیے گئے بکرے کے گوشت کو استعمال کرتے ہیں یا پھر آئے ہوئے گائے کے گوشت کو کھاتے ہیں۔
اس کے بعد تو ایک شخص نے راقم کو بتایا کہ ہم سارا سال بکرے کا گوشت نہیں کھاتے۔ 20 ہزار تنخواہ میں 1400 روپے کا گوشت کیسے خرید سکتے ہیں؟ اور اگر بیمار پڑ جائیں تو ڈاکٹر اور حکیم کے مشورے کہ بکرے یا مرغی کا گوشت استعمال کریں ، دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ 800 روپے کلو گائے کا گوشت بھی استعمال نہیں کرسکتے اب سوچیں کہ اس ملک میں ان کی اکثریت ہے انھیں چاول اور سیمنٹ سے کیا فائدہ ہوگا سیمنٹ کو تو نکال دیں اچھا چاول بھی 190 روپے کلو تک بک رہا ہے اور اگر ہم نے چاول امپورٹ بھی کرلیے سری لنکا سے تو 20 کروڑ ڈالر بہت ہوتے ہیں تو کیا درمیانی قسم کا چاول جو 200 روپے کلو ہے وہ کیا 80 روپے کلو ملے گا؟
خدارا عوامی فیصلے سوچ سمجھ کر کریں وہ کام کریں جس سے تبدیلی محسوس ہو، زبانی کہنے سے تبدیلی نہیں آسکتی جو حضرات یہ فیصلے کرتے ہیں وہ صاحب مراعات ہیں جو مفلسی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ تو مرغی اور سبزی کے بارے میں بھی سو دفعہ سوچتے ہیں ان لوگوں کے پیٹ پر تو پتھر ہی بندھا رہتا ہے۔ اپوزیشن جب حکومت میں تھی اور جو اب حکومت میں ہیں وہ احتجاج سے ڈرتے ہیں اگر یہ گوشت امپورٹ کرلیں سری لنکا سے تو یہاں کاروباری حضرات ناراض ہو جائیں گے کچھ بہتری کے لیے اصلاحی قدم اٹھانے پڑتے ہیں اگر اس پر یہ عمل کرکے دکھا دیں تو بکرے کا گوشت 900 روپے اور گائے کا گوشت 250 روپے کلو اس قوم کو ملے گا۔
یہ ہے تبدیلی حکومت ہڑتالوں سے نہ گھبرائیں۔ مرغی گزشتہ ایک سال تک 410 روپے کلو فروخت ہوتی رہی آج بھی 290 اور 300 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے یہ بھی 25,000 کمانیوالے کی دسترس سے کوسوں دور ہے ، ادھر ارکان سینیٹ کہتے ہیں مہنگائی کو نہ روکا گیا تو سنگین نتائج نکلیں گے اب ایک ذمے دار سینیٹ رکن یہ بیان دیں اور پھر اس کا خاطر خواہ رزلٹ نہ نکلے تو پھر بات بیانات کے گرد ہی گھومتی نظر آئے گی۔
ہمارے معزز سیاست دان سمجھ رہے ہیں کہ قوم کے لیے اچھے بیانات دیتے رہو بس قوم اس سے خوش ہے۔ یاد رکھیں کچرے پر کچرا ڈالتے رہیں گے تو سڑاند تو باہر آئے گی اس سے پہلے کہ بدبو میں اضافہ ہو اسے صاف کرنے کی کوشش کریں چلیے جو اپوزیشن کے حضرات سینیٹ ممبر ہیں وہ تو اپوزیشن ہیں جو حکومت کے سیاسی طور پر مخالف ہیں مگر جو پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں ، انھیں سینیٹ کے ممبران کی اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے وقت بدلتا رہتا ہے نئے آنیوالے الیکشن میں اپوزیشن اور حکومت کس مقام پر کھڑے ہوں کچھ نہیں کہہ سکتے مگر اصل ووٹر دیہاتوں میں رہتا ہے وہ مہنگائی سے بہت پریشان ہے جس کی گواہی راقم نہیں انٹرنیٹ پر آنے والی وڈیوز دیتی ہیں میں پھر وزیر اعظم عمران خان سے کہتا ہوں کہ آپ کا ووٹر دیہاتوں سے منسلک ہے اس نے بہت چاہت سے آپ کو تبدیلی کے حوالے سے ووٹ دیا وہ آج بہت پریشان ہے۔
پورے ملک میں پرائس کنٹرول کو فعال کریں۔ اب ہمارے سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ بیانات کا کھیل ختم کریں کہ آج کا شہری انٹرنیٹ پر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے جس سے قوم بہت مایوس ہے۔ملک کے سینئر سیاست دان کہتے ہیں عمران خان نے تقریروں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ گزشتہ 30 سال سے تقریر کے بے لگام گھوڑے پر سب سوار ہیں اب وزیر اعظم کی باری ہے تو آپ کیوں اعتراض کر رہے ہیں ان کا تو پہلا اقتدار ہے آپ تو کئی مرتبہ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھتے رہے ہیں تو زور پھر صرف اور صرف بیانات تک رہا اب انھیں بھی بیان دینے دیں سوچیں کہ اپوزیشن پوری کوششیں کر رہی ہے کہ حکومت فارغ ہو تو ہماری باری آئے باریاں لینے والے اب پھر باری کے انتظار میں ہیں لگتا ہے کہ شاید اب ایسا نہیں ہو رب حقیقی تبدیلی لائے گا تاکہ قوم بھی سکون کا سانس لے۔
گردشوں کی مٹی میں دب کے رہ گئے ہیں
ایک دن یہ مٹی بھی سونا بنے گی
عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں صرف بیانات سے عوامی مسائل پورے نہیں ہوتے مہنگائی کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں، وہاں عوامی مسائل، قانون، ٹریفک، ایئرلائن، ریلوے غرض ضروریات زندگی کے الگ الگ خوب صورت پودے ہیں ، مثالیں وہاں کی دی جاتی ہیں سوچیں کہ عوام کس اذیت سے گزرتے ہیں۔
ان بیانات کی وجہ سے مگر لیڈر سمجھتے ہیں کہ اس قوم کو بے وقوفی کا جھنڈا بلند کرکے دیں تاکہ اس کی شاموں میں یہ قوم زندگی گزارے مگر آخر کب تک یاد رکھیں گلاس وہاں تک پانی برداشت کرتا ہے ، جہاں تک اس میں جگہ ہے اس چیز کو ہمارے سیاست دان نہیں سمجھ رہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان بیانات سے عوام مطمئن زندگی گزار رہی ہے یہ سیاسی غلط فہمی ہے۔
اس غلط فہمی کو سیاست دانوں کو مٹانا ہوگا کراچی سے لے کر خیبر تک یہ سلسلہ جاری ہے آنیوالے الیکشن میں یہ قوم کے سامنے کس طرح جائیں گے کہ ہفتوں میں انٹرنیٹ نے لوگوں کے خیالات بدل دیے ہیں ترقی یافتہ ممالک میں کیا ہو رہا ہے وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں مگر کچھ سیاست دان بے حسی کی چادر اوڑھ کے بیٹھے ہیں جو مستقبل کے لیے الیکشن میں ان کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا۔
ایک جماعت کے امیر فرما رہے تھے کہ اہل اور ایماندار قیادت کو ملک کی خدمت کا موقع دیا جائے تمام سیاسی جماعتوں کے کچھ سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اداروں میں کرپشن کی خبریں روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں میڈیکل، صحت و صفائی، ایئرلائن غرض کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس کی کرپشن کی خبریں روزانہ نہ آتی ہوں لاقانونیت آپ کے سامنے ہے ایسے ایسے واقعات انٹرنیٹ پر آن ایئر ہوتے ہیں کہ دماغ سن ہوکر رہ جاتا ہے۔
ڈاکو حضرات کا تشدد تو اب فیشن بنتا جا رہا ہے ،کوئی پرسان حال نہیں ہر ماہ سیکڑوں لوگ چاروں صوبوں سے اس کا شکار ہوتے ہیں ، زخمیوں کی تعداد تو لکھنا بے کار ہے ، انٹرنیٹ نے گاڑیوں کے نمبر چہرے ہر چیز پر روشنی ڈالی ہے مگر قبرستان کی سی خاموشی ہے اپوزیشن حکومتی ہانڈی چولہے سے نیچے اتارنے کے لیے کوشاں ہے حکومتی حضرات اس کے جوابات دیتے ہیں۔
اب ان دو باتوں کے درمیان جگہ مسائل کی خالی ہے جو اپنی جگہ قائم ہے ہر چوتھی سیاسی شخصیت پر کرپشن کے الزامات ہیں پھر اگر یہ کہا جائے کہ اہل اور ایماندار قیادت کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے تو یہ صرف اور صرف دیوانے کا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں اگر حکومت کوکوئی ہم جیسا مفلس اور غریب لاچار صحافی کوئی مشورہ دینا چاہے تو وہ بھی لکڑی کی طرح تندور میں ڈال دیا جاتا ہے مگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ نظر اندازی کبھی کبھی بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ، ابھی لوگوں کو احساس نہیں ہے جس دن احساس اجاگر ہو گیا اس دن پرسکون چراغ روشن ہوں گے۔
گزشتہ دنوں سری لنکا کے حوالے سے ایک خبر منظر عام پر آئی کہ سری لنکا پاکستان سے 20 کروڑ ڈالر قرض لے گا اور اس قرض سے سیمنٹ اور چاول خریدا جائے گا کسی نے اس پر روشنی نہیں ڈالی تاکہ حکومتی ارکان اس پر عمل کرتے اور جنھوں نے مشورہ دیا سیمنٹ اور چاول کا وہ بھی خوب ہے سیمنٹ تو امیروں کا کھیل ہے کچی آبادی اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والا تو زندگی مرتے دھرتے گزار رہا ہے۔
اب رہا معاملہ چاول کا تو 80 فیصد لوگوں کی ضرورت زندگی چاول نہیں ہیں سری لنکا میں گائے بکرے بے انتہا پائے جاتے ہیں وہ تو دوسرے ممالک کو بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ان 20 کروڑ ڈالرز سے چاول اور سیمنٹ صرف 10کروڑ ڈالرز سے لیے جائیں، باقی دس کروڑ ڈالر سے یہ جانور منگوائے جائیں۔ راقم ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ بے چارے بقر عید کے موقع پر تحفے میں دیے گئے بکرے کے گوشت کو استعمال کرتے ہیں یا پھر آئے ہوئے گائے کے گوشت کو کھاتے ہیں۔
اس کے بعد تو ایک شخص نے راقم کو بتایا کہ ہم سارا سال بکرے کا گوشت نہیں کھاتے۔ 20 ہزار تنخواہ میں 1400 روپے کا گوشت کیسے خرید سکتے ہیں؟ اور اگر بیمار پڑ جائیں تو ڈاکٹر اور حکیم کے مشورے کہ بکرے یا مرغی کا گوشت استعمال کریں ، دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ 800 روپے کلو گائے کا گوشت بھی استعمال نہیں کرسکتے اب سوچیں کہ اس ملک میں ان کی اکثریت ہے انھیں چاول اور سیمنٹ سے کیا فائدہ ہوگا سیمنٹ کو تو نکال دیں اچھا چاول بھی 190 روپے کلو تک بک رہا ہے اور اگر ہم نے چاول امپورٹ بھی کرلیے سری لنکا سے تو 20 کروڑ ڈالر بہت ہوتے ہیں تو کیا درمیانی قسم کا چاول جو 200 روپے کلو ہے وہ کیا 80 روپے کلو ملے گا؟
خدارا عوامی فیصلے سوچ سمجھ کر کریں وہ کام کریں جس سے تبدیلی محسوس ہو، زبانی کہنے سے تبدیلی نہیں آسکتی جو حضرات یہ فیصلے کرتے ہیں وہ صاحب مراعات ہیں جو مفلسی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ تو مرغی اور سبزی کے بارے میں بھی سو دفعہ سوچتے ہیں ان لوگوں کے پیٹ پر تو پتھر ہی بندھا رہتا ہے۔ اپوزیشن جب حکومت میں تھی اور جو اب حکومت میں ہیں وہ احتجاج سے ڈرتے ہیں اگر یہ گوشت امپورٹ کرلیں سری لنکا سے تو یہاں کاروباری حضرات ناراض ہو جائیں گے کچھ بہتری کے لیے اصلاحی قدم اٹھانے پڑتے ہیں اگر اس پر یہ عمل کرکے دکھا دیں تو بکرے کا گوشت 900 روپے اور گائے کا گوشت 250 روپے کلو اس قوم کو ملے گا۔
یہ ہے تبدیلی حکومت ہڑتالوں سے نہ گھبرائیں۔ مرغی گزشتہ ایک سال تک 410 روپے کلو فروخت ہوتی رہی آج بھی 290 اور 300 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے یہ بھی 25,000 کمانیوالے کی دسترس سے کوسوں دور ہے ، ادھر ارکان سینیٹ کہتے ہیں مہنگائی کو نہ روکا گیا تو سنگین نتائج نکلیں گے اب ایک ذمے دار سینیٹ رکن یہ بیان دیں اور پھر اس کا خاطر خواہ رزلٹ نہ نکلے تو پھر بات بیانات کے گرد ہی گھومتی نظر آئے گی۔
ہمارے معزز سیاست دان سمجھ رہے ہیں کہ قوم کے لیے اچھے بیانات دیتے رہو بس قوم اس سے خوش ہے۔ یاد رکھیں کچرے پر کچرا ڈالتے رہیں گے تو سڑاند تو باہر آئے گی اس سے پہلے کہ بدبو میں اضافہ ہو اسے صاف کرنے کی کوشش کریں چلیے جو اپوزیشن کے حضرات سینیٹ ممبر ہیں وہ تو اپوزیشن ہیں جو حکومت کے سیاسی طور پر مخالف ہیں مگر جو پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں ، انھیں سینیٹ کے ممبران کی اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے وقت بدلتا رہتا ہے نئے آنیوالے الیکشن میں اپوزیشن اور حکومت کس مقام پر کھڑے ہوں کچھ نہیں کہہ سکتے مگر اصل ووٹر دیہاتوں میں رہتا ہے وہ مہنگائی سے بہت پریشان ہے جس کی گواہی راقم نہیں انٹرنیٹ پر آنے والی وڈیوز دیتی ہیں میں پھر وزیر اعظم عمران خان سے کہتا ہوں کہ آپ کا ووٹر دیہاتوں سے منسلک ہے اس نے بہت چاہت سے آپ کو تبدیلی کے حوالے سے ووٹ دیا وہ آج بہت پریشان ہے۔
پورے ملک میں پرائس کنٹرول کو فعال کریں۔ اب ہمارے سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ بیانات کا کھیل ختم کریں کہ آج کا شہری انٹرنیٹ پر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے جس سے قوم بہت مایوس ہے۔ملک کے سینئر سیاست دان کہتے ہیں عمران خان نے تقریروں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ گزشتہ 30 سال سے تقریر کے بے لگام گھوڑے پر سب سوار ہیں اب وزیر اعظم کی باری ہے تو آپ کیوں اعتراض کر رہے ہیں ان کا تو پہلا اقتدار ہے آپ تو کئی مرتبہ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھتے رہے ہیں تو زور پھر صرف اور صرف بیانات تک رہا اب انھیں بھی بیان دینے دیں سوچیں کہ اپوزیشن پوری کوششیں کر رہی ہے کہ حکومت فارغ ہو تو ہماری باری آئے باریاں لینے والے اب پھر باری کے انتظار میں ہیں لگتا ہے کہ شاید اب ایسا نہیں ہو رب حقیقی تبدیلی لائے گا تاکہ قوم بھی سکون کا سانس لے۔
گردشوں کی مٹی میں دب کے رہ گئے ہیں
ایک دن یہ مٹی بھی سونا بنے گی