ایک محاورہ ایک کہانی
میرے سامنے اطہر اقبال کی کتاب ’’ ایک محاورہ ایک کہانی‘‘ رکھی ہے
کراچی:
میرے سامنے اطہر اقبال کی کتاب '' ایک محاورہ ایک کہانی'' رکھی ہے ، جس میں مقبول عام محاوروں پر مشتمل کہانیاں ہیں۔ راقم نے جب اس کتاب کا سر ورق دیکھا تو بہت خوشی ہوئی اور دل نے چاہا کہ فوراً پوری کتاب پڑھ لی جائے اور پھر یہ کتاب پڑھ بھی ڈالی مگر اس کتاب میں ایک بڑی کمی یہ نظر آئی کہ اگر مصنف اس کتاب میں ہر محاورے کی تاریخی اعتبار سے اصل کہانی پیش کرتے تو یہ کتاب اور بھی لا جواب ہوجاتی۔ خیر جب میں نے صاحب کتاب کا تعارف پڑھا تو معلوم ہوا کہ اطہر اقبال سن انیس سو بانوے سے بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ملازمت کر رہے ہیں اور اس وقت ڈپٹی میئر سیکریٹریٹ میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔
اب تک ان کی سات کے قریب کتب منظر عام پر آچکی ہیں ، بچوں پر بھی انھوں نے بہت لکھا ہے اور اب بھی ان کی ایک کتاب زیر تکمیل ہے۔ راقم کو شدید حیرت اور خوشی بھی ہوئی کہ صاحب کتاب نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا شوق زندہ رکھا ہوا ہے جو اس طبقہ میں مردہ ہو چکا ہے کہ جس کا کام ہی ایسی تصانیف پیش کرنے تھا، اس لیے میرے نزدیک ان کی یہ کاوش باوجود کمی کے قابل تحسین ہے۔
نئی نسل میں آج پڑھنے کا کلچرل تقریباً عنقا ہو چکا ہے جب کہ بچوں کے لیے تو ایسی کاوشیں نظر ہی نہیں آتیں۔ بطور ایک استاد میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو کتاب لکھنے والے شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس دور میں کتاب لکھنے کا ارادہ کرنا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ایک دشوار ترین مرحلہ بن گیا ہے، خود راقم کی دو کتب مکمل ہونے کے باوجود ابھی اشاعت کے مرحلے میں رکی ہوئی ہیں۔ یہ کام انتہائی مشکل تر ہوگیا ہے ایسے میں جب اطہر اقبال کی یہ علمی کاوشیں دیکھیں تو دل نے بے اختیار ان کو داد دی کہ کوئی تو ہے جو اس خشک ماحول میں ادب اور خاص کر بچوں کے ادب کوپھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کوششیں بھی کر رہا ہے۔
میری دعا ہے کہ ان کی یہ کوششیں جاری رہیں تاکہ نئی نسل کو پڑھنے کی طرف راغب کرنے میں مدد ملتی رہے۔ میں چونکہ جامعہ کراچی میں طویل عرصے سے استاد کے طور پر طلبہ سے رابطے میں ہوں ، اس لیے مجھے اندازہ ہے کہ یہ نئی نسل مطالعے سے کس قدر دور ہے اور مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اس دوری کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اچھی اور دلچسپ کتابوں کا منظر عام پر نہ آنا اور طلبہ کی پہنچ سے دور ہونا بھی ہے۔
پھر ایک بڑا مسئلہ اپنی قومی زبان سے آشنا نہ ہونا بھی ہے۔ آج کل کے والدین چاہتے ہیں کہ بہتر مستقبل کے ان کے بچے بہترین انگلش میڈیم میں پڑھیں ، یوں بچے جب انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں تو پھر وہ بولنے میں بھی انگریزی کا استعمال کرنے لگتے ہیں اس طرح اردو پڑھنے میں کمی کے ساتھ اردو بولنے میں بھی کمی واقع ہو تی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انگلش میڈیم سے پڑھ کر نکلنے والے جب جامعات میں پہنچتے ہیں تو اس وقت بھی انھیں چند سطر اردو میں لکھنا نہیں آتی۔ یہاں ایک استاد کا واقعہ لکھتا چلوں۔ ایک استاد نے بتایا کہ وہ طلبہ کو خبریں بنانا سیکھا رہے تھے۔
جب انھوں نے طلبہ کو انگریزی اخبار کی ایک خبر دی کہ اس کو اردو میں لکھیں تو طلبہ نے جواب دیا کہ وہ اردو میں خبر نہیں بنا سکتے ، انھیں اردو لکھنا نہیں آتی۔ اس جواب پر استاد نے طلبہ کو ایک اردو کی خبر دی اور کہا کہ اس کی انگریزی میں خبر بنائیں۔ طلبہ نے خبر بنانا شروع کی مگر پہلے وہ اس خبر کو بڑی حیرت کے ساتھ دیکھتے رہے پھر استاد سے پوچھنے لگے ، سر ''یہ شیخ الجامعہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی انگریزی کیا ہوگی؟''
کسی نے کہا '' سر سماجی علوم کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟''
ایک طالب علم نے پوچھا '' سر یہ گزشتہ روز کو انگریزی میں کیا کہیں گے؟''
ایک اور طالب علم نے کہا کہ '' یہ لفظ صدر شعبہ کیا صدر مارکیٹ ہے؟''
استاد نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کہ آپ لوگ میڈیا میں جانے کے لیے اس شعبہ میں آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اردو نہ پڑھیں اور اردو میں خبر نہ بنائیں مگر آپ کو تو انگریزی میں بھی خبر بنانا نہیں آرہی تو پھر میڈیا میں جا کر کیا کریں گے؟ کم از کم آپ کی اتنی اردو تو ہونی چاہیے کہ آپ لکھی ہوئی تحریر کا مطلب سمجھ سکیں۔
اس پر طلبہ نے جواب دیا کہ ہم تو انگریزی میڈیم سے پڑھ کر آئے ہیں، ہمیں اردو نہیں آتی۔
قارئین ! اس واقعہ سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس قوم کی نئی نسل اپنی قومی زبان سے اس قدر نا آشنا ہو وہ جب اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی تو کیا ہوگا ؟ بات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی کہ اس نسل کی انگریزی بہت اچھی ہے، بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ یہ نسل اس زبان سے نا آشنا ہے کہ جس زبان میں اس کا قومی ورثہ موجود ہے، جس زبان میں اس کا ادب ہے، جس زبان میں اس کا نظریہ حیات بھرا پڑا ہے، جس زبان میں اس کی ثقافت ، سماجی اقدار کے خزانے موجود ہیں اور جس زبان میں اس کی تاریخ محفوظ ہے۔
لہٰذا اگر یہ نئی نسل اپنی اس زبان سے کٹ گئی تو گویا وہ اپنے ادب ، نظریہ حیات ، ثقافت ، سماجی اقدار اور تاریخ سے بھی کٹ کر علیحدہ ہو جائے گی، پھر سوال یہ ہے کہ اس نئی نسل کا اپنی جڑ سے رشتہ کٹ جانے کے بعد کس سے ناتا جڑے گا ؟ بین الاقوامی ثقافت عامہ سے ؟ سوشل میڈیا اور اس میڈیا سے کہ جہاں ہماری تہذیب اور ثقافت دور دور تک نظر نہیں آتی؟ ایسے میں اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ ایک اہم ترین سوال اور اس ملک و قوم کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر ہمارے دانشوروں کو بھی غورکرنا چاہیے۔ راقم کے خیال میں اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو سوچنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہم بچپن میں اپنے والدین اور بزرگوں سے رات کو قصے کہانیاں سنا کرتے تھے اور دن میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ بچوں کے رسالے بھی پڑھا کرتے تھے۔ اس عمل سے ہماری اردو ہی بہتر نہیں ہوتی تھی بلکہ تربیت بھی ہوتی تھی مگر اب یہ کلچر اور ماحول تبدیل ہوچکا ہے ، بچے یا تو انگلش کی ہی کتب پڑھتے ہیں جن میں ظاہر ہے کہ ہمارا کلچر اور نظریہ نہیں ہوتا ، یا پھر بچے موبائل اور نیٹ سے جڑے رہتے ہیں اور تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں جس سے ان کی تربیت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے ، چنانچہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو خود بھی وقت دیں کہانیاں سنائیں اور پڑھنے کے لیے بھی کتب فراہم کریں۔
اساتذہ کو بھی چاہیے کہ طلبہ کو ایسی سرگرمیوں سے جوڑیں جو انھیں کتاب کلچر سے جوڑے۔ لکھنے والوں کی اس میدان میں کمی ہے راقم کے خیال میں اطہر اقبال ان سب کے لیے مثال ہیں جنھیں لکھنے کے مواقعے میسر ہیں اور جن کی سرگرمیاں بھی علمی ہیں مگر وہ لکھنے کی طرف نہیں آتے۔ میں اطہر اقبال کی ہمت کو داد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اور آیندہ بھی اس نئی نسل کے لیے لکھیں گے اور مسلسل لکھیں گے۔
میرے سامنے اطہر اقبال کی کتاب '' ایک محاورہ ایک کہانی'' رکھی ہے ، جس میں مقبول عام محاوروں پر مشتمل کہانیاں ہیں۔ راقم نے جب اس کتاب کا سر ورق دیکھا تو بہت خوشی ہوئی اور دل نے چاہا کہ فوراً پوری کتاب پڑھ لی جائے اور پھر یہ کتاب پڑھ بھی ڈالی مگر اس کتاب میں ایک بڑی کمی یہ نظر آئی کہ اگر مصنف اس کتاب میں ہر محاورے کی تاریخی اعتبار سے اصل کہانی پیش کرتے تو یہ کتاب اور بھی لا جواب ہوجاتی۔ خیر جب میں نے صاحب کتاب کا تعارف پڑھا تو معلوم ہوا کہ اطہر اقبال سن انیس سو بانوے سے بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ملازمت کر رہے ہیں اور اس وقت ڈپٹی میئر سیکریٹریٹ میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔
اب تک ان کی سات کے قریب کتب منظر عام پر آچکی ہیں ، بچوں پر بھی انھوں نے بہت لکھا ہے اور اب بھی ان کی ایک کتاب زیر تکمیل ہے۔ راقم کو شدید حیرت اور خوشی بھی ہوئی کہ صاحب کتاب نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا شوق زندہ رکھا ہوا ہے جو اس طبقہ میں مردہ ہو چکا ہے کہ جس کا کام ہی ایسی تصانیف پیش کرنے تھا، اس لیے میرے نزدیک ان کی یہ کاوش باوجود کمی کے قابل تحسین ہے۔
نئی نسل میں آج پڑھنے کا کلچرل تقریباً عنقا ہو چکا ہے جب کہ بچوں کے لیے تو ایسی کاوشیں نظر ہی نہیں آتیں۔ بطور ایک استاد میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو کتاب لکھنے والے شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس دور میں کتاب لکھنے کا ارادہ کرنا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ایک دشوار ترین مرحلہ بن گیا ہے، خود راقم کی دو کتب مکمل ہونے کے باوجود ابھی اشاعت کے مرحلے میں رکی ہوئی ہیں۔ یہ کام انتہائی مشکل تر ہوگیا ہے ایسے میں جب اطہر اقبال کی یہ علمی کاوشیں دیکھیں تو دل نے بے اختیار ان کو داد دی کہ کوئی تو ہے جو اس خشک ماحول میں ادب اور خاص کر بچوں کے ادب کوپھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کوششیں بھی کر رہا ہے۔
میری دعا ہے کہ ان کی یہ کوششیں جاری رہیں تاکہ نئی نسل کو پڑھنے کی طرف راغب کرنے میں مدد ملتی رہے۔ میں چونکہ جامعہ کراچی میں طویل عرصے سے استاد کے طور پر طلبہ سے رابطے میں ہوں ، اس لیے مجھے اندازہ ہے کہ یہ نئی نسل مطالعے سے کس قدر دور ہے اور مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اس دوری کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اچھی اور دلچسپ کتابوں کا منظر عام پر نہ آنا اور طلبہ کی پہنچ سے دور ہونا بھی ہے۔
پھر ایک بڑا مسئلہ اپنی قومی زبان سے آشنا نہ ہونا بھی ہے۔ آج کل کے والدین چاہتے ہیں کہ بہتر مستقبل کے ان کے بچے بہترین انگلش میڈیم میں پڑھیں ، یوں بچے جب انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں تو پھر وہ بولنے میں بھی انگریزی کا استعمال کرنے لگتے ہیں اس طرح اردو پڑھنے میں کمی کے ساتھ اردو بولنے میں بھی کمی واقع ہو تی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انگلش میڈیم سے پڑھ کر نکلنے والے جب جامعات میں پہنچتے ہیں تو اس وقت بھی انھیں چند سطر اردو میں لکھنا نہیں آتی۔ یہاں ایک استاد کا واقعہ لکھتا چلوں۔ ایک استاد نے بتایا کہ وہ طلبہ کو خبریں بنانا سیکھا رہے تھے۔
جب انھوں نے طلبہ کو انگریزی اخبار کی ایک خبر دی کہ اس کو اردو میں لکھیں تو طلبہ نے جواب دیا کہ وہ اردو میں خبر نہیں بنا سکتے ، انھیں اردو لکھنا نہیں آتی۔ اس جواب پر استاد نے طلبہ کو ایک اردو کی خبر دی اور کہا کہ اس کی انگریزی میں خبر بنائیں۔ طلبہ نے خبر بنانا شروع کی مگر پہلے وہ اس خبر کو بڑی حیرت کے ساتھ دیکھتے رہے پھر استاد سے پوچھنے لگے ، سر ''یہ شیخ الجامعہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی انگریزی کیا ہوگی؟''
کسی نے کہا '' سر سماجی علوم کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟''
ایک طالب علم نے پوچھا '' سر یہ گزشتہ روز کو انگریزی میں کیا کہیں گے؟''
ایک اور طالب علم نے کہا کہ '' یہ لفظ صدر شعبہ کیا صدر مارکیٹ ہے؟''
استاد نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کہ آپ لوگ میڈیا میں جانے کے لیے اس شعبہ میں آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اردو نہ پڑھیں اور اردو میں خبر نہ بنائیں مگر آپ کو تو انگریزی میں بھی خبر بنانا نہیں آرہی تو پھر میڈیا میں جا کر کیا کریں گے؟ کم از کم آپ کی اتنی اردو تو ہونی چاہیے کہ آپ لکھی ہوئی تحریر کا مطلب سمجھ سکیں۔
اس پر طلبہ نے جواب دیا کہ ہم تو انگریزی میڈیم سے پڑھ کر آئے ہیں، ہمیں اردو نہیں آتی۔
قارئین ! اس واقعہ سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس قوم کی نئی نسل اپنی قومی زبان سے اس قدر نا آشنا ہو وہ جب اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی تو کیا ہوگا ؟ بات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی کہ اس نسل کی انگریزی بہت اچھی ہے، بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ یہ نسل اس زبان سے نا آشنا ہے کہ جس زبان میں اس کا قومی ورثہ موجود ہے، جس زبان میں اس کا ادب ہے، جس زبان میں اس کا نظریہ حیات بھرا پڑا ہے، جس زبان میں اس کی ثقافت ، سماجی اقدار کے خزانے موجود ہیں اور جس زبان میں اس کی تاریخ محفوظ ہے۔
لہٰذا اگر یہ نئی نسل اپنی اس زبان سے کٹ گئی تو گویا وہ اپنے ادب ، نظریہ حیات ، ثقافت ، سماجی اقدار اور تاریخ سے بھی کٹ کر علیحدہ ہو جائے گی، پھر سوال یہ ہے کہ اس نئی نسل کا اپنی جڑ سے رشتہ کٹ جانے کے بعد کس سے ناتا جڑے گا ؟ بین الاقوامی ثقافت عامہ سے ؟ سوشل میڈیا اور اس میڈیا سے کہ جہاں ہماری تہذیب اور ثقافت دور دور تک نظر نہیں آتی؟ ایسے میں اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ ایک اہم ترین سوال اور اس ملک و قوم کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر ہمارے دانشوروں کو بھی غورکرنا چاہیے۔ راقم کے خیال میں اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو سوچنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہم بچپن میں اپنے والدین اور بزرگوں سے رات کو قصے کہانیاں سنا کرتے تھے اور دن میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ بچوں کے رسالے بھی پڑھا کرتے تھے۔ اس عمل سے ہماری اردو ہی بہتر نہیں ہوتی تھی بلکہ تربیت بھی ہوتی تھی مگر اب یہ کلچر اور ماحول تبدیل ہوچکا ہے ، بچے یا تو انگلش کی ہی کتب پڑھتے ہیں جن میں ظاہر ہے کہ ہمارا کلچر اور نظریہ نہیں ہوتا ، یا پھر بچے موبائل اور نیٹ سے جڑے رہتے ہیں اور تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں جس سے ان کی تربیت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے ، چنانچہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو خود بھی وقت دیں کہانیاں سنائیں اور پڑھنے کے لیے بھی کتب فراہم کریں۔
اساتذہ کو بھی چاہیے کہ طلبہ کو ایسی سرگرمیوں سے جوڑیں جو انھیں کتاب کلچر سے جوڑے۔ لکھنے والوں کی اس میدان میں کمی ہے راقم کے خیال میں اطہر اقبال ان سب کے لیے مثال ہیں جنھیں لکھنے کے مواقعے میسر ہیں اور جن کی سرگرمیاں بھی علمی ہیں مگر وہ لکھنے کی طرف نہیں آتے۔ میں اطہر اقبال کی ہمت کو داد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اور آیندہ بھی اس نئی نسل کے لیے لکھیں گے اور مسلسل لکھیں گے۔