بلوچستان توجہ چاہتا ہے

بلوچستان حکومت میں کوئی بھی عوام میں جڑیں رکھنے والا رہنماء نہیں

gfhlb169@gmail.com

ISLAMABAD:
بلوچستان میں پچھلے کچھ ہفتوں سے امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے۔ باغی عناصر تیزی سے سر اُٹھا رہے ہیں۔

بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک فعال ہے۔ان دونوں صوبوں کی جیو پولیٹکل لوکیشن خاصی اہمیت رکھتی ہے، اس لیے بین الاقوامی سیاسی کھلاڑی اس علاقے میںاپنے مقاصد کے حصول کے لیے چالیں چلتے رہتے ہیں۔

ہمارے پڑوسی ممالک بھی اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ اگر پاکستانی اپنی توانائیوں کو مربوط کر کے ملک کو سنوارنے اور ترقی دینے پر تُل گئے تو یہ ملک بہت تھوڑے سے عرصے میں ایک شاندار ترقی یافتہ ملک بن جائے گا اور اسے بین الاقوامی میدان میں بہت اہمیت مل جائے گی۔

اس خدشے کے پیشِ نظر پاکستان کو اس کے پوٹنشل اور شاندار مستقبل سے دور رکھنے کے لیے ہمارے پڑوسی ممالک بھی اپنی ریشہ دوانیوں میں لگے رہتے ہیں لیکن یہ کہنا شاید صحیح ہو گا کہ پاکستان اور خاص کر بلوچستان کے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔یہ مسائل کسی اور نے نہیں پیدا کیے۔باہر کے کھلاڑی اور ہمارے پڑوسی ممالک ہماری اپنی پیدا کردہ فالٹ لائنزسے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ اپنے پیدا کردہ مسائل کو جان بوجھ کر مزید پیچیدہ اور گمبھیر بنانے پر کمر بستہ ہیں۔

موجودہ دور میں میڈیا سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا کو گھر گھر بلکہ ہر گھر کے اندر تک رسائی حاصل ہے۔یہ رسائی ریاست کے طاقتور سے طاقتورستون کو بھی حاصل نہیں اس لیے میڈیا کی ذمے داری کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کا کردار بہت ہی اہم ہو گیا ہے۔

میڈیا اگر معاملے کی نوعیت کو پورے اخلاص سے سمجھنے، سمجھانے اور ممکنہ حل کی جانب لانے کی کوشش کرے تو ضرور اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے لیکن اگر معاملے کی نوعیت سے بالکل ناآشنا تجزیہ کاروں اور دانشوروں سے ہی پروگرام چلانے ہوں جیسا کہ اب ہو رہا ہے تو مسائل کی نشان دہی کون کرے گا اور کیسے ہم ڈیبیٹ Debate پیدا کر کے کسی Home grown حل کی طرف بڑھیں گے۔ہمارے میڈیا نے بلوچستان کے اندر خلفشار کو کب سمجھنے،سمجھانے اورسامنے لانے کی کوشش کی ہے۔عام طور پر بلوچستان کا مقامی نمایندہ اور رائے پر اثر انداز ہونے والا نظر انداز ہی رہا ہے۔


کسی بھی وفاق کی اکائیوں Federating unitsکے وسائل پر سب سے پہلا حق یونٹس کا اپنا ہوتا ہے۔بلوچستان کی سوئی گیس سے پورے ملک نے خوب فائدہ اُٹھایا۔کوئٹہ کو سوئی گیس سارے صوبائی دارالحکومتوں کے بعد ملی جب کہ کراچی سب سے پہلے سوئی گیس سے فائدہ اُٹھانے والا شہر تھا ۔ کیا ریکوڈک معدنی ذخائر پر کوئی بھی معاہدہ کرنے سے پہلے بلوچوں سے صلاح مشورہ کیا گیا۔

بلوچستان کا ساحل بہت خوبصورت اور کئی بندرگاہیں رکھتا ہے ،کیا گوادر سمیت کسی بندرگاہ کو ڈیویلپ کرنے اور طریقہ ء استعمال سے پہلے علاقے کے لوگوں کو اعتماد میں لیاگیا۔ہم کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان کے وسائل کے اوپر پہلا حق بلوچوں کاہے اور اگر یہ وسائل بلوچستان کی اپنی ضرورت سے زائد پائے جائیں تو تب اصلی بلوچ نمایندوں سے صلاح مشورہ کر کے باقی وفاقی اکائیوں کو دیے جائیں۔

بلوچستان کی صوبائی اور وفاقی سطح پر نمایندگی، وفاق کے اداروں کی مرضی سے وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا بلوچستان کے عوام سیذرا برابر تعلق نہیں۔جنرل مشرف کے دور میں کچھ غیر منتخب لوگوں کی پشت پناہی کر کے انھیں بڑے عہدوں سے نوازا گیا۔یہ ایک فیک Fakeلیڈرشپ ہے جس کی عوام میں کوئی پذیرائی نہیں۔ ان کی رائے کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

مشرف دور کے بعد کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں لیکن اب بھی ان کو ہی ہر جگہ گفت و شنید اور مذاکرات کی ذمے داری سونپی جاتی ہے اور یہ ہی ہر بلوچ صوبائی اور مرکزی حکومت کے سربراہ کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں۔

بلوچستان حکومت میں کوئی بھی عوام میں جڑیں رکھنے والا رہنماء نہیں۔اب صوبائی حکومت بلوچستان اور سینیٹ آف پاکستان میں کوئی بھی قد کاٹھ والا بلوچ رہنما نہیں،چاہیے کہ اصلی بلوچ لیڈرشپ کی حوصلہ افزائی کر کے آگے لایا جائے۔ اصلی لیڈرشپ کے اندر اعتماد پیدا کرنے کے لیے انھیں پاکستان اور خاص کر بلوچستان کے ہر مسئلے پر شریکِ سفر رکھا جائے۔جتنے بھی تحفظات ہوں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر مالک ایک شریف النفس اور اعلیٰ پائے کے لیڈر ہیں، ان جیسے افراد سے ہر وقت رابطے میں رہنا بہت مفید ہو گا۔

اس وقت پولیٹیکل پراسس ناپید ہے جسے ہر صورت موقع دینا ہو گا۔مارشل لاء حکومتیں عوام سے دور ہوتی ہیں اقتدار کو طول دینے کے لیے ایسی حکومتوں کو کٹھ پُتلی درکار ہوتے ہیں اور ہر جگہ،ہر وقت کچھ کٹھ پتلی بڑے عہدوں پر براجمان ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ انھیں وفاداری تبدیل کرنے میں ذرا برابر خفت اور شرمندگی نہیں ہوتی۔
Load Next Story