سی پیک ایک سے دوسرے مرحلے میں

دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کی نسبت سینتیس فیصد بڑا ہے

BERLIN:
چار دن قبل وزیرِ اعظم عمران خان نے بلوچستان کا دورہ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور ( سی پیک ) کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکاہے۔اور یہ بلوچستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔

پہلے مرحلے میں توانائی اور مواصلاتی و ترسیلی منصوبوں پر توجہ دی گئی۔دوسرے مرحلے میں صنعت کاری اور زراعت کو مرکزِ نگاہ بنایا جائے گا۔

اس وضاحت سے چند روز پہلے سی پیک اتھارٹی سے متعلق وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی خالد منصور نے ایک پریس بریفنگ میں کچھ ٹھوس اور کچھ ڈرائنگ بورڈ پر موجود منصوبوں کے بارے میں بتایا کہ دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے کی نسبت سینتیس فیصد بڑا ہے۔

چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق کے بقول پہلے مرحلے میں توانائی کے جو منصوبے مکمل ہوئے ان میں کوئلے سے تیرہ سو بیس میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے تین کارخانے ( ساہیوال ، پورٹ قاسم ، حب ) ، چھ سو ساٹھ میگاواٹ کا اینگرو تھر پاور پروجیکٹ اور ایک ہزار میگاواٹ کا بہاول پور سولر پاور پارک شامل ہے (اس پاور پارک میں چار سو میگاواٹ کا پیداواری منصوبہ مکمل ہو چکا ہے اور چھ سو میگاواٹ کا زیرِ تکمیل ہے)۔

اس کے علاوہ چار ہزار میگاواٹ کی ترسیلی گنجائش والی آٹھ سو اٹہتر کیلومیٹر طویل مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن بھی مکمل ہو چکی ہے۔جب کہ بیشتر شاہراتی منصوبے بھی مکمل ہو چکے ہیں یا کچھ تکمیل پزیر ہیں۔

جہاں تک سی پیک کے دوسرے مرحلے کا معاملہ ہے تو سی پیک اتھارٹی کے نگراں خالد منصور کا کہنا ہے کہ اب توجہ صنعت کاری اور ملازمتی مواقع میں توسیع پر دی جائے گی۔جس طرح مغربی صنعتی ممالک میں لیبر مہنگی ہونے کے نتیجے میں مصنوعات سازی کی لاگت بڑھنے سے امریکی اور یورپی صنعت کاروں نے چین ، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ بعید کا رخ کیا۔

اسی طرح اب وہ چینی صنعتیں جہاں لیبر اور مصنوعاتی تیاری کی لاگت بڑھ رہی ہے اور کئی صنعتیں ہائی ٹیک ذرایع پیداوار اپنانے کے دور میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایسے صنعت کار پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں لیبر سے چلنے والے کارخانے منتقل کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہیں۔یوں انسانی روزگار کے مقامی مواقع لامحالہ بڑھیں گے۔

جو منصوبے یقین دہانی کے مرحلے سے گذر کے دوسرے فیز میں حقیقت بننے والے ہیں ان میں گوادر میں اگلے تین برس میں قائم ہونے والا اسٹیل اینڈ میٹل ری سائیکلنگ پلانٹ سرِفہرست ہے۔ ساڑھے چار ارب ڈالر کے اس منصوبے سے روزگار کے چالیس ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔

مگر اس روزگاری مواقع سے مقامی لوگوں کو کتنا فائدہ ہوگا۔اس بارے میں خالد منصور کا کہنا ہے کہ چین نے گوادر میں ایک جدید تربیتی مرکز قائم کیا ہے جس میں صنعتی ضروریات و تقاضوں کے مطابق مقامی نوجوانوں کی تربیت ہو گی تاکہ وہ بہتر طور پر کھپ سکیں۔

خبر تو بہت اچھی ہے مگر ایسا ہی کوئی تربیتی مرکز اگر سی پیک کا پہلا مرحلہ شروع ہوتے ہی کام شروع کر دیتا تو کیا مضائقہ تھا ؟ اب اگر دوسرا مرحلہ شروع ہونے کے بعد یہ تربیتی مرکز فعال ہوگا تو اگلے پانچ برس میں یہاں سے کتنے تربیت یافتہ نوجوان نکل پائیں گے ؟

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی نے یہ بھی بتایا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں کراچی کی بندرگاہ پر مایع گیس ذخیرہ کرنے کا منصوبہ چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے مکمل ہوگا۔جب کہ لاہور کے مضافات میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں جدت کاری کا منصوبہ بھی مکمل ہوگا۔طبی آلات کی مقامی تیاری کے شعبے میں دو سو ملین ڈالر سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور آپٹیکل فائبر بچھانے کے منصوبوں میں دو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ایک چینی کمپنی آٹو سیکٹر میں پچاس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پر تیار ہے۔

مشیرِ خصوصی نے ایک اہم بات یہ بتائی کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کا سرمایہ کاری حجم تریپن بلین ڈالر کا تھا۔ اس میں سے صرف پچیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی اور باقی اٹھائیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری '' زیرِغور '' ہے۔


اس کا یہ مطلب ہوا کہ زیرِ غور سرمایہ کاری کا حجم ہو جانے والی سرمایہ کاری سے زیادہ ہے۔اب جب کہ دوسرے مرحلے کا اعلان ہو چکا ہے تو کیا پہلے مرحلے کے یہ زیرِ غور اٹھائیس ارب ڈالر کے منصوبے دوسرے مرحلے کا حصہ بن پائیں گے ؟ یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ جو کمپنیاں اتنی بڑی سرمایہ کاری فیز ون گذر جانے کے بعد بھی کرنے سے ہچکچا رہی ہیں تو اس کے پیچھے کیا دستاویزی یا زمینی رکاوٹیں ہیں اور یہ کیسے اور کب دور ہو پائیں گی۔

کہا جا رہا ہے کہ فیز ٹو فیز ون سے سینتیس فیصد بڑا ہوگا۔لیکن حقیقی سرمایہ کاری کتنی ہو گی یہ دو ہزار تیس تک ہی پتہ چل پائے گا۔فیز ون کا ایک منصوبہ کراچی سے پشاور تک ایم ایل ون ریلوے لائن کو جدید اور اپ گریڈ کرنے کا بھی تھا۔اور اس کی دو ہزار ستائیس تک تکمیل کا عندیہ دیا گیا تھا۔اب تک یہ منصوبہ زمین پر کیوں نہیں اتر پا رہا ؟ یہ وضاحت بھی درکار ہے۔

درمیان میں یہ تاثر بھی بڑھنے لگا کہ امن و امان ، علاقائی و سیاسی بے چینی اور دھشت گردی سی پیک کی مجوزہ رفتار اور سرمایہ کاروں کے اعتماد پر سوار ہو رہی ہے۔اس مسئلے پر سیاسی و غیر سیاسی طریقوں سے قابو پانے کی کوششیں تو جاری ہیں مگر ان میں بھی تذبذب ، نیم دلی یا غیر روائیتی طریقے آزمانے کی جرات کا کال دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو فیز ون میں تریپن بلین ڈالر کی مجوزہ سرمایہ کاری میں سے آدھی سے زائد اب تک سوچ بچار کے تار سے نہ لٹکی ہوتی۔

وزیرِ اعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ سی پیک میں کوئی تیسرا ملک شامل ہونا چاہِے تو خیرمقدم کیا جائے گا۔آثار ہیں کہ وزیرِ اعظم جب جلد روس کا دورہ کریں گے تو روسی کمپنیاں شاید اس منصوبے میں شراکت پر آمادہ ہو جائیں۔کیونکہ اس وقت روس اور چین میں اس سے زیادہ گاڑھی چھن رہی ہے جتنی ماوزے تنگ اور اسٹالن کے دور میں تھی۔

چین نے ایران کو بھی روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے میں شامل کیا ہے اور وہاں اگلے پچیس برس میں چار سو بلین ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ساتھ ہی گوادر سے کچھ پرے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی توسیع اور ساحلی صنعتی منصوبوں میں بھارت کی نسبت چین کو زیادہ گنجائش مل گئی ہے۔چین نے تیل اور گیس کے ایرانی ذخائر کی ترقی میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔کیا اس سب کا فائدہ پاک ایران تعلقات کی مزید بہتری اور باہمی اعتماد میں اضافے کی شکل میں سامنے آئے گا۔انتظار باقی ہے۔

افغانستان بھی روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ اگر ایسا مستقبلِ قریب میں ہوجائے تو جہاں افغانستان کی معدنی دولت میں چینی سرمایہ کاری بڑھے گی وہیں وسطی ایشیائی ریاستوں کی اضافی بجلی اور گیس پائپ لائن سے پاکستان کا بھی بھلا ہو سکتا ہے۔مگر افغانستان ایسا ملک ہے جس کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی بہت بڑا رسک ہے۔ابھی تو طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کا مرحلہ ہی درپیش ہے۔

جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اس کے بعد گوادر میں پیٹروکیمیکل شعبے میں بیس بلین ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کا بھی اعلان ہوا تھا۔ آج دو برس بعد بھی یہ اعلان محض دل ہی خوش کر رہا ہے۔

دوسری جانب مغربی ممالک اور امریکا سی پیک کے تعلق سے پاکستان کے لیے بہت '' فکر مند '' ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان قرضوں کے ایسے جال میں پھنس رہا ہے کہ گلو خلاصی مشکل ہو گی۔مگر مغربی ممالک کا یہ غوغا بھینس بھینس تجھے چور لے چلے کے شور سے زیادہ نہیں۔بھینس نے بھی پلٹ کر یہی کہا تھا کہ تو بھی دودھ کے بدلے چارہ ہی دیتا تھا۔ اگلا بھی بھوکا تو نہیں مارے گا۔

رہی بات بھارت اور سی پیک کی تو بقول جون ایلیا

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں

جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story