جیو پالیٹکس میں بھی پیسہ ہی بولتا ہے
جذباتی تقاریر کے شوقین سیاست دانوں اور حکمرانوں کو یہ سادہ سا نکتہ سمجھنے میں اتنی دیر کیوں لگی
MANCHESTER:
بظاہر ایک سادہ سا ٹویٹ تھا، موقع کی مناسبت سے اظہار یک جہتی مگر اس ٹویٹ نے بھارت میں شدید اشتعال پھیلا دیا۔ پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پر جنوبی کوریا کی ایک معروف کار کمپنی کی پاکستانی پارٹنر کمپنی نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا ایک ٹویٹ کیا۔
بھارت میں اس ٹویٹ پر اس قدر شدید عوامی اور سفارتی دباؤ پڑا کہ پاکستانی کمپنی کو ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑا۔موقع بھی تھا اور دستور بھی تھا ، اسی دن کی مناسبت سے پانچ چھ اور پاکستانی کمپنیوں نے بھی سوشل میڈیا پر ایسی ہی پوسٹس کیں۔ ان کمپنیوں کی رفیق کمپنیاں بھارت میں معروف اور ٹھیک ٹھاک مارکیٹ شئیر رکھتی ہیں۔ بھارت میں عوامی اور سفارتی سطح پر اس قدر شدید ردِعمل سامنے آیا کہ ان کمپنیوں کو یکے بعد دیگرے معذرت کرنا پڑی۔
معافی نہ مانگتے تو کیا کرتے، جگہ جگہ بینر اور مظاہرے نمایاں ہونے لگے؛ بائیکاٹ کرو۔ بقول مظاہرین؛ اس عمل سے بھارت کی کشمیر میں امن کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ عالمی ٹریڈ اور انوسٹمنٹ میں اخلاقیات کے درس اور حقوق کی پاسبانی کے دعوے اس وقت دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب دھندے پر چوٹ پڑتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع ترین مسئلہ ہے۔
مالی مفادات کے بچاؤ کے لیے انسانی حقوق اور عالمی اخلاقیات کا میک اپ ایک ہی جھٹکے میں اترتا دیکھنا ہو تو اس حالیہ واقعے کو ہی دیکھ لیں۔
تجارت اور سرمایہ کاری کے بارے میں ایک تاثر عموماً یہ دیا جاتا ہے کہ جیو پولیٹکل لڑائی جھگڑے اپنی جگہ مگر تجارت پھر بھی جاری رہنی چاہیے۔ اس لیے کہ تجارت جاری رکھنے سے بالآخر سرد مہری کی برف پگھلنے کی جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی صورت نکل آتی ہے۔
اس لیے سیاسی اور سفارتی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود فریقین کے درمیان تجارت جاری رہنی چاہیے کہ تجارت تنازعات کی سلگتی آگ ٹھنڈا کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ اس بارے میں یوں تو بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں مگر چند ایک بہت غیرمعمولی ہیں۔ ویت نام جنگ میں امریکا نے کیا کیا قیامتیں نہ ڈھائیں۔
لاکھوں لوگ ہلاک، اس سے کہیں زیادہ زخمی اور ملک تباہ حال ہوا ۔ مگر آج امریکا ویت نام کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ کچھ یہی حال اب کمبوڈیا اور لاؤس کا بھی ہے۔ جاپان نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کوریا، تائیوان، چین کے کئی علاقوں اور سنگاپور پر قبضہ کیے رکھا اور تباہ کن جنگیں لڑیں۔ ہیومن رائٹس کے بد ترین مظاہر سامنے آئے۔
مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد تعلقات نے الٹی سمت اختیار کرلی۔ آج جنوبی کوریا، چین، تائیوان اور سنگاپور جاپان کے مضبوط ترین کاروباری پارٹنر ہیں ۔ یہ مثالیں اپنی جگہ مگر گلوبلائزیشن کے بدلتے منظر نامے میں حالیہ چند سالوں میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری اب جیو پولیٹکل تنازعات کا تر نوالہ ہے۔
بلکہ یہ کم خرچ بالا نشین نسخہ طاقتور ممالک اب سستے اور موثر سفارتی ہتھیار کے طور پر حسب ضرورت استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ٹرمپ کی صدارت کے دوران چین اور امریکا کے تجارتی تعلقات میں ترکی بہ ترکی امپورٹ ٹیرف کا ہتھیار استعمال ہوا۔ امریکا اور چین نے ایک دوسرے کی بیشتر کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیں یا مکمل مقاطعہ کیا۔ چین کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہاتھیوں کی اس لڑائی میں کھیت ہوئی۔
اس کمپنی کی چیف فنانشل آفیسر جو کمپنی کے بانی کی بیٹی بھی ہے کو امریکا کی آشیر باد پر کینیڈا سے گرفتار کیا گیا۔ جواب میں چین نے کینیڈا کے دو شہری جاسوسی وغیرہ کے الزام میں دھر لیے۔ معاملہ دو تین سال چلا، بالآخر جب چینی کمپنی کی سی ایف او کو رہا کیا گیا تو کینیڈا کے شہری بھی آزاد کر دیے گئے۔
2020 میں بھارت اور چین کے درمیان ایک سرحدی جھڑپ کے دوران بھارت کے بیس سے زائد فوجی ہلاک ہوئے تو بھارت میں چین کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف شدید رد عمل آیا۔ ان کمپنیوں کو شدید مزاحمت اور کاروباری مقاطعے کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اور چینی موبائل مینوفیکچرنگ کمپنی جس نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بھارت میں کر رکھی تھی اور بھلا چنگا دھندہ کر رہی تھی، اس سرحدی جھڑپ کے بعد اس کے لیے بھی وہ وہ مشکلات کھڑی کی گئیں کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آگیا ۔
یوکرائن کے علاقے کریمیا کو روس نے اپنے اندر بزور ضم کر لیا تو کینیڈا کی ایک مائننگ کمپنی کو امریکا کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جو روس میں اس سے قبل سکھ چین سے کاروبار کر رہی تھی۔ امریکا کی ایران پر معاشی پابندیوں نے بھی بے شمار کمپنیوں کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے مطابق چلنے پر مجبور کیا۔ چین اور آسٹریلیا کے درمیان ٹریڈ وار اور بعد ازاں یورپی یونین اور چین کے درمیان بھی ٹریڈ وار اور سفارتی پوزیشن نے بہت سی کمپنیوں کو آٹے دال کا بھاؤ یاد کروایا۔
یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح حالیہ سالوں میں یہ رجحان زور پکڑ رہا ہے کہ جیو پولیٹکل تنازعات میں اب ممالک دھڑلے سے ٹریڈ اور سرمایہ کاری کو مخالف فریق کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال کرنا حق سمجھتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کو جب 2019 میں ہڑپ کیا تو ہمارے ہاں بڑے زور شور سے عالمی برادری سے سفارتی حمایت کی اپیل کی گئی۔
سفارتی دورے اور میل ملاقاتیں بھی ہوئیں مگر بھارت کے اثر و رسوخ کا یہ عالم رہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں تک سے حمایت کی کوئی بھی قرارداد کوشش کے باوجود پاس نہ ہوسکی۔ تھک ہار کر ہمارے حکمرانوں نے انکشاف کیا کہ افسوس دنیا اپنے معاشی مفادات کی خاطر مقبوضہ کشمیر کے مظالم پر چپ سادھے ہوئے ہے۔
ہمیں حیرت ہے کہ جذباتی تقاریر کے شوقین سیاست دانوں اور حکمرانوں کو یہ سادہ سا نکتہ سمجھنے میں اتنی دیر کیوں لگی کہ جیو پولیٹکل جھگڑوں میں بھی جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہوتی ہے اور یہ کہ وہاں بھی پیسہ ہی بولتا ہے!