ہمارا قومی المیہ
ہمارا پورا نظام اور نظم حکمرانی نفع خوری کے مجرمانہ سسٹم کی نذر ہو چکا ہے
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے بالآخر پیپلزپارٹی کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا ہے۔
سیاسی طور پر اپوزیشن کی جدوجہد کا جائزہ لیتے ہوئے جب سیاسی مبصرین، سول سوسائٹی اور ملک کے فہمیدہ حلقوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ سیاسی نظریہ، جمہوری و وفاقی اور انسانی حقوق سمیت مساوات، معاشی انصاف اور عدلیہ میں آزادی اور خواتین کی اقتصادی استقامت اور معاشی طاقت کے وہ سارے مقاصد مملکت خداداد نے حاصل کرلیے ہیں؟ اور کیا 47 برسوں کی معاشی آزادی، سویلین حکمرانی اور فلاحی ریاست کا نصب العین عوامی امنگوں کے مطابق ہے؟
طرز حکمرانی سے عوام طمانیت کا اظہار کرتے ہیں، عوام کو جمہوری ثمرات حاصل ہیں، انھیں معاشی مساوات ملی ہے، بچے اسکولوں میں تعلیم کے طے کردہ مقاصد پورے کرچکے ہیں، کچی آبادیوں میں عوام اطمینان وخوشی سے رہ رہے ہیں، جرائم کی شرح کنٹرول میں ہے، بیروزگاری اور غربت کو قابو کرنے کے لیے حکومت کو اپنی معاشی، مالیاتی اور اقتصادی پالیسیوں کے تناظر میں کبھی کسی نے سوچا کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں کوئی ایک ماہر مالیات قومی خزانہ بھرنے کے قابل کوئی فلسفہ نہ دے سکا؟ کیا غیر ملکی قرضوں سے مکمل نجات حاصل ہوگئی ہے؟
تو ان سوالوں کے زیادہ تر جوابات نہیں ملتے، بات قیاس آرائیوں کی نذر ہوتی رہتی ہے، کوئی اوپن ڈیبیٹ اگر ہوتی بھی ہے تو اس کا کوئی نتیجہ عوام کے سامنے نہیں آتا کیونکہ ایک نظام خیال نہیں ہے، قومی سطح پر ایک مشترکہ اقدار ہمارے سیاسی، سماجی تمدن میں جگہ نہیں پاسکے، ملک جیسے جیسے سفر کرتا رہا، عوام نے سمجھا کہ حکمراں منزل تک پہنچ جائینگے، ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی لیکن سسٹم کو بنتے بھی دیر لگتی ہے، ایک اینٹ کے بعد دوسری اینٹ رکھی جاتی ہے تب کوئی عمارت درست طریقے پر اپنی تعمیراتی منزلیں طے کرتی ہے، بزرگوں نے کہا ہے :
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
ہمارا قومی المیہ آج بھی وہی ہے جس کی بنیاد سے کجی یا ٹیڑھا پن صاف ظاہر تھا، بابائے قوم کی ابتدائی تقاریر کا مطالعہ کٰریں تو ان کی نگاہیں رشوت یا کرپشن اور اقربا پروری کو قومی امراض میں اولیت دیتی نظر آتی ہیں، ماہرین تعلیم نے نظام تعلیم کی خرابیوں پر کتنے مقالے اور سیمینارز میں رپورٹیں لکھیں، کتنی بار نصاب تبدیل کیے گئے، سارے مرتبین اہل علم و نظر تھے، ان کی نگاہیں معماران قوم پر مرکوز تھیں، لیکن جو نظام تعلیم آج قوم کے سامنے ہے، اس پر کچھ کہنا لاحاصل ہے۔
امتحانات کا نظام ناقص ہے، نقل مافیا نے تعلیم کو تجارت اور منافع خوری کا ذریعہ بنا لیا ہے، آج مدت گزری ایک نصاب پڑھانے کی وزیر اعظمٕ دل سوزی کے ساتھ باتیں کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس درد، مندی کا اظہار بھی ان کے لبوں پر آتا ہے کہ ہم تعلیمی نسل پرستی کرتے ہیں، تین ثقافتیں پڑھا رہے ہیں، کوئی یہ پوچھے ایسا کون کر رہا ہے، اردو زبان کو سرکاری بنانے کے لیے کون سے اقدامات کیے گئے؟ جو انگریزی اور اردو زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ان کے معیار کی تفریق سے ہونے والی فکری پستی اور علمی تشنگی کا المیہ ساری قوم پر کھل جائے گا۔
ان اہم تعلیمی اور علمی مسائل پر ہمارے مشاہیر، معلّمین اور استادوں نے کیا اسٹینڈ لیا؟ بیورو کریسی کو قومی انداز فکر سے مطابقت پیدا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی، ایک طبقہ اشرافیہ پیدا کیا گیا جو کالے گوروں میں برسوں سے کلرک پیدا ہوتے دیکھ رہا ہے، کتنے لاکھ لارڈ میکالے آج بھی انگریزی زبان کی غلامی میں قید ہیں، ایک پوری نسل اس کوشش میں سرگردان ہے کہ کیسے شیکسپیئر جیسی انگریزی لکھ کر باکمال کہلا سکے گی، قومی زبان سے محبت آسمان سے نہیں اگا کرتی اس کے لیے زمین کی مٹی کو ملائم کرنا پڑتا ہے۔
شعر و ادب میں روایت کا سہارا لیا جاتا ہے، پہلے کے صحافیوں سے کہا جاتا تھا کہ کلاسیکی ادب پڑھا کرو، اردو زبان آتی ہے آتے آتے لیکن یہ سارے پند و نصائح خاک بسر ہوئے، ایک زمانہ تھا کہ اردو کی کتابیں ریگل اسٹاپ اور دیگر پتھاروں پر سستے داموں مل جاتی تھیں، لوگ خرید کر پڑھ لیتے تھے، پھر مہنگائی کی ایسی کالی آندھی آئی کہ کتب فروشوں نے سارے طالب علموں کے گھر دیکھ لیے، کتابیں مہنگی سے مہنگی تر ہوتی گئیں۔
آج کہا جاتا ہے کہ کتابیں نہیں بکتیں، کتابیں پڑھنے والے اب نہیں رہے، سب نیٹ، فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی طرف چلے گئے، اس میں کچھ غلط بھی نہیں، فلم اور ڈرامے میں رقابت بہت پرانی ہے، جب پارسی تھیٹر اور پنچولی ڈرامہ ہوتا تھا، آغا حشر بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن اداکاری، موضوعات اور اسکرین پلے کا ایک معیار تھا، آجکل ہر چیز اپنے معیار سے ہٹ چکی ہے، زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہے کہ کوئی فکری اور نظریاتی فرق ہی نہیں ملتا۔ سماجی امتیازات اور محبتوں میں فرق اور دوری کا عجیب زمانہ آگیا ہے۔
سیاست کی اپنی رمزیت تھی، سیاست دان سادہ دل اور ایثار و بے لوثی کی تصویر تھے، اکثر دیکھا گیا کہ غریب کے بچے کو ماضی کا سیاستدان خود اسکول لے کر جاتا اور اسے ہیڈ ماسٹر سے ملا کر داخلے کا انتظام کرتا تھا، رحمدلی کا ایک دور پاکستان کی سماجی زیب وزینت کے لیے شاندار تھا، کراچی میں دال روٹی مشہور تھی۔
کہتے تھے کہ کوئی کراچی میں بھوکا نہیں سوتا، یہ آفاقی سچ تھا، لیکن آج دنیا بدل گئی ہے۔ لاکھوں نوجوان بیروز گاری کے جہنم میں سلگ رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے معیار پر ہمارے ماہرین انتہائی درد انگیز مضامین لکھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جامعات میں ایسے اساتذہ لائے گئے ہیں جو خود سرقہ نویسی کے ذریعے پاس ہوتے ہیں، غریب کے لیے تعلیم حاصل کرنا یا روزگار تلاش کرنا مشکل ترین کام ہوگیا ہے۔
دنیا کا مشکل ترین کام ایک گھر بنانا ہے، جب کہ اشرافیہ کے گھروں اور محلات کو دیکھ کر معاشرے میں معاشی اونچ نیچ کے باعث جرائم میں اضافہ کے رجحانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں، ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سارا سماج brutalized بربریت والا ہو چکا، حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ خاندانی نظام کب کا زمیں بوس ہوچکا، اب امی کو ''مام'' کہا جاتا ہے، جنسی جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں، کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے جرائم غیر انسانی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات نے انسان اور انسانیت کو کون سی بلندی عطا کی ہے، مشینوں کی حکمرانی نے تفریحات کے دائرے بڑھا لیے اور ایسی وسعتیں پیدا کی ہیں کہ آشائشوں اور تعیشات کے درمیان کوئی حکومت حد امتیاز قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی، انسانی خواہشات نے زمینی حقائق اور ایک غریب کو چادر کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اخلاقی تعلیم سے دور نکال دیا ہے۔
معاشرہ میں وہ آدمی حقیر و فقیر ہوگیا ہے جو شرافت اور سادگی کے ساتھ اپنے بال بچوں کو لکھانے پڑھانے کی کوشش کرتا ہے، معاشی ضرورتیں بے لگام ہوگئی ہیں۔دوسری طرف دیکھیں حکمران اقتصادی اور معاشی ضرورتوں کی طرف سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کو تیار نہیں، خلق خدا کو مہنگائی نے ذہنی دبائو اور پریشانی میں الجھا دیا ہے لیکن ارکان اسمبلی کو اپنی تنخواہیں بڑھانے اور دیگر مراعات کی فکر ہے۔
عجیب حکمرانی ہے کہ جو برسر اقتدار آئی ہی اس دعوے پر ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی مگر اسی کے اپنے سسٹم میں کرپشن کوکنٹرول کرنے کا کوئی سائنسی طریقہ متعارف نہیں ہوسکا، ستم ظریفی دیکھیے کہ وزیروں کو ان کی بے نام کارکردگی پر ایوارڈ مل رہے ہیں، اقبال نے ان کے لیے ہی کہا تھا
خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
ارباب اختیار کو زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے پہاڑ نہیں کھودنے پڑیں گے، یہ کام خوردبینی، سنجیدگی اور فہمیدگی سے کرنے ہیں، اہل سیاست کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے، جو عوام کے ووٹوں پر اقتدار میں آئے ہیں انھیں اپنی تجوریاں بھرنے کے بجائے عوام کی محرومیاں دور کرنی چاہئیں، سیاست دان، بیورو کریٹس اور ووٹروں کی یکساں ڈیوٹی ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والے ہر کام پر نظر رکھیں، جو سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں ان کی مرمت کرائیں، تجاوزات کا خاتمہ کیوں بند نہیں ہوتا، یہ تہذیبی کوتاہی ہے۔
اگر بسیں روٹ پر نہیں آتیں تو اس محکمے کے کسی شخص کو تنخواہ نہیں ملنی چاہیے، ہزاروں سرکاری ملازمین اور اہلکار بغیر کام اور فرض شناسی کے مفت کی تنخواہیں لیتے ہیں، آخر کیوں؟ رشوت کا سلسلہ رکتا کیوں نہیں اس لیے کہ ہر شخص کی نگاہ دوسرے کے دھن پر لگی ہے، وہ اپنا تن من اور دھن اپنے گھر کو بھرنے میں مصروف ہے چاہے کسی اور کو دو وقت کی روٹ بھی نہ ملے۔
حقیقت میں ہمارا پورا نظام اور نظم حکمرانی نفع خوری کے مجرمانہ سسٹم کی نذر ہو چکا ہے، ایک انگریز فلسفی کا کہنا ہے کہ اخلاقی اقدار کا ذکر کرنے والے اگر اخلاقی نصیحت دینا بند کر دیں تو آدھی دنیا ان کی صرف مثال دینے سے شفاف ہو جائے گی۔
ظاہر ہے حکمرانی کے لیے درد مند دل اولین شرط ہے، ہزاروں لوگ وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی کی تلاش میںٕ پھرتے ہیں لیکن ان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ انھیں کون بتائے کہ ایثار ووٹ کی پشت پر نہیں لکھا ہوتا، اسے عوام کو اپنی روحوں میں ٹٹولنا پڑتا ہے۔
سیاسی طور پر اپوزیشن کی جدوجہد کا جائزہ لیتے ہوئے جب سیاسی مبصرین، سول سوسائٹی اور ملک کے فہمیدہ حلقوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ سیاسی نظریہ، جمہوری و وفاقی اور انسانی حقوق سمیت مساوات، معاشی انصاف اور عدلیہ میں آزادی اور خواتین کی اقتصادی استقامت اور معاشی طاقت کے وہ سارے مقاصد مملکت خداداد نے حاصل کرلیے ہیں؟ اور کیا 47 برسوں کی معاشی آزادی، سویلین حکمرانی اور فلاحی ریاست کا نصب العین عوامی امنگوں کے مطابق ہے؟
طرز حکمرانی سے عوام طمانیت کا اظہار کرتے ہیں، عوام کو جمہوری ثمرات حاصل ہیں، انھیں معاشی مساوات ملی ہے، بچے اسکولوں میں تعلیم کے طے کردہ مقاصد پورے کرچکے ہیں، کچی آبادیوں میں عوام اطمینان وخوشی سے رہ رہے ہیں، جرائم کی شرح کنٹرول میں ہے، بیروزگاری اور غربت کو قابو کرنے کے لیے حکومت کو اپنی معاشی، مالیاتی اور اقتصادی پالیسیوں کے تناظر میں کبھی کسی نے سوچا کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں کوئی ایک ماہر مالیات قومی خزانہ بھرنے کے قابل کوئی فلسفہ نہ دے سکا؟ کیا غیر ملکی قرضوں سے مکمل نجات حاصل ہوگئی ہے؟
تو ان سوالوں کے زیادہ تر جوابات نہیں ملتے، بات قیاس آرائیوں کی نذر ہوتی رہتی ہے، کوئی اوپن ڈیبیٹ اگر ہوتی بھی ہے تو اس کا کوئی نتیجہ عوام کے سامنے نہیں آتا کیونکہ ایک نظام خیال نہیں ہے، قومی سطح پر ایک مشترکہ اقدار ہمارے سیاسی، سماجی تمدن میں جگہ نہیں پاسکے، ملک جیسے جیسے سفر کرتا رہا، عوام نے سمجھا کہ حکمراں منزل تک پہنچ جائینگے، ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی لیکن سسٹم کو بنتے بھی دیر لگتی ہے، ایک اینٹ کے بعد دوسری اینٹ رکھی جاتی ہے تب کوئی عمارت درست طریقے پر اپنی تعمیراتی منزلیں طے کرتی ہے، بزرگوں نے کہا ہے :
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
ہمارا قومی المیہ آج بھی وہی ہے جس کی بنیاد سے کجی یا ٹیڑھا پن صاف ظاہر تھا، بابائے قوم کی ابتدائی تقاریر کا مطالعہ کٰریں تو ان کی نگاہیں رشوت یا کرپشن اور اقربا پروری کو قومی امراض میں اولیت دیتی نظر آتی ہیں، ماہرین تعلیم نے نظام تعلیم کی خرابیوں پر کتنے مقالے اور سیمینارز میں رپورٹیں لکھیں، کتنی بار نصاب تبدیل کیے گئے، سارے مرتبین اہل علم و نظر تھے، ان کی نگاہیں معماران قوم پر مرکوز تھیں، لیکن جو نظام تعلیم آج قوم کے سامنے ہے، اس پر کچھ کہنا لاحاصل ہے۔
امتحانات کا نظام ناقص ہے، نقل مافیا نے تعلیم کو تجارت اور منافع خوری کا ذریعہ بنا لیا ہے، آج مدت گزری ایک نصاب پڑھانے کی وزیر اعظمٕ دل سوزی کے ساتھ باتیں کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس درد، مندی کا اظہار بھی ان کے لبوں پر آتا ہے کہ ہم تعلیمی نسل پرستی کرتے ہیں، تین ثقافتیں پڑھا رہے ہیں، کوئی یہ پوچھے ایسا کون کر رہا ہے، اردو زبان کو سرکاری بنانے کے لیے کون سے اقدامات کیے گئے؟ جو انگریزی اور اردو زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ان کے معیار کی تفریق سے ہونے والی فکری پستی اور علمی تشنگی کا المیہ ساری قوم پر کھل جائے گا۔
ان اہم تعلیمی اور علمی مسائل پر ہمارے مشاہیر، معلّمین اور استادوں نے کیا اسٹینڈ لیا؟ بیورو کریسی کو قومی انداز فکر سے مطابقت پیدا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی، ایک طبقہ اشرافیہ پیدا کیا گیا جو کالے گوروں میں برسوں سے کلرک پیدا ہوتے دیکھ رہا ہے، کتنے لاکھ لارڈ میکالے آج بھی انگریزی زبان کی غلامی میں قید ہیں، ایک پوری نسل اس کوشش میں سرگردان ہے کہ کیسے شیکسپیئر جیسی انگریزی لکھ کر باکمال کہلا سکے گی، قومی زبان سے محبت آسمان سے نہیں اگا کرتی اس کے لیے زمین کی مٹی کو ملائم کرنا پڑتا ہے۔
شعر و ادب میں روایت کا سہارا لیا جاتا ہے، پہلے کے صحافیوں سے کہا جاتا تھا کہ کلاسیکی ادب پڑھا کرو، اردو زبان آتی ہے آتے آتے لیکن یہ سارے پند و نصائح خاک بسر ہوئے، ایک زمانہ تھا کہ اردو کی کتابیں ریگل اسٹاپ اور دیگر پتھاروں پر سستے داموں مل جاتی تھیں، لوگ خرید کر پڑھ لیتے تھے، پھر مہنگائی کی ایسی کالی آندھی آئی کہ کتب فروشوں نے سارے طالب علموں کے گھر دیکھ لیے، کتابیں مہنگی سے مہنگی تر ہوتی گئیں۔
آج کہا جاتا ہے کہ کتابیں نہیں بکتیں، کتابیں پڑھنے والے اب نہیں رہے، سب نیٹ، فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی طرف چلے گئے، اس میں کچھ غلط بھی نہیں، فلم اور ڈرامے میں رقابت بہت پرانی ہے، جب پارسی تھیٹر اور پنچولی ڈرامہ ہوتا تھا، آغا حشر بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن اداکاری، موضوعات اور اسکرین پلے کا ایک معیار تھا، آجکل ہر چیز اپنے معیار سے ہٹ چکی ہے، زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہے کہ کوئی فکری اور نظریاتی فرق ہی نہیں ملتا۔ سماجی امتیازات اور محبتوں میں فرق اور دوری کا عجیب زمانہ آگیا ہے۔
سیاست کی اپنی رمزیت تھی، سیاست دان سادہ دل اور ایثار و بے لوثی کی تصویر تھے، اکثر دیکھا گیا کہ غریب کے بچے کو ماضی کا سیاستدان خود اسکول لے کر جاتا اور اسے ہیڈ ماسٹر سے ملا کر داخلے کا انتظام کرتا تھا، رحمدلی کا ایک دور پاکستان کی سماجی زیب وزینت کے لیے شاندار تھا، کراچی میں دال روٹی مشہور تھی۔
کہتے تھے کہ کوئی کراچی میں بھوکا نہیں سوتا، یہ آفاقی سچ تھا، لیکن آج دنیا بدل گئی ہے۔ لاکھوں نوجوان بیروز گاری کے جہنم میں سلگ رہے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے معیار پر ہمارے ماہرین انتہائی درد انگیز مضامین لکھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جامعات میں ایسے اساتذہ لائے گئے ہیں جو خود سرقہ نویسی کے ذریعے پاس ہوتے ہیں، غریب کے لیے تعلیم حاصل کرنا یا روزگار تلاش کرنا مشکل ترین کام ہوگیا ہے۔
دنیا کا مشکل ترین کام ایک گھر بنانا ہے، جب کہ اشرافیہ کے گھروں اور محلات کو دیکھ کر معاشرے میں معاشی اونچ نیچ کے باعث جرائم میں اضافہ کے رجحانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں، ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سارا سماج brutalized بربریت والا ہو چکا، حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ خاندانی نظام کب کا زمیں بوس ہوچکا، اب امی کو ''مام'' کہا جاتا ہے، جنسی جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں، کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے جرائم غیر انسانی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات نے انسان اور انسانیت کو کون سی بلندی عطا کی ہے، مشینوں کی حکمرانی نے تفریحات کے دائرے بڑھا لیے اور ایسی وسعتیں پیدا کی ہیں کہ آشائشوں اور تعیشات کے درمیان کوئی حکومت حد امتیاز قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی، انسانی خواہشات نے زمینی حقائق اور ایک غریب کو چادر کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اخلاقی تعلیم سے دور نکال دیا ہے۔
معاشرہ میں وہ آدمی حقیر و فقیر ہوگیا ہے جو شرافت اور سادگی کے ساتھ اپنے بال بچوں کو لکھانے پڑھانے کی کوشش کرتا ہے، معاشی ضرورتیں بے لگام ہوگئی ہیں۔دوسری طرف دیکھیں حکمران اقتصادی اور معاشی ضرورتوں کی طرف سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کو تیار نہیں، خلق خدا کو مہنگائی نے ذہنی دبائو اور پریشانی میں الجھا دیا ہے لیکن ارکان اسمبلی کو اپنی تنخواہیں بڑھانے اور دیگر مراعات کی فکر ہے۔
عجیب حکمرانی ہے کہ جو برسر اقتدار آئی ہی اس دعوے پر ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی مگر اسی کے اپنے سسٹم میں کرپشن کوکنٹرول کرنے کا کوئی سائنسی طریقہ متعارف نہیں ہوسکا، ستم ظریفی دیکھیے کہ وزیروں کو ان کی بے نام کارکردگی پر ایوارڈ مل رہے ہیں، اقبال نے ان کے لیے ہی کہا تھا
خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
ارباب اختیار کو زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے پہاڑ نہیں کھودنے پڑیں گے، یہ کام خوردبینی، سنجیدگی اور فہمیدگی سے کرنے ہیں، اہل سیاست کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے، جو عوام کے ووٹوں پر اقتدار میں آئے ہیں انھیں اپنی تجوریاں بھرنے کے بجائے عوام کی محرومیاں دور کرنی چاہئیں، سیاست دان، بیورو کریٹس اور ووٹروں کی یکساں ڈیوٹی ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والے ہر کام پر نظر رکھیں، جو سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں ان کی مرمت کرائیں، تجاوزات کا خاتمہ کیوں بند نہیں ہوتا، یہ تہذیبی کوتاہی ہے۔
اگر بسیں روٹ پر نہیں آتیں تو اس محکمے کے کسی شخص کو تنخواہ نہیں ملنی چاہیے، ہزاروں سرکاری ملازمین اور اہلکار بغیر کام اور فرض شناسی کے مفت کی تنخواہیں لیتے ہیں، آخر کیوں؟ رشوت کا سلسلہ رکتا کیوں نہیں اس لیے کہ ہر شخص کی نگاہ دوسرے کے دھن پر لگی ہے، وہ اپنا تن من اور دھن اپنے گھر کو بھرنے میں مصروف ہے چاہے کسی اور کو دو وقت کی روٹ بھی نہ ملے۔
حقیقت میں ہمارا پورا نظام اور نظم حکمرانی نفع خوری کے مجرمانہ سسٹم کی نذر ہو چکا ہے، ایک انگریز فلسفی کا کہنا ہے کہ اخلاقی اقدار کا ذکر کرنے والے اگر اخلاقی نصیحت دینا بند کر دیں تو آدھی دنیا ان کی صرف مثال دینے سے شفاف ہو جائے گی۔
ظاہر ہے حکمرانی کے لیے درد مند دل اولین شرط ہے، ہزاروں لوگ وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی کی تلاش میںٕ پھرتے ہیں لیکن ان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ انھیں کون بتائے کہ ایثار ووٹ کی پشت پر نہیں لکھا ہوتا، اسے عوام کو اپنی روحوں میں ٹٹولنا پڑتا ہے۔