غلط فہمی
5 اگست 2019 سے لے کر آج تک کشمیری حبس بے جا میں زندگیاں گزار رہے ہیں
گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیری بھارتی ظلم و بربریت کا شکار ہیں افسوس کہ امریکا جو خود کو دنیا بھر کا چوہدری کہتا ہے کشمیر کے مسئلے کو حل نہ کراپایا۔
وہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کی آزادی کے مسئلے کو تو چند سالوں میں ہی حل کرا دیتا ہے مگر اسے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ نظر نہیں آتا۔ اس سے امریکا کی جانبداری ہی نہیں تعصب بھی نظر آتا ہے۔ کشمیریوں کو ظاہر ہے اس لیے نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔
اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان نے بیان دیا ہے کہ کشمیر اور یغور کے معاملے میں دنیا دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہے تو یہ بات بالکل درست ہے۔
امریکی صدر بائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا کی محکوم قوموں کو محکومیت سے نجات کا عزم ظاہر کرتے رہے اور انھوں نے خاص طور پر کشمیریوں کو حق خود اختیاری دلانے کی بھی بات کی تھی مگر اب اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ کشمیریوں کو سرے سے ہی بھول گئے ہیں البتہ انھیں یغور مسلمان ضرور یاد رہے اس لیے کہ وہ یغور کا مسئلہ اٹھا کر چین کو بدنام کرنا چاہتے ہیں مگر یہ صرف مغرب کا پروپیگنڈا ہے۔
یہ مغرب کے اپنے ذہن کی اختراع کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ہاں ماضی میں ضرور کچھ یغور نوجوانوں کی چینی فوج سے جھڑپیں ہوئی تھیں مگر اب وہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ بھارت ضرور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے مگر امریکا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا ذکر تک نہیں کرتا کیونکہ اس طرح اس کے حلیف بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کشمیریوں کو خود اقوام متحدہ نے حق خود اختیاری دلانے کا وعدہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں کئی قراردادیں پاس کی جاچکی ہیں جن کی رو سے انھیں اپنی آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ کشمیری شروع سے ہی پاکستان کا شہری بننا چاہتے ہیں، وہ پاکستان کو اپنا وطن مانتے ہیں اور خود کو فخر سے پاکستانی کہتے ہیں۔
امریکا دراصل بھارت کی خوشنودی کے لیے کشمیریوں کو نظرانداز ضرور کر رہا ہے تاہم یہ بات اٹل ہے کہ امریکا خواہ کتنا ہی بھارت کو نواز دے بھارت کسی بھی صورت چین سے جنگ نہیں کرے گا کیونکہ وہ 1962 اور ابھی حال ہی میں چین کے ہاتھوں اپنی فوج کی درگت کو نہیں بھولاہے۔
کانگریسی اور دوسری حکومتوں کے دور میں بھی کشمیریوں پر ظلم و ستم روا رکھا گیا تھا مگر مودی سرکار نے تو کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ مودی نے دوسری حکومتوں سے آگے بڑھ کر کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس نے اپنے ہی ملک کے آئین کی دھجیاں بکھیر کر اس کی شق 370 اور 35A کو اس سے نکال دیا ہے۔
5 اگست 2019 سے لے کر آج تک کشمیری حبس بے جا میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مودی سرکار کشمیری مسلمانوں کی تو دشمن بنی ہی ہوئی ہے خود اپنے مسلمان شہریوں کو یا تو بھارت سے نکالنا چاہتی ہے یا پھر ان کا قتل عام کرکے ان سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔
آج بھارت میں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت کچھ محفوظ نہیں ہے۔ مسلمانوں کو سرے عام قتل کرنے کے واقعات کے بعد اب مسلم خواتین کو بے پردہ کیا جا رہا ہے ،ان کے حجاب پہننے پر بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ بھارت ریاست کرناٹک میں ایک مسلمان طالبہ کو بی جے پی کے غنڈوں نے جے شری رام کا نعرہ بلند کرکے گھیرنے کی کوشش کی تھی۔
اس طالبہ نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''اللہ اکبر ''کے نعرے کے ذریعے اپنا دفاع کیا ہے۔ اس مسلم طالبہ کی جرأت پر اسے تمام مسلمان خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں اپنے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا ہے، اس سے بھارتی میڈیا نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اب پاکستان بھارت کے خلاف سو سال تک کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔
اس سے بھارت میں پاکستان کے ایک کمزور ملک ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے، بھارتی پروپیگنڈے کا مقصد کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کرنا بھی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس پروپیگنڈے کا ازالہ کرے اور اصل حقیقت کو واضح کرے۔ شاید یہ اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو سیاچن سے فوجیں ہٹانے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ بھارت اب سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کشمیر سے دست بردار ہو گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین میں چینی وزیر اعظم سے ان کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں واضح طور پر کشمیریوں کے حق خود اختیاری کا کہا گیا ہے۔
بھارت کے لیے اس بیان کی بہت اہمیت ہے۔ چین کا کشمیریوں کی حمایت کا مطلب امریکا کو اس مسئلے سے دور کرنا ہے چونکہ جو بات چین چاہتا ہے ظاہر ہے امریکا اس کی نفی کرنے پر مجبور ہوگا، بھارتی حکومت بہت خوش ہے کہ جب تک امریکا اس کے ساتھ ہے کشمیر کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا مگر یہ اس کی بھول ہے۔ واضح ہو کہ چین لداخ کے کافی حصے کو اپنی دسترس میں لے چکا ہے۔
چین کو بھارت کے 15 اگست 2019 کے کشمیر کی بابت ناجائز اقدام پر سخت تحفظات ہیں۔ بھارت نے اپنے تازہ نقشے میں اکسائی چین کے علاقے کو بھی بھارت کا حصہ ظاہر کیا ہے۔ چین بھارت سے اس کا انتقام لے سکتا ہے وہ پہلے ہی گلوان وادی کے علاقے تک پیش قدمی کرچکا ہے تو اب اس کی فوجوں کے لیے آگے بڑھ کر سری نگر کو قبضے میں کرنا کیا مشکل ہے۔
وہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کی آزادی کے مسئلے کو تو چند سالوں میں ہی حل کرا دیتا ہے مگر اسے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ نظر نہیں آتا۔ اس سے امریکا کی جانبداری ہی نہیں تعصب بھی نظر آتا ہے۔ کشمیریوں کو ظاہر ہے اس لیے نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔
اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان نے بیان دیا ہے کہ کشمیر اور یغور کے معاملے میں دنیا دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہے تو یہ بات بالکل درست ہے۔
امریکی صدر بائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا کی محکوم قوموں کو محکومیت سے نجات کا عزم ظاہر کرتے رہے اور انھوں نے خاص طور پر کشمیریوں کو حق خود اختیاری دلانے کی بھی بات کی تھی مگر اب اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ کشمیریوں کو سرے سے ہی بھول گئے ہیں البتہ انھیں یغور مسلمان ضرور یاد رہے اس لیے کہ وہ یغور کا مسئلہ اٹھا کر چین کو بدنام کرنا چاہتے ہیں مگر یہ صرف مغرب کا پروپیگنڈا ہے۔
یہ مغرب کے اپنے ذہن کی اختراع کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ہاں ماضی میں ضرور کچھ یغور نوجوانوں کی چینی فوج سے جھڑپیں ہوئی تھیں مگر اب وہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ بھارت ضرور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے مگر امریکا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا ذکر تک نہیں کرتا کیونکہ اس طرح اس کے حلیف بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کشمیریوں کو خود اقوام متحدہ نے حق خود اختیاری دلانے کا وعدہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں کئی قراردادیں پاس کی جاچکی ہیں جن کی رو سے انھیں اپنی آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ کشمیری شروع سے ہی پاکستان کا شہری بننا چاہتے ہیں، وہ پاکستان کو اپنا وطن مانتے ہیں اور خود کو فخر سے پاکستانی کہتے ہیں۔
امریکا دراصل بھارت کی خوشنودی کے لیے کشمیریوں کو نظرانداز ضرور کر رہا ہے تاہم یہ بات اٹل ہے کہ امریکا خواہ کتنا ہی بھارت کو نواز دے بھارت کسی بھی صورت چین سے جنگ نہیں کرے گا کیونکہ وہ 1962 اور ابھی حال ہی میں چین کے ہاتھوں اپنی فوج کی درگت کو نہیں بھولاہے۔
کانگریسی اور دوسری حکومتوں کے دور میں بھی کشمیریوں پر ظلم و ستم روا رکھا گیا تھا مگر مودی سرکار نے تو کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ مودی نے دوسری حکومتوں سے آگے بڑھ کر کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس نے اپنے ہی ملک کے آئین کی دھجیاں بکھیر کر اس کی شق 370 اور 35A کو اس سے نکال دیا ہے۔
5 اگست 2019 سے لے کر آج تک کشمیری حبس بے جا میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مودی سرکار کشمیری مسلمانوں کی تو دشمن بنی ہی ہوئی ہے خود اپنے مسلمان شہریوں کو یا تو بھارت سے نکالنا چاہتی ہے یا پھر ان کا قتل عام کرکے ان سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔
آج بھارت میں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت کچھ محفوظ نہیں ہے۔ مسلمانوں کو سرے عام قتل کرنے کے واقعات کے بعد اب مسلم خواتین کو بے پردہ کیا جا رہا ہے ،ان کے حجاب پہننے پر بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ بھارت ریاست کرناٹک میں ایک مسلمان طالبہ کو بی جے پی کے غنڈوں نے جے شری رام کا نعرہ بلند کرکے گھیرنے کی کوشش کی تھی۔
اس طالبہ نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''اللہ اکبر ''کے نعرے کے ذریعے اپنا دفاع کیا ہے۔ اس مسلم طالبہ کی جرأت پر اسے تمام مسلمان خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں اپنے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا ہے، اس سے بھارتی میڈیا نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اب پاکستان بھارت کے خلاف سو سال تک کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔
اس سے بھارت میں پاکستان کے ایک کمزور ملک ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے، بھارتی پروپیگنڈے کا مقصد کشمیریوں کو پاکستان سے بدظن کرنا بھی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس پروپیگنڈے کا ازالہ کرے اور اصل حقیقت کو واضح کرے۔ شاید یہ اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو سیاچن سے فوجیں ہٹانے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ بھارت اب سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کشمیر سے دست بردار ہو گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین میں چینی وزیر اعظم سے ان کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں واضح طور پر کشمیریوں کے حق خود اختیاری کا کہا گیا ہے۔
بھارت کے لیے اس بیان کی بہت اہمیت ہے۔ چین کا کشمیریوں کی حمایت کا مطلب امریکا کو اس مسئلے سے دور کرنا ہے چونکہ جو بات چین چاہتا ہے ظاہر ہے امریکا اس کی نفی کرنے پر مجبور ہوگا، بھارتی حکومت بہت خوش ہے کہ جب تک امریکا اس کے ساتھ ہے کشمیر کو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا مگر یہ اس کی بھول ہے۔ واضح ہو کہ چین لداخ کے کافی حصے کو اپنی دسترس میں لے چکا ہے۔
چین کو بھارت کے 15 اگست 2019 کے کشمیر کی بابت ناجائز اقدام پر سخت تحفظات ہیں۔ بھارت نے اپنے تازہ نقشے میں اکسائی چین کے علاقے کو بھی بھارت کا حصہ ظاہر کیا ہے۔ چین بھارت سے اس کا انتقام لے سکتا ہے وہ پہلے ہی گلوان وادی کے علاقے تک پیش قدمی کرچکا ہے تو اب اس کی فوجوں کے لیے آگے بڑھ کر سری نگر کو قبضے میں کرنا کیا مشکل ہے۔