ماحولیاتی آلودگی کا ذمے دار کون
شجرکاری کا عمل ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسے لازمی فروغ دیا جائے
ISLAMABAD:
قدرت نے ہماری کائنات کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا ہے ،اس منصوبے کے تحت مختلف مادہ یعنی ہوا، مٹی، پانی اور حرارت وغیرہ کی مقدار مقرر ہے۔
ہر چیز ایک قدرتی چکر Natural Cycle پر قائم ہے۔ مثلاً آبی چکر، نائٹروجن چکر، خوراک کا چکر۔ یہ تمام چکر کرہ ارض پر رہنے والے حیات کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اس نظام میں ایک توازن برقرار ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی نے انسان اور فطرت کے درمیان جو توازن تھا وہ بگاڑ دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کا ذمے دار کون ہے۔ اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو سمجھنا ہوگا۔ وہ تمام مادے جو زمین، پانی، فضا میں داخل ہو کر ان کے کیمیائی، طبیعاتی، جوہری، حیاتیاتی نظاموں میں تبدیلی پیدا کردیں اور ایسی تبدیلی جو انسان، حیوانات اور نباتات وغیرہ کے لیے مضر صحت ثابت ہو اسے ماحولیاتی آلودگی کا نام دیا جاتا ہے۔
یعنی زمین، پانی اور فضا کو ضایع شدہ مادوں سے گند کرنے کا عمل آلودگی کہلاتا ہے۔ اس آلودگی کے پھیلاؤ کے کئی ذرایع ہیں۔
اول زرعی آلودگی یہ آلودگی کھیتی باڑی کے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ کیڑے مار ادویات، جراثیم کش دوائیں، مصنوعی کھادیں، مرے ہوئے جانور، جانوروں کے فضلے، زرعی فضلہ اور دیگر فالتو مادے زرعی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ دوم صنعتی آلودگی، صنعتی عمل کے نتیجے میں کارخانوں اور فیکٹریوں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔
غیر استعمال شدہ صنعتی مادے، فالتو کیمیائی مرکبات، راکھ، سیال مادے جیسے مواد اس آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔ سوم اگر آلودگی کے عوامل زیادہ مقدار اور کافی عرصے کے لیے فضا میں موجود رہیں یہاں تک کہ وہ انسانی صحت اور جانوروں کے لیے مضر صحت ثابت ہوں تو ماحول کی ایسی کیفیت کو فضائی آلودگی کا نام دیا جاتا ہے۔ کارخانوں، فیکٹریوں سے دھوئیں کا اخراج اس آلودگی کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان کے گھریلو صارفین عام طور پر کوئلہ، لکڑی اور قدرتی گیس بہ طور ایندھن استعمال کرتے ہیں یہ تمام ذرایع اس فضائی آلودگی کے ذرایع ہیں، اس کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کا دھوئیں میں شامل اجزا، ہوا میں 90 فیصد آلودگی کے ذمے دار ہیں۔ جہازوں سے خارج ہونے والا تیل اور پٹرول سمندر میں بہہ جاتا ہے جو سمندر کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
صنعتی اداروں سے نکلنے والا لاکھوں ٹن کچرا ندی، نالوں کے راستے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جس سے سمندر کی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا فضلہ جو متعدی اور وبائی امراض پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے وبائی فضلہ کہلاتا ہے۔ اس فضلے میں مریضوں کے زیر استعمال اشیا مثلاً ٹیکے کی بوتل، گلوکوز کی بوتلیں، ٹیکے کی سرنجوں، دوا کے پیکٹ، گندھی روٹی وغیرہ شامل ہیں جو آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔
گھریلو فضلہ رہائشی یونٹوں مثلاً مکانوں، فلیٹوں اور بنگلوں وغیرہ میں پیدا ہوتا ہے اس فضلے میں استعمال شدہ پالی تھین کی تھیلیاں، مشروبات کی بوتلیں، ڈبے، پلاسٹک کا سامان، شیشے کی بنی ہوئی چیزیں یعنی باورچی خانے کی فالتو اشیا شامل ہیں جو آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس آلودگی کے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں اور اس کا ذمے دار کون ہے۔ اس ضمن میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اس آلودگی کی ذمے دار سائنسی اور صنعتی ترقی ہے۔ جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے قرار دیا جاتا تھا صنعتی ترقی کے نتیجے میں انھیں تیزی سے کاٹا گیا جس کے نتیجے میں قطبین کی برف پانی میں تبدیل ہوئی جس سے ساری دنیا کے سمندروں کی سطح بلند ہوئی یہ بلند سطح نشیبی علاقوں کی زرخیز زمینوں کو نگل رہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی کھاد اور دیگر کیمیکل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف فضا اور زمین آلودہ ہوئی بلکہ اس نے طرح طرح کی بیماریوں کو جنم دیا ہے۔ فیکٹریوں، صنعتی اداروں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے فضا میں سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک اس آلودگی کا ذمے دار کوئی بھی ہو، اس سے راہ فرار ممکن نہیں۔ ہمیں اس ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ آلودگی کسی ایک فرد، ایک قوم یا ایک نسل کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت نوح انسانی اور کرہ ارض کا مسئلہ ہے۔ آلودگی کے اثرات پوری دنیا کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے۔ ہمارے یہاں کچرے کو جمع کرنے اور اس کو ٹھکانے لگانے کا کوئی سائنسی طریقہ کار موجود نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے شہر، قصبے، گاؤں، گلیاں اور محلے گندگی کے ڈھیروں سے بھرے ہوئے ہیں۔
جگہ جگہ غلاظت، بے ہنگم آوازوں کے شور اور آلودہ خوراک جیسے غیر صحت مند عوامل نے عوام کو جسمانی امراض اور ذہنی کوفت سے دوچار کردیا ہے۔ روزگار کی تلاش اور بہتر زندگی کے لیے کثیر آبادی شہروں کی طرف رخ کر رہی ہے، بالخصوص کراچی میں آبادی کے دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں کچی آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کچی آبادیاں بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ ایسے ذرایع استعمال کرتی ہیں جس سے آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آلودگی کا تدارک کیسے کریں۔ سب سے پہلے فضلے کے ڈھیروں کو کھلی فضا میں جلانے کے عمل پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ دوم شہروں کی طرف دیہاتی آبادی کی منتقلی کی حوصلہ شکنی کی جائے، نئے کارخانوں کے قیام کا رخ دیہاتی علاقوں کی جانب موڑ دیا جائے، جانوروں کے اندھا دھند شکار کے نتیجے میں جانوروں کی نسلوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور بعض نسلیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں ،اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی، قومی اور مقامی قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے اور جانوروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
Recycling فالتو اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا عمل ایسا ہے جس کے ذریعے نہ صرف کائنات کی آلودگی کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ ضروریات میں کفایت شعاری کا عمل بھی فروغ پاتا ہے۔ مثلاً ایک ٹن وزنی فالتو کاغذ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے سے ایک ایکڑ رقبہ پر اگے ہوئے درختوں کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں پلاسٹک کی اشیا بالخصوص پلاسٹک کی تھیلیاں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہیں ،یہ کیمیائی مرکبات سے تیار ہوتی ہیں جو استعمال میں مضر صحت ہیں ان کو ٹھکانے لگانے کا کام بھی پیچیدہ اور مشکل طلب ہے، اس لیے اس کے استعمال کو کم ازکم کیا جائے اور اس کی جگہ کاغذ کی تھیلیوں کے استعمال کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔
شجرکاری کا عمل ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسے لازمی فروغ دیا جائے۔ یاد رکھیں انسان اور اس کا ماحول ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ انسانی زندگی کا دار و مدار اور بقا سازگار ماحول کی ہی مرہون منت ہے۔
قدرت نے ہماری کائنات کو ایک منصوبے کے تحت تخلیق کیا ہے ،اس منصوبے کے تحت مختلف مادہ یعنی ہوا، مٹی، پانی اور حرارت وغیرہ کی مقدار مقرر ہے۔
ہر چیز ایک قدرتی چکر Natural Cycle پر قائم ہے۔ مثلاً آبی چکر، نائٹروجن چکر، خوراک کا چکر۔ یہ تمام چکر کرہ ارض پر رہنے والے حیات کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اس نظام میں ایک توازن برقرار ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی نے انسان اور فطرت کے درمیان جو توازن تھا وہ بگاڑ دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کا ذمے دار کون ہے۔ اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو سمجھنا ہوگا۔ وہ تمام مادے جو زمین، پانی، فضا میں داخل ہو کر ان کے کیمیائی، طبیعاتی، جوہری، حیاتیاتی نظاموں میں تبدیلی پیدا کردیں اور ایسی تبدیلی جو انسان، حیوانات اور نباتات وغیرہ کے لیے مضر صحت ثابت ہو اسے ماحولیاتی آلودگی کا نام دیا جاتا ہے۔
یعنی زمین، پانی اور فضا کو ضایع شدہ مادوں سے گند کرنے کا عمل آلودگی کہلاتا ہے۔ اس آلودگی کے پھیلاؤ کے کئی ذرایع ہیں۔
اول زرعی آلودگی یہ آلودگی کھیتی باڑی کے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ کیڑے مار ادویات، جراثیم کش دوائیں، مصنوعی کھادیں، مرے ہوئے جانور، جانوروں کے فضلے، زرعی فضلہ اور دیگر فالتو مادے زرعی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ دوم صنعتی آلودگی، صنعتی عمل کے نتیجے میں کارخانوں اور فیکٹریوں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔
غیر استعمال شدہ صنعتی مادے، فالتو کیمیائی مرکبات، راکھ، سیال مادے جیسے مواد اس آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔ سوم اگر آلودگی کے عوامل زیادہ مقدار اور کافی عرصے کے لیے فضا میں موجود رہیں یہاں تک کہ وہ انسانی صحت اور جانوروں کے لیے مضر صحت ثابت ہوں تو ماحول کی ایسی کیفیت کو فضائی آلودگی کا نام دیا جاتا ہے۔ کارخانوں، فیکٹریوں سے دھوئیں کا اخراج اس آلودگی کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان کے گھریلو صارفین عام طور پر کوئلہ، لکڑی اور قدرتی گیس بہ طور ایندھن استعمال کرتے ہیں یہ تمام ذرایع اس فضائی آلودگی کے ذرایع ہیں، اس کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کا دھوئیں میں شامل اجزا، ہوا میں 90 فیصد آلودگی کے ذمے دار ہیں۔ جہازوں سے خارج ہونے والا تیل اور پٹرول سمندر میں بہہ جاتا ہے جو سمندر کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
صنعتی اداروں سے نکلنے والا لاکھوں ٹن کچرا ندی، نالوں کے راستے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جس سے سمندر کی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسا فضلہ جو متعدی اور وبائی امراض پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے وبائی فضلہ کہلاتا ہے۔ اس فضلے میں مریضوں کے زیر استعمال اشیا مثلاً ٹیکے کی بوتل، گلوکوز کی بوتلیں، ٹیکے کی سرنجوں، دوا کے پیکٹ، گندھی روٹی وغیرہ شامل ہیں جو آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔
گھریلو فضلہ رہائشی یونٹوں مثلاً مکانوں، فلیٹوں اور بنگلوں وغیرہ میں پیدا ہوتا ہے اس فضلے میں استعمال شدہ پالی تھین کی تھیلیاں، مشروبات کی بوتلیں، ڈبے، پلاسٹک کا سامان، شیشے کی بنی ہوئی چیزیں یعنی باورچی خانے کی فالتو اشیا شامل ہیں جو آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس آلودگی کے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں اور اس کا ذمے دار کون ہے۔ اس ضمن میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اس آلودگی کی ذمے دار سائنسی اور صنعتی ترقی ہے۔ جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے قرار دیا جاتا تھا صنعتی ترقی کے نتیجے میں انھیں تیزی سے کاٹا گیا جس کے نتیجے میں قطبین کی برف پانی میں تبدیل ہوئی جس سے ساری دنیا کے سمندروں کی سطح بلند ہوئی یہ بلند سطح نشیبی علاقوں کی زرخیز زمینوں کو نگل رہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی کھاد اور دیگر کیمیکل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف فضا اور زمین آلودہ ہوئی بلکہ اس نے طرح طرح کی بیماریوں کو جنم دیا ہے۔ فیکٹریوں، صنعتی اداروں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے فضا میں سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک اس آلودگی کا ذمے دار کوئی بھی ہو، اس سے راہ فرار ممکن نہیں۔ ہمیں اس ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ آلودگی کسی ایک فرد، ایک قوم یا ایک نسل کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت نوح انسانی اور کرہ ارض کا مسئلہ ہے۔ آلودگی کے اثرات پوری دنیا کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے۔ ہمارے یہاں کچرے کو جمع کرنے اور اس کو ٹھکانے لگانے کا کوئی سائنسی طریقہ کار موجود نہیں ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے شہر، قصبے، گاؤں، گلیاں اور محلے گندگی کے ڈھیروں سے بھرے ہوئے ہیں۔
جگہ جگہ غلاظت، بے ہنگم آوازوں کے شور اور آلودہ خوراک جیسے غیر صحت مند عوامل نے عوام کو جسمانی امراض اور ذہنی کوفت سے دوچار کردیا ہے۔ روزگار کی تلاش اور بہتر زندگی کے لیے کثیر آبادی شہروں کی طرف رخ کر رہی ہے، بالخصوص کراچی میں آبادی کے دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں کچی آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کچی آبادیاں بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ ایسے ذرایع استعمال کرتی ہیں جس سے آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آلودگی کا تدارک کیسے کریں۔ سب سے پہلے فضلے کے ڈھیروں کو کھلی فضا میں جلانے کے عمل پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ دوم شہروں کی طرف دیہاتی آبادی کی منتقلی کی حوصلہ شکنی کی جائے، نئے کارخانوں کے قیام کا رخ دیہاتی علاقوں کی جانب موڑ دیا جائے، جانوروں کے اندھا دھند شکار کے نتیجے میں جانوروں کی نسلوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور بعض نسلیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں ،اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی، قومی اور مقامی قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے اور جانوروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
Recycling فالتو اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا عمل ایسا ہے جس کے ذریعے نہ صرف کائنات کی آلودگی کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ ضروریات میں کفایت شعاری کا عمل بھی فروغ پاتا ہے۔ مثلاً ایک ٹن وزنی فالتو کاغذ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے سے ایک ایکڑ رقبہ پر اگے ہوئے درختوں کو ضایع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں پلاسٹک کی اشیا بالخصوص پلاسٹک کی تھیلیاں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہیں ،یہ کیمیائی مرکبات سے تیار ہوتی ہیں جو استعمال میں مضر صحت ہیں ان کو ٹھکانے لگانے کا کام بھی پیچیدہ اور مشکل طلب ہے، اس لیے اس کے استعمال کو کم ازکم کیا جائے اور اس کی جگہ کاغذ کی تھیلیوں کے استعمال کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔
شجرکاری کا عمل ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسے لازمی فروغ دیا جائے۔ یاد رکھیں انسان اور اس کا ماحول ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ انسانی زندگی کا دار و مدار اور بقا سازگار ماحول کی ہی مرہون منت ہے۔