وقت…
کب تک ملک اناڑیوں کے ہاتھ یر غمال بنا رہے گا، آخر ہمیں کس وقت کا انتظار ہے
ہماری روزمرہ زندگی میں وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے، وقت پر کام ہونا بھی بہت بڑی نعمت ہے وقت بھی بڑی عجیب چیز ہے زندگی میں وقت کیسے بدل جاتا ہے،پتا ہی نہیں چلتا وقت کی رفتار کو قابو کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا اچھے اور برے وقت سے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔
قیام پاکستان کا وقت بھی کیا وقت تھا ،انتہائی ناخوشگوار اور نازک حالات کے باوجود ملکی معاملات مکمل گرفت میں تھے ،اس وقت ہمارے سیاسی اکابرین ملک کی خوشحالی و ترقی کے جذبے کے تحت زندگی بسر کرتے تھے ۔وطن عزیز کی خدمت ان کا حقیقی مقصد تھا ملکی مفادات کی خاطر اس وقت کے لیڈران قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
اس وقت عوام الناس کو اپنی لیڈرشپ پر پورا بھروسہ تھا قوم اور لیڈر اس وقت ایک پیج پر تھے اور وہ پیج تھا وطن عزیز کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پھر پاکستان کا وقت بدلا نئی سیاسی پارٹیوں کا قیام عمل میں آیا پھر سیاست دانوں نے عوام الناس کو نت نئے خواب دکھائے عوامی فلاح وبہبود کے وعدوں اور نعروں سے عوام کا خوب دل جیتا تقریبا ہر سیاسی جماعت کو عوام نے ایوان اقتدار میں آنے کا بھرپور موقع دیا مگر بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کے آج تک ہمیں حقیقی لیڈران نہیں ملے۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم نے کبھی اپنی زندگی میں ایسا وقت نہیں سوچا ہوگا ، جو اب چل رہا ہے آج مجموعی قومی غیرت، عزت اور پہچان کا یہ حال ہے کہ اقوام عالم میں ہماری کوئی قدر و عزت نہیں ہے موجودہ دور کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ آج ایک عام آدمی کا وقت بہت برا چل رہا ہے ۔
عوام الناس کو بنیادی معاشی حقوق حاصل نہیں ہیں ،اشیائے ضروریہ ادویات کے ریٹ آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور ہمارے حکمران سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ملکی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے، ملک قرضوں کے دلدل میں ڈوب چکا ہے، بھیک اور قرض کا فارمولہ معیشت کا بنیادی عنصر بنا ہوا ہے موجودہ حکمرانوں کو عوام نے بھرپور موقع دیا ،مگر اس کے برعکس ان کی کارکردگی صفر ثابت ہوئی۔
عوامی خوشحالی کے دعویدار موجودہ لیڈران کو وقت نے ثابت کیا کہ یہ انتہائی درجے کے نالائق ہیں ۔ہمارے حکمران بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں یہ کس آپشن کی بات کرتے ہیں؟ آج تک انھوں نے عوام الناس کو کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا۔ کرپٹ مافیا کے خلاف جہاد کرنے والوں کے اردگرد کرپٹ مافیا بیٹھا ہوا ہے، اپوزیشن کی بھی کیا بات ہے ،انھیں بھی اقتدار میں آنے کا بھرپور موقع ملا تھا مگر ان کا بھی یہی حال تھا۔
ہمارے لیڈران صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور ہمارے عوام اچھے وقت کا انتظار کرتے کرتے مزید بدحالی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ اب اس تمام صورتحال پر کیا کیا جائے اس آپشن کے چکر نے عوام کو مزید بدحال کر دیا ہے ، حکمرانوں کو ذرا بھی شرم و حیا نہیں آتی کتنے فخر سے یہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ہر بار عوام ان کے جھوٹ کو سچ سمجھ جاتے ہیں اور پھر سے اچھے وقت کا انتظار کر نے لگتے ہیں اب ہمیں اس فریبی جال کے چکر سے نکلنا پڑے گا جب تک عوام اپنے اندر سے لیڈر منتخب کرکے اقتدار میں نہیں لاتے تب تک ہمارے مسائل کا حل ناممکن ہے۔
ہمیں اپنے معاشی حقوق کی جنگ لڑنی پڑے گی ،اپنا حق بھیک کی شکل میں نہیں ملتا اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اگر ہم نے اپنا وقت نہیں بدلا تو مستقبل میں بھی ہمارا یہی حال رہے گا ، ہمیں اپنے آپ سے یہ عہد اور وعدہ کرنا پڑے گا کہ آزمائی ہوئی سیاسی جماعتوں کو دوبارہ موقع اب نہیں دینا آخر کب تک لاعلمی و بے شعوری کے عالم میں ہم زندگی بسر کریں گے۔
مستقبل میں پھر سے انتخابات آئیں گے تمام ہی سیاسی جماعتیں پوری طاقت لگا کر اقتدار میں دوبارہ آنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں مگر اب حتمی فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ دوبارہ انھیں لوگوں کو موقع دینا ہے جنھوں نے دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹا، ملک کا بیڑا غرق ستیاناس کیا یہ یا پھر اپنے حقیقی نمایندوں کو موقع دینا ہے جس طرح تحریک پاکستان میں پاکستان کی بنیاد رکھی اسی طرح آج ایک شعوری تحریک کی اشد ضرورت ہے جو پاکستان کی خوشحالی کی بنیاد رکھے کیا آج عوام اپنا آپشن خود نہیں ہو سکتے ۔
وقت کو اگر بدلنا ہے تو خود کو پہلے بدلو ، پاکستان کی معاشی آزادی خطرے میں ہے، دشمنوں نے چاروں طرف سے پاکستان کو گھیرا ہوا ہے ایک بے حس قوم کبھی بھی زندہ قوم نہیں بن سکتی ، حقیقی معنوں میں ہمیں زندہ قوم بننا ہوگا ،ہمیں حالات کو خود بدلنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی پھر بھی ان پر بھروسہ کرنا بہت بڑی بیوقوفی ہوگی، اگر تمام سیاسی جماعتیں عوام سے مخلص ہوتیں تو ہمارا یہ حال ہرگز نہیں ہوتا۔
سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو وقت نے ثابت کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اپنے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں ۔ عوام الناس کو بے حسی کی کیفیت کو توڑ کر حقیقت کا سامنا کرنے کی اشد ضرورت ہے وقت تیزی سے گزر رہا ہے صحیح وقت پر درست فیصلہ ہی انسان کا مستقبل بدلتا ہے۔ وقت دن بدن مزید خراب ہوتا جا رہا ہے اگر عوام نے بروقت درست فیصلہ نہیں لیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔
آج ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جس کا تعلق عوام سے ہو اور جس کا لیڈر ایک عام آدمی ہو، غریب کا درد صرف ایک غریب ہی سمجھ سکتا ہے۔اشرافیہ سے مزید امیدیں وابستہ رکھنا بیوقوفی ہوگی ۔ عوام کے پاس بہت مختصر سا وقت بچا ہے ،خدارا اب آنکھیں کھولیں اور مفاد پرست ٹولے سے پاکستان کو نجات دلائیں۔
پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ،عوام میں بے چینی غم و غصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک خاموش انقلاب در پر کھڑا دستک دے رہا ہے ،عوام کو اس قدر تنگ نہیں کیا جائے کہ وہ حالات کے ہاتھوں تنگ آکر ایوان اقتدار کو آگ لگا دیں ۔ملک میں انارکی کسی کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوگی ۔مقتدر اداروں کو بھی حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔
کب تک ملک اناڑیوں کے ہاتھ یر غمال بنا رہے گا، آخر ہمیں کس وقت کا انتظار ہے اور کتنا اس ملک کو لوٹا و برباد کیا جائے گا ہر چیز کی آخر ایک حد مقرر ہوتی ہے اتنا ظلم وجبر عوام پر مت کریں کہ عوام تنگ آ کر تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ہم سڑکوں پر ایک خونی انقلاب دیکھیں۔
قیام پاکستان کا وقت بھی کیا وقت تھا ،انتہائی ناخوشگوار اور نازک حالات کے باوجود ملکی معاملات مکمل گرفت میں تھے ،اس وقت ہمارے سیاسی اکابرین ملک کی خوشحالی و ترقی کے جذبے کے تحت زندگی بسر کرتے تھے ۔وطن عزیز کی خدمت ان کا حقیقی مقصد تھا ملکی مفادات کی خاطر اس وقت کے لیڈران قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
اس وقت عوام الناس کو اپنی لیڈرشپ پر پورا بھروسہ تھا قوم اور لیڈر اس وقت ایک پیج پر تھے اور وہ پیج تھا وطن عزیز کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پھر پاکستان کا وقت بدلا نئی سیاسی پارٹیوں کا قیام عمل میں آیا پھر سیاست دانوں نے عوام الناس کو نت نئے خواب دکھائے عوامی فلاح وبہبود کے وعدوں اور نعروں سے عوام کا خوب دل جیتا تقریبا ہر سیاسی جماعت کو عوام نے ایوان اقتدار میں آنے کا بھرپور موقع دیا مگر بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کے آج تک ہمیں حقیقی لیڈران نہیں ملے۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم نے کبھی اپنی زندگی میں ایسا وقت نہیں سوچا ہوگا ، جو اب چل رہا ہے آج مجموعی قومی غیرت، عزت اور پہچان کا یہ حال ہے کہ اقوام عالم میں ہماری کوئی قدر و عزت نہیں ہے موجودہ دور کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ آج ایک عام آدمی کا وقت بہت برا چل رہا ہے ۔
عوام الناس کو بنیادی معاشی حقوق حاصل نہیں ہیں ،اشیائے ضروریہ ادویات کے ریٹ آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور ہمارے حکمران سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ملکی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے، ملک قرضوں کے دلدل میں ڈوب چکا ہے، بھیک اور قرض کا فارمولہ معیشت کا بنیادی عنصر بنا ہوا ہے موجودہ حکمرانوں کو عوام نے بھرپور موقع دیا ،مگر اس کے برعکس ان کی کارکردگی صفر ثابت ہوئی۔
عوامی خوشحالی کے دعویدار موجودہ لیڈران کو وقت نے ثابت کیا کہ یہ انتہائی درجے کے نالائق ہیں ۔ہمارے حکمران بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں یہ کس آپشن کی بات کرتے ہیں؟ آج تک انھوں نے عوام الناس کو کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا۔ کرپٹ مافیا کے خلاف جہاد کرنے والوں کے اردگرد کرپٹ مافیا بیٹھا ہوا ہے، اپوزیشن کی بھی کیا بات ہے ،انھیں بھی اقتدار میں آنے کا بھرپور موقع ملا تھا مگر ان کا بھی یہی حال تھا۔
ہمارے لیڈران صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور ہمارے عوام اچھے وقت کا انتظار کرتے کرتے مزید بدحالی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ اب اس تمام صورتحال پر کیا کیا جائے اس آپشن کے چکر نے عوام کو مزید بدحال کر دیا ہے ، حکمرانوں کو ذرا بھی شرم و حیا نہیں آتی کتنے فخر سے یہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ہر بار عوام ان کے جھوٹ کو سچ سمجھ جاتے ہیں اور پھر سے اچھے وقت کا انتظار کر نے لگتے ہیں اب ہمیں اس فریبی جال کے چکر سے نکلنا پڑے گا جب تک عوام اپنے اندر سے لیڈر منتخب کرکے اقتدار میں نہیں لاتے تب تک ہمارے مسائل کا حل ناممکن ہے۔
ہمیں اپنے معاشی حقوق کی جنگ لڑنی پڑے گی ،اپنا حق بھیک کی شکل میں نہیں ملتا اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اگر ہم نے اپنا وقت نہیں بدلا تو مستقبل میں بھی ہمارا یہی حال رہے گا ، ہمیں اپنے آپ سے یہ عہد اور وعدہ کرنا پڑے گا کہ آزمائی ہوئی سیاسی جماعتوں کو دوبارہ موقع اب نہیں دینا آخر کب تک لاعلمی و بے شعوری کے عالم میں ہم زندگی بسر کریں گے۔
مستقبل میں پھر سے انتخابات آئیں گے تمام ہی سیاسی جماعتیں پوری طاقت لگا کر اقتدار میں دوبارہ آنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں مگر اب حتمی فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ دوبارہ انھیں لوگوں کو موقع دینا ہے جنھوں نے دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹا، ملک کا بیڑا غرق ستیاناس کیا یہ یا پھر اپنے حقیقی نمایندوں کو موقع دینا ہے جس طرح تحریک پاکستان میں پاکستان کی بنیاد رکھی اسی طرح آج ایک شعوری تحریک کی اشد ضرورت ہے جو پاکستان کی خوشحالی کی بنیاد رکھے کیا آج عوام اپنا آپشن خود نہیں ہو سکتے ۔
وقت کو اگر بدلنا ہے تو خود کو پہلے بدلو ، پاکستان کی معاشی آزادی خطرے میں ہے، دشمنوں نے چاروں طرف سے پاکستان کو گھیرا ہوا ہے ایک بے حس قوم کبھی بھی زندہ قوم نہیں بن سکتی ، حقیقی معنوں میں ہمیں زندہ قوم بننا ہوگا ،ہمیں حالات کو خود بدلنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی پھر بھی ان پر بھروسہ کرنا بہت بڑی بیوقوفی ہوگی، اگر تمام سیاسی جماعتیں عوام سے مخلص ہوتیں تو ہمارا یہ حال ہرگز نہیں ہوتا۔
سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو وقت نے ثابت کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اپنے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں ۔ عوام الناس کو بے حسی کی کیفیت کو توڑ کر حقیقت کا سامنا کرنے کی اشد ضرورت ہے وقت تیزی سے گزر رہا ہے صحیح وقت پر درست فیصلہ ہی انسان کا مستقبل بدلتا ہے۔ وقت دن بدن مزید خراب ہوتا جا رہا ہے اگر عوام نے بروقت درست فیصلہ نہیں لیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔
آج ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جس کا تعلق عوام سے ہو اور جس کا لیڈر ایک عام آدمی ہو، غریب کا درد صرف ایک غریب ہی سمجھ سکتا ہے۔اشرافیہ سے مزید امیدیں وابستہ رکھنا بیوقوفی ہوگی ۔ عوام کے پاس بہت مختصر سا وقت بچا ہے ،خدارا اب آنکھیں کھولیں اور مفاد پرست ٹولے سے پاکستان کو نجات دلائیں۔
پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ،عوام میں بے چینی غم و غصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک خاموش انقلاب در پر کھڑا دستک دے رہا ہے ،عوام کو اس قدر تنگ نہیں کیا جائے کہ وہ حالات کے ہاتھوں تنگ آکر ایوان اقتدار کو آگ لگا دیں ۔ملک میں انارکی کسی کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوگی ۔مقتدر اداروں کو بھی حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔
کب تک ملک اناڑیوں کے ہاتھ یر غمال بنا رہے گا، آخر ہمیں کس وقت کا انتظار ہے اور کتنا اس ملک کو لوٹا و برباد کیا جائے گا ہر چیز کی آخر ایک حد مقرر ہوتی ہے اتنا ظلم وجبر عوام پر مت کریں کہ عوام تنگ آ کر تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ہم سڑکوں پر ایک خونی انقلاب دیکھیں۔