تحریک عدم اعتماد…منظرنامہ
ایک امکان یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو بھی نیا وزیراعظم آئے وہ قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے
کراچی:
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطوں کے لیے بھی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
آئین پاکستان کے تحت وزیراعظم اور ان کی حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کا جمہوری طریقہ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد ہی لانا ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی تاریخ میں اب تک صرف ایک وزیر اعظم نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، یہ تحریک نومبر 1989میں قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف علام مصطفی جتوئی نے پیش کی لیکن ناکام رہی۔ یہ دوسرا موقع ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔
تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے آئین پاکستان کے مطابق ضروری ہے کہ قومی اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد کے تناسب سے کم از کم 20 فیصد ارکان اس تحریک کو پیش کریں اور قومی اسمبلی کی اکثریت اس کے حق میں ووٹ ڈالے۔اگر تحریک منظور ہو جائے تو وزیراعظم ایوان کا اعتماد کھونے کی بنا پر اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے، اس طرح ان کے وزرا بھی اپنے عہدے کھو بیٹھیں گے اور حکومت ختم ہو جائے گی۔ تاہم پارلیمانی نظام کے تحت قومی اسمبلی کی قائم رہے گی۔
نیا وزیراعظم نئی حکومت تشکیل دے گا، اگر نیاوزیراعظم ایوان کا اعتماد برقرار رکھتا ہے تو قومی اسمبلی پوری کرے گی لیکن وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان نہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔آئین پاکستان کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے تین دن سے پہلے اس پر رائے شماری نہیں کرائی جاسکتی لیکن یہ مہلت سات دن سے زائد نہیں ہوگی۔ تحریک پیش ہونے کے بعد سات دن کے اندرا سپیکر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرانے کے پابند ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے جس دن سے اقتدار سنبھالا ہے، انھیں پوزیشن کی طرف سے ہر دم شدید مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ جمیعت علما اسلام اور کئی دوسری سیاسی جماعتوں نے انھیں وزیر اعظم تسلیم کرنے سے نہ صرف یہ کہ مسلسل انکار کیا بلکہ انھیں منتخب وزیراعظم کے بجائے ان کو سلیکٹڈ کا نام دیا ہے۔
ان اپوزیشن جماعتوں نے باہمی اشتراک سے پی ڈی ایم کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کر کے عمران خان کو ہٹانے کے لیے مسلسل جلسے اور جلوس کی ابتدا کی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اسٹریٹ پاور اور ان جلسوں کے ذریعے دباؤ ڈال کر عمران خان کو مستعفی کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی، اس طرح یہ تحریک ناکام رہی۔
پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے لیکن دوسری جماعتوں کا نقطہ نظر تھا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، اس لیے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔
اب پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے حالات سازگار ہیں اور وہ بوجوہ کامیاب کرا سکتے ہیں۔دیکھنا ہے کہ اس عمل میں پی ڈی ایم کس طرح کامیاب ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی طرز حکمرانی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اپوزیشن کی جانب ان کے غیر لچکدار رویے نے حزب اختلاف کو اکٹھا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے سیاسی نظام کی تاریخ اور اس سے متعلقہ محرکات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بظاہر ایسے شواہد موجود ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے لیکن اس کے بعد کیا پاکستانی عوام کو درپیش مسائل حل ہوجائیں گے اور ایک مستحکم نظام قائم ہوگا، قرائین بتا رہے ہیں کہ اس کا امکان کم ہے کیونکہ اپوزیشن اتحاد کا صرف اور صرف مقصد عمران خان کا اقتدار ختم کرنا ہے۔ پی ڈی ایم نے اب تک آیندہ لائحہ عمل کو آشکار نہیں کیا۔
ایک امکان یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو بھی نیا وزیراعظم آئے وہ قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا آیندہ انتخابات اپوزیشن کی خواہش کے مطابق غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوں گے یا ایکشن ری پلے ہوگا ۔ اگر یہی لوگ جو اس وقت اسمبلی میں موجود ہیں وہ کسی اور سیاسی جماعت کی چھتری تلے کامیاب ہو کر آئیں گے تو کیا نظام میں تبدیلی یا بہتری آئے گی۔
اس عدم اعتماد کی کامیابی کا ثمر تب ہی مل سکتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جو اتفاق رائے سے انتخابی قوانین اور آئین میں ایسی ترامیم پر متفق ہوں جس سے ملک کا سیاسی نظام اور معیشت مستحکم ہو سکے۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا عمران خان حزب اختلاف میں بیٹھ کر اس حکومت کے ایجنڈے کا ساتھ دیں گے اور کیا حقیقی مقتدر قوتیں اپوزیشن اتحاد کی نئی حکومت کو ایسا کرنے دیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطوں کے لیے بھی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
آئین پاکستان کے تحت وزیراعظم اور ان کی حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کا جمہوری طریقہ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد ہی لانا ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی تاریخ میں اب تک صرف ایک وزیر اعظم نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، یہ تحریک نومبر 1989میں قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف علام مصطفی جتوئی نے پیش کی لیکن ناکام رہی۔ یہ دوسرا موقع ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔
تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے آئین پاکستان کے مطابق ضروری ہے کہ قومی اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد کے تناسب سے کم از کم 20 فیصد ارکان اس تحریک کو پیش کریں اور قومی اسمبلی کی اکثریت اس کے حق میں ووٹ ڈالے۔اگر تحریک منظور ہو جائے تو وزیراعظم ایوان کا اعتماد کھونے کی بنا پر اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے، اس طرح ان کے وزرا بھی اپنے عہدے کھو بیٹھیں گے اور حکومت ختم ہو جائے گی۔ تاہم پارلیمانی نظام کے تحت قومی اسمبلی کی قائم رہے گی۔
نیا وزیراعظم نئی حکومت تشکیل دے گا، اگر نیاوزیراعظم ایوان کا اعتماد برقرار رکھتا ہے تو قومی اسمبلی پوری کرے گی لیکن وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان نہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔آئین پاکستان کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے تین دن سے پہلے اس پر رائے شماری نہیں کرائی جاسکتی لیکن یہ مہلت سات دن سے زائد نہیں ہوگی۔ تحریک پیش ہونے کے بعد سات دن کے اندرا سپیکر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرانے کے پابند ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے جس دن سے اقتدار سنبھالا ہے، انھیں پوزیشن کی طرف سے ہر دم شدید مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ جمیعت علما اسلام اور کئی دوسری سیاسی جماعتوں نے انھیں وزیر اعظم تسلیم کرنے سے نہ صرف یہ کہ مسلسل انکار کیا بلکہ انھیں منتخب وزیراعظم کے بجائے ان کو سلیکٹڈ کا نام دیا ہے۔
ان اپوزیشن جماعتوں نے باہمی اشتراک سے پی ڈی ایم کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کر کے عمران خان کو ہٹانے کے لیے مسلسل جلسے اور جلوس کی ابتدا کی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اسٹریٹ پاور اور ان جلسوں کے ذریعے دباؤ ڈال کر عمران خان کو مستعفی کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی، اس طرح یہ تحریک ناکام رہی۔
پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے لیکن دوسری جماعتوں کا نقطہ نظر تھا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، اس لیے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔
اب پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے حالات سازگار ہیں اور وہ بوجوہ کامیاب کرا سکتے ہیں۔دیکھنا ہے کہ اس عمل میں پی ڈی ایم کس طرح کامیاب ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی طرز حکمرانی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اپوزیشن کی جانب ان کے غیر لچکدار رویے نے حزب اختلاف کو اکٹھا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے سیاسی نظام کی تاریخ اور اس سے متعلقہ محرکات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بظاہر ایسے شواہد موجود ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے لیکن اس کے بعد کیا پاکستانی عوام کو درپیش مسائل حل ہوجائیں گے اور ایک مستحکم نظام قائم ہوگا، قرائین بتا رہے ہیں کہ اس کا امکان کم ہے کیونکہ اپوزیشن اتحاد کا صرف اور صرف مقصد عمران خان کا اقتدار ختم کرنا ہے۔ پی ڈی ایم نے اب تک آیندہ لائحہ عمل کو آشکار نہیں کیا۔
ایک امکان یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو بھی نیا وزیراعظم آئے وہ قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا آیندہ انتخابات اپوزیشن کی خواہش کے مطابق غیر جانبدارانہ اور شفاف ہوں گے یا ایکشن ری پلے ہوگا ۔ اگر یہی لوگ جو اس وقت اسمبلی میں موجود ہیں وہ کسی اور سیاسی جماعت کی چھتری تلے کامیاب ہو کر آئیں گے تو کیا نظام میں تبدیلی یا بہتری آئے گی۔
اس عدم اعتماد کی کامیابی کا ثمر تب ہی مل سکتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جو اتفاق رائے سے انتخابی قوانین اور آئین میں ایسی ترامیم پر متفق ہوں جس سے ملک کا سیاسی نظام اور معیشت مستحکم ہو سکے۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا عمران خان حزب اختلاف میں بیٹھ کر اس حکومت کے ایجنڈے کا ساتھ دیں گے اور کیا حقیقی مقتدر قوتیں اپوزیشن اتحاد کی نئی حکومت کو ایسا کرنے دیں گے۔