الوداع لتا
وہ آرٹ تھی، آرٹسٹ تھی اس نے اپنی آواز کو محبتوں اور مشقتوں سے بنایا تھا
کراچی:
ایک آواز تھی جو بچپن میںمیرے ساتھ رہی،کوئی لوری تھی ریڈیو سے میرے کانوں میں اترتی تھی۔ ابھی تو چھوٹی کیسٹ بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کب تھے یو ٹیوب، اسمارٹ فون۔ ایک ہی ریڈیو تھا جس میں لتا رہتی تھی وہ اس کی کھڑکی سے جیسے گنگناتی تھی۔
''چلتے چلتے مجھے کوئی مل گیا تھا۔'' جو بھی تھا اس کا گلا تھا جس سے ابھرتی تھی یہ مدھر آواز ۔ ہندوستان میں جیسے تین تھے، تان سین، استاد بڑے غلام علی اور لتا۔ آج سے ساٹھ سال قبل استاد غلام علی چل بسے تھے۔ تان سین ہم نے سنا نہیں۔ استاد غلام علی کو سننے اور سمجھنے کے لیے کلاسیقی موسیقی پر دسترس چاہیے تب جا کے رنگ جمتا تھا، مگر لتا کے لیے آپ کو کچھ بھی نہیںچاہیے وہ بچوں، بوڑھوں میں، یکساں سنی جاتی تھی۔
ہزاروں گانے اس گائے، بہت سی زبانوں ، بمع میری مادری زبان سندھی میں بھی۔ اور وہ بھی جن کو لتا کے بول سمجھ نہ آتے تھے۔ اس کی آواز ہی کافی تھی ۔ بڑے بڑے بول لکھنے والوں نے ، موسیقاروں کی مزدوریاں تھیں مگر سب کی سب دہری کی دہری رہ جاتی تھیں اگر لتا نہ ہو، لتا کی آواز ان محنتوں کو رنگ بھرتی تھی۔
آج جب میں ساٹھ سال کی عمر سے چند سال کے قدموں پر ہوں ، لتا اس سفر میں مجھے چھوڑ گئی اور مجھ جیسے کروڑوں من ہیں، جن کے گھروندے خالی ہوگئے، جام الٹ گئے۔ رات بھر آئی، کوئی سناٹا سا چھا گیا ہو جیسے!مگر کیوں؟ لتا تان سین تھوڑی تھی جس کی آواز محفوظ نہ ہو۔ وہ اب بھی اسی تازگی سے محفوظ ہے یہیں کہیں، نہ دستک ضروری نہ آواز دینا وہ دبے پائوں خود بہ خود لوٹ آتی ہے۔
میرے ماضی کی سب باتیں، راتیں، صبح و شام میرے پیار کی پہلی سوغات ، وہ آواز جو مجھ میں احساس بھر گئی، انسان کر گئی، دل جو گر کٹھور ہوتا جو اگر لتا کی آواز بارش کے قطروں کی طرح مجھ پر نہ پڑتی ۔ یوں بھی ہے کہ لتا کا استاد بڑے غلام علی یا تان سین کے ساتھ کو ئی سلسلہ نہ جڑتا ہو۔ لتا تھی، محمد رفیع، مکیش، کشور کمار کے ساتھ، لتا کا سہگل کے ساتھ سلسلہ تو بنتا تھا مگر لتا، سہگل کے بعد کی حقیقت ہے، وہ جن فلمی ہیروئنوں پے فلمائی گئی، وہ تھیں نرگس، مدھو بالا ، ریکھا ، راکھی۔ وہ سب زینے چڑھ گئے۔
ان ہیروئنوں کے ہیرو بھی۔ مگر لتا کی آواز کی تازگی نہ گئی اور فلماتی رہی، مادھوری سے لے کر آج کی ہیروئنوں پر بھی، لتا پر کئی نشیب و فراز آئے اور خود لتا اسی زماں و مکاں کے تابع تھی، مگر لتا کی آواز نہیں۔ رفیع کو سنے مکیش ، مناڈے ، بھوپیندر اس کی بہن آشا بھونسلے ہی کیوں نہ ہو۔ اک عہد یاد آتا ہے ۔ لتا کی آواز زماں و مکاں کے تابع نہ تھی اور اب وہ نئے گانے گا نہیں سکتی وہ کچھ بھی نہیں گا سکتی اس نے جو گایا ہے وہ رہ گیا ہے، جب کوئی لتا کے گائے یہ بول سنے گا '' میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے''۔
کہتے ہیں لتا نے بھی آج جس دوراہے پرہندوستان کھڑا ہے ، جس ہندو انتہا پرستی میں غلطاں ہے۔ اس میں لتا کے ان کے لیے گیتوں کا بھی کردار ہے جب ایڈوانی نے گجرات سے بابری مسجد کی طرف یاترا کی تھی اس نے اس یاترا کو بھی اپنے گیت بخشے تھے۔ یہ ہوگا جو اس کے کیریئر کے سامنے رکھا جائے گا، جس میں یہ حوالہ ایک صفحے کا بنتا ہوا ایک ایسی کتاب کا جس کے ہزاروں ورق ہوں۔ ہر ورق پر محبت بھری ہو، مہکتے پھولوں کی خوشبو ہو ''دل میں کسی کے پیار کو جلتا ہوا دیا۔ ''
وہ آرٹ تھی، آرٹسٹ تھی اس نے اپنی آواز کو محبتوں اور مشقتوں سے بنایا تھا ، اس جو گل فطری نے بخشا تھا اس پر درد برسا تھا، وہ کہتی تھی مجھے اگر دوسرا جنم ملے تو میں شاید لتا نہ بنوں ''۔ کتنے سارے غم تھے اس کی زندگی میں۔ بچپن میں ہی یتیم ہوگئی۔ اسے گانا تھا، اپنے گھر کے خاطر ، اپنی ماں اور اپنی پریوار کے لیے، اس کے بدلے ان سکوں کی خاطر جس سے زندگی گزرتی ہے ۔ جاتے جاتے اس نے اربوں کی جائیداد چھوڑی جو سنا ہے اس نے فلاحی اداروں کے سپرد کرنے کی وصیت کی ہے۔
اس کی آواز پر سرحدیں ماندہ پڑ جاتی تھیں، وہ جو ہم جنگیں کر کے 1947 کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں جیے اور مرے ہیں۔ اس کی فضائوں میں جو گھمسان کے جنگ بادل منڈلاتے رہے لتا اس سے بھی بڑی تھی، وہ امن کی پیامبر تھی۔ جہاں سے تم موڑ مڑ گئے تھے، یہ موڑ اب بھی وہیں پڑے ہیں۔'' لتا وہ موڑ تھیں، گلزار کی ان سطروں کی طرح جو اس کی آواز میں محفوظ ہے۔
''کس موڑ سے جاتے ہیں ، کچھ سست قدم رستے ، کچھ تیز قدم آہیں۔'' ہندوستان اور پاکستان اسی طرح رہتی تھی لتا کی آواز ۔ شاید پاکستان میں زیادہ اس کی آواز لہو کی طرح رگوں میں دوڑتی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکتی تھی۔ کبھی ڈھال بن جاتی تھی گردش ایام کی موجوں سے ٹکرا جاتی تھی۔ حوصلہ دیتی تھی کبھی اتنا نرم دل بنا دیتی تھی کہ انسانیت بھرم کا رہ جائے۔ ہم ہندوستان کو سب کچھ معاف کردیں اگر وہ انھیں قدموں کے نشان سے لوٹ آتے جو لتا منگیشکر کے تھے۔
سوچتا ہوں اگر ہندوستان اور پاکستان کے بیچ، یہ ایک جیسی موسیقی نہ ہوتی ، اس کی تاریخ نہ تہذیب نہ ہوتی، ہم نہ جانے اب تک کتنی جنگیں لڑ چکے ہوتے۔ کتنے گھر اجڑ چکے ہوتے ، کتنی مائوں کے دامن اجڑ چکے ہوتے۔ حقیقتوں کے دیکھنے کے زاویے کچھ اس طرح بھی ہونے چاہئیں۔
ہم سب لتا کو خراج تحسین پیش کرنے میں ایک ساتھ کھڑے تھے۔ جب عاصمہ جہانگیر چل بسی تھیں تو اتنا دکھ ہندوستان والوں نے ہماری کسی اہم شخصیت کے لیے محسوس نہیں کیا تھا جتنا عاصمہ جہانگیر کے لیے کیا تھا۔ کل جب ان کے دلیپ چل بسے تھے ، ہم نے پھر سے یہ سوال اٹھایا کہ دلیپ ان کے تھے یا ہمارے تھے؟ آج جب ان کی لتا چل بسی ہے جو کہیں سے بھی دلیپ کی طرح پاکستان میں پیدا نہیں ہوئی تھیں مگر دلیپ سے بھی زیادہ ہمیں اپنی محسوس ہوئیں۔ یہ محبتوں کے دریچے کھلے رکھنے ہیں، گر یہ دریچے بھی بند ہوگئے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، سب لوٹ آنے والے راستے بند ہوجائیں گے۔
ایک شام تھی کوئی ، جو ڈھل گئی ہے۔ کسی موجوں کے سفینوں میں اتر گئی ہے۔ اتنے سارے دلوں میں رہنے والی لتا، اک دیا تھا جو بجھ گیا ہے وہ اپنا کام کر گئی ، اپنی آواز سے ہمیں انسان کر گئی۔ وہ میری بچپن کی دوست، میری جوانی میں تازگی بھرنے والی، عمر کے اس موڑ میں بھی اتنی ہی جلا دینے والی ، لتا منگیشکر کو الوداع کرتیں یہ نم آنکھیں مگر یہ تو سلسلہ ہے، آنا جانا ہے رواں ہے، '' تم مجھے سے یہ تحریر کا حق رکھتی تھی۔ وہ ادا ہوا نہ ہوا جو دل پے ایک احساس ہے پوری زندگی تم میرے کانوں سے اترتی رہتی تھی اور ابھی اس طرح اترتی ہو مگر تیری یاد پے یہ دو پھول نظرانے کے قبول ہوں۔''
الوداع لتا
الوداع اے آواز
الوداع
صبح سے شام تک
اس سفر میں
ساتھ رہتی
میرے دکھ
کا مداوا
الوداع
ایک آواز تھی جو بچپن میںمیرے ساتھ رہی،کوئی لوری تھی ریڈیو سے میرے کانوں میں اترتی تھی۔ ابھی تو چھوٹی کیسٹ بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کب تھے یو ٹیوب، اسمارٹ فون۔ ایک ہی ریڈیو تھا جس میں لتا رہتی تھی وہ اس کی کھڑکی سے جیسے گنگناتی تھی۔
''چلتے چلتے مجھے کوئی مل گیا تھا۔'' جو بھی تھا اس کا گلا تھا جس سے ابھرتی تھی یہ مدھر آواز ۔ ہندوستان میں جیسے تین تھے، تان سین، استاد بڑے غلام علی اور لتا۔ آج سے ساٹھ سال قبل استاد غلام علی چل بسے تھے۔ تان سین ہم نے سنا نہیں۔ استاد غلام علی کو سننے اور سمجھنے کے لیے کلاسیقی موسیقی پر دسترس چاہیے تب جا کے رنگ جمتا تھا، مگر لتا کے لیے آپ کو کچھ بھی نہیںچاہیے وہ بچوں، بوڑھوں میں، یکساں سنی جاتی تھی۔
ہزاروں گانے اس گائے، بہت سی زبانوں ، بمع میری مادری زبان سندھی میں بھی۔ اور وہ بھی جن کو لتا کے بول سمجھ نہ آتے تھے۔ اس کی آواز ہی کافی تھی ۔ بڑے بڑے بول لکھنے والوں نے ، موسیقاروں کی مزدوریاں تھیں مگر سب کی سب دہری کی دہری رہ جاتی تھیں اگر لتا نہ ہو، لتا کی آواز ان محنتوں کو رنگ بھرتی تھی۔
آج جب میں ساٹھ سال کی عمر سے چند سال کے قدموں پر ہوں ، لتا اس سفر میں مجھے چھوڑ گئی اور مجھ جیسے کروڑوں من ہیں، جن کے گھروندے خالی ہوگئے، جام الٹ گئے۔ رات بھر آئی، کوئی سناٹا سا چھا گیا ہو جیسے!مگر کیوں؟ لتا تان سین تھوڑی تھی جس کی آواز محفوظ نہ ہو۔ وہ اب بھی اسی تازگی سے محفوظ ہے یہیں کہیں، نہ دستک ضروری نہ آواز دینا وہ دبے پائوں خود بہ خود لوٹ آتی ہے۔
میرے ماضی کی سب باتیں، راتیں، صبح و شام میرے پیار کی پہلی سوغات ، وہ آواز جو مجھ میں احساس بھر گئی، انسان کر گئی، دل جو گر کٹھور ہوتا جو اگر لتا کی آواز بارش کے قطروں کی طرح مجھ پر نہ پڑتی ۔ یوں بھی ہے کہ لتا کا استاد بڑے غلام علی یا تان سین کے ساتھ کو ئی سلسلہ نہ جڑتا ہو۔ لتا تھی، محمد رفیع، مکیش، کشور کمار کے ساتھ، لتا کا سہگل کے ساتھ سلسلہ تو بنتا تھا مگر لتا، سہگل کے بعد کی حقیقت ہے، وہ جن فلمی ہیروئنوں پے فلمائی گئی، وہ تھیں نرگس، مدھو بالا ، ریکھا ، راکھی۔ وہ سب زینے چڑھ گئے۔
ان ہیروئنوں کے ہیرو بھی۔ مگر لتا کی آواز کی تازگی نہ گئی اور فلماتی رہی، مادھوری سے لے کر آج کی ہیروئنوں پر بھی، لتا پر کئی نشیب و فراز آئے اور خود لتا اسی زماں و مکاں کے تابع تھی، مگر لتا کی آواز نہیں۔ رفیع کو سنے مکیش ، مناڈے ، بھوپیندر اس کی بہن آشا بھونسلے ہی کیوں نہ ہو۔ اک عہد یاد آتا ہے ۔ لتا کی آواز زماں و مکاں کے تابع نہ تھی اور اب وہ نئے گانے گا نہیں سکتی وہ کچھ بھی نہیں گا سکتی اس نے جو گایا ہے وہ رہ گیا ہے، جب کوئی لتا کے گائے یہ بول سنے گا '' میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے''۔
کہتے ہیں لتا نے بھی آج جس دوراہے پرہندوستان کھڑا ہے ، جس ہندو انتہا پرستی میں غلطاں ہے۔ اس میں لتا کے ان کے لیے گیتوں کا بھی کردار ہے جب ایڈوانی نے گجرات سے بابری مسجد کی طرف یاترا کی تھی اس نے اس یاترا کو بھی اپنے گیت بخشے تھے۔ یہ ہوگا جو اس کے کیریئر کے سامنے رکھا جائے گا، جس میں یہ حوالہ ایک صفحے کا بنتا ہوا ایک ایسی کتاب کا جس کے ہزاروں ورق ہوں۔ ہر ورق پر محبت بھری ہو، مہکتے پھولوں کی خوشبو ہو ''دل میں کسی کے پیار کو جلتا ہوا دیا۔ ''
وہ آرٹ تھی، آرٹسٹ تھی اس نے اپنی آواز کو محبتوں اور مشقتوں سے بنایا تھا ، اس جو گل فطری نے بخشا تھا اس پر درد برسا تھا، وہ کہتی تھی مجھے اگر دوسرا جنم ملے تو میں شاید لتا نہ بنوں ''۔ کتنے سارے غم تھے اس کی زندگی میں۔ بچپن میں ہی یتیم ہوگئی۔ اسے گانا تھا، اپنے گھر کے خاطر ، اپنی ماں اور اپنی پریوار کے لیے، اس کے بدلے ان سکوں کی خاطر جس سے زندگی گزرتی ہے ۔ جاتے جاتے اس نے اربوں کی جائیداد چھوڑی جو سنا ہے اس نے فلاحی اداروں کے سپرد کرنے کی وصیت کی ہے۔
اس کی آواز پر سرحدیں ماندہ پڑ جاتی تھیں، وہ جو ہم جنگیں کر کے 1947 کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں جیے اور مرے ہیں۔ اس کی فضائوں میں جو گھمسان کے جنگ بادل منڈلاتے رہے لتا اس سے بھی بڑی تھی، وہ امن کی پیامبر تھی۔ جہاں سے تم موڑ مڑ گئے تھے، یہ موڑ اب بھی وہیں پڑے ہیں۔'' لتا وہ موڑ تھیں، گلزار کی ان سطروں کی طرح جو اس کی آواز میں محفوظ ہے۔
''کس موڑ سے جاتے ہیں ، کچھ سست قدم رستے ، کچھ تیز قدم آہیں۔'' ہندوستان اور پاکستان اسی طرح رہتی تھی لتا کی آواز ۔ شاید پاکستان میں زیادہ اس کی آواز لہو کی طرح رگوں میں دوڑتی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکتی تھی۔ کبھی ڈھال بن جاتی تھی گردش ایام کی موجوں سے ٹکرا جاتی تھی۔ حوصلہ دیتی تھی کبھی اتنا نرم دل بنا دیتی تھی کہ انسانیت بھرم کا رہ جائے۔ ہم ہندوستان کو سب کچھ معاف کردیں اگر وہ انھیں قدموں کے نشان سے لوٹ آتے جو لتا منگیشکر کے تھے۔
سوچتا ہوں اگر ہندوستان اور پاکستان کے بیچ، یہ ایک جیسی موسیقی نہ ہوتی ، اس کی تاریخ نہ تہذیب نہ ہوتی، ہم نہ جانے اب تک کتنی جنگیں لڑ چکے ہوتے۔ کتنے گھر اجڑ چکے ہوتے ، کتنی مائوں کے دامن اجڑ چکے ہوتے۔ حقیقتوں کے دیکھنے کے زاویے کچھ اس طرح بھی ہونے چاہئیں۔
ہم سب لتا کو خراج تحسین پیش کرنے میں ایک ساتھ کھڑے تھے۔ جب عاصمہ جہانگیر چل بسی تھیں تو اتنا دکھ ہندوستان والوں نے ہماری کسی اہم شخصیت کے لیے محسوس نہیں کیا تھا جتنا عاصمہ جہانگیر کے لیے کیا تھا۔ کل جب ان کے دلیپ چل بسے تھے ، ہم نے پھر سے یہ سوال اٹھایا کہ دلیپ ان کے تھے یا ہمارے تھے؟ آج جب ان کی لتا چل بسی ہے جو کہیں سے بھی دلیپ کی طرح پاکستان میں پیدا نہیں ہوئی تھیں مگر دلیپ سے بھی زیادہ ہمیں اپنی محسوس ہوئیں۔ یہ محبتوں کے دریچے کھلے رکھنے ہیں، گر یہ دریچے بھی بند ہوگئے تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، سب لوٹ آنے والے راستے بند ہوجائیں گے۔
ایک شام تھی کوئی ، جو ڈھل گئی ہے۔ کسی موجوں کے سفینوں میں اتر گئی ہے۔ اتنے سارے دلوں میں رہنے والی لتا، اک دیا تھا جو بجھ گیا ہے وہ اپنا کام کر گئی ، اپنی آواز سے ہمیں انسان کر گئی۔ وہ میری بچپن کی دوست، میری جوانی میں تازگی بھرنے والی، عمر کے اس موڑ میں بھی اتنی ہی جلا دینے والی ، لتا منگیشکر کو الوداع کرتیں یہ نم آنکھیں مگر یہ تو سلسلہ ہے، آنا جانا ہے رواں ہے، '' تم مجھے سے یہ تحریر کا حق رکھتی تھی۔ وہ ادا ہوا نہ ہوا جو دل پے ایک احساس ہے پوری زندگی تم میرے کانوں سے اترتی رہتی تھی اور ابھی اس طرح اترتی ہو مگر تیری یاد پے یہ دو پھول نظرانے کے قبول ہوں۔''
الوداع لتا
الوداع اے آواز
الوداع
صبح سے شام تک
اس سفر میں
ساتھ رہتی
میرے دکھ
کا مداوا
الوداع