آئی ایم ایف ورلڈ بینک قصور کس کا آخری حصہ
آئی ایم ایف کے سامنے سب سے پہلے جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1958 میں دست سوال دراز کیا
ISLAMABAD:
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس نے 1950 میں آئی ایم ایف کی رکنیت حاصل کی، ایسا کرنے کے لیے اس پر کوئی دبائو نہیں تھا، یہ ایک رضاکارانہ فیصلہ تھا۔ آزادی کے فوراً بعد سے ہی حکومت نے اپنی معاشی اور سیاسی بقا کے لیے امریکا کی طرف دیکھنا شروع کردیا تھا۔
1948 میں امریکا سے جو مالی مدد ملنی شروع ہوئی اس کا سلسلہ سات دہائیوں تک جاری رہا۔ اپنی معیشت کو امریکا اور مغرب کے تابع کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ ملک مغربی مصنوعات کی کھپت کی منڈی میں تبدیل ہوگیا لہٰذا ملک کو جو بھی مدد فراہم کی جاتی وہ منافع کے ساتھ واپس چلی جاتی تھی۔
آزادی کے بعد ملک کے اقتدار اعلیٰ پر جن طبقوں اور قوتوں کی بالادستی تھی ان کا مفاد اسی میں تھا کہ وہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا اور مغرب پر انحصار کریں ۔ اس طرح پاکستان اس دور کی جدید نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط میں چلا گیا۔
پاکستان کے اولین 10 سال نہایت اہم تھے جنھیں بدقسمتی سے ضایع کردیا گیا۔غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا یہی بہترین وقت تھا۔ اس زمانے کی دو قطبی دنیا میں ملک کوامریکا اور سوویت بلاک سے الگ رکھنے کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے بعد ہی معاشی خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنی ممکن ہوسکتی تھی۔
تاہم، ایسا کرنے سے امریکا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا لہٰذاغیر جمہوری حکمران نے یہ خطرہ مول نہیں لیا اور ملک کومکمل طور پر مغربی بلاک کا ایک حصہ بنادیا۔ صنعت یافتہ ملک میں تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کا مکمل انحصار مغرب سے ملنے والے قرض اور مالی امداد پر ہوگیا۔ معیشت بہ ظاہر ٹھیک نظر آتی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ کھوکھلی ہوتی جارہی تھی۔
جنرل ایوب خان کے دور حکومت کو عموماً کافی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ان کے 10 سالہ دور حکومت میں پاکستان بدترین سیاسی اور معاشی بحران میں پھنس چکا تھا۔ انھوں نے ملک میں آمرانہ صدارتی نظام مسلط کررکھا تھا جس کی وجہ سے پورے ملک بالخصوص اس وقت کے مشرقی پاکستان میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا جو ملک کے دو ٹکڑے ہونے کا سبب بن گیا۔
آئی ایم ایف کے سامنے سب سے پہلے جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1958 میں دست سوال دراز کیا اور مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیے مالی مدد کی درخواست کی جس کے جواب میں آئی ایم ایف نے 25 ہزار ڈالر کا قرض فراہم کیا۔ جنرل ایوب نے 1964 میں محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرانے کے بعد عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک مہم جوئی کی جو 1965 کی جنگ کا باعث بن گئی۔
اس جنگ نے پاکستان کو زبردست مالی نقصان پہنچایا اور حکومت دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس مدد کے لیے پہنچ گئی۔ اس بار اسے 37,500 ڈالر دیے گئے۔ ابھی بہ مشکل تین سال ہی گزرے تھے کہ مالی بحران دوبارہ شدت اختیار کرگیا اور 1968 میں مزید 75 ہزار ڈالر کا قرض حاصل کرنا پڑا۔ سیاسی اور معاشی حالات اتنے ابتر ہوگئے کہ جنرل ایوب خان کو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرنا پڑا۔ اگرچہ خود ان کے اپنے بنائے گئے آئین کے مطابق انھیں اقتدار اسپیکر کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ملک میں پہلے عام انتخابات کرائے۔ لیکن ان عام انتخابات کے نتائج اور عوام کے مینڈیٹ کو ماننے سے گریز کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے، بنگلہ دیش بنا اور 1971 کی جنگ نے ملک کو دیوالیہ کردیا۔ جس کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف سے 1972 میں 84 ہزار، 1973 میں 75ہزار اور 1974 میں 75ہزار ڈالر قرض لیے ۔
پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے جال میں خود کو پھنسا چکا تھا، اپنی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے اس نے امریکا کے تعاون سے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا سلسلہ بدستور جاری رکھا۔ 1977 میں حکومت نے فوری طور پر آئی ایم ایف سے دوبارہ رجوع کیا اور 80 ہزار ڈالر حاصل کیے۔
معاشی صورتحال دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جارہی تھی۔ 1980 میں حکومت کو 3 لاکھ 80 ہزار ڈالر کی سہولت حاصل کرنی پڑی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آغاز 1958 میں ہوا تھا اوریہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پاکستان اب سے پہلے تک 22 مرتبہ اس ادارے کے سامنے ہاتھ پھیلا چکا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ملکوں بالخصوص جرمنی نے ورلڈبینک کے سرمائے سے اپنی تعمیر نو کی۔ یہی مثال مشرقی ایشیا کے کئی ملکوں پر بھی صادق آتی ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے خلاف ترقی پذیر ملکوں میں احتجاج کا سلسلہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد شروع ہوا۔
سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ملکوں کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنے کے لیے خوب استعمال کیاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قرض اور مالی امداد بڑی فیاضی سے فراہم کی جاتی تھی۔ قرضوں کی واپسی کے لیے کوئی دبائو نہیں ڈالا جاتا تھا بلکہ اکثر اوقات قرض معاف بھی کردیے جاتے تھے۔
یہ سوال بھی نہیں پوچھا جاتا تھا کہ جن منصوبوں کے لیے مالی مدد دی گئی ہے وہ منصوبے مکمل ہوئے بھی ہیں یا نہیں، اس کے ساتھ حکومتوں سے مالی شفافیت کا تقاضہ بھی نہیں کیا جاتا تھا۔
امریکا اور اس کے مغربی اتحادی اس ''فیاضی'' کا مظاہر ہ تیسری دنیا کے غریب عوام کی خاطر نہیں کررہے تھے بلکہ ان کا اصل مقصد غیر جمہوری حکمرانوں کو نوازنا تھا تاکہ انھیں اپنے سوویت مخالف بلاک سے وفادار رکھا جائے، لیکن جب سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا رویہ بھی تبدیل ہوگیا اور انھوں نے ماضی میں دیے گئے قرضوں کے واپسی کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔
اس دباؤ کے نتیجے میں ترقی پذیر ملکوں میں معاشی بحران پیدا ہونے لگا کیونکہ ان کے وسائل کا زیادہ حصہ قرضوں اور سود کی واپسی پر خرچ ہورہا تھا۔ معاشی مسائل جب زیادہ گہرے ہونے لگے تو ترقیاتی منصوبوں اور توازن ادائیگی کے لیے سرمائے کی ضرورت میں اضافہ ہونے لگا اور یہ ملک ایک بار پھر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے امداد طلب کرنے پر مجبور ہوگئے۔
سرد جنگ کے دوران ان دونوں اداروں کا رویہ جتنا نرم تھا اب وہ اتنا ہی زیادہ سخت ہوچکا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف یہ الزام لگانے لگے کہ مالی بحرانوں میں گھری حکومتوں نے قرضوں کو صحیح استعمال نہیں کیا بلکہ انھیں غیر پیداواری شعبوں میں ضایع کیا اور اپنی معیشتوں کے حوالے سے غلط اعداد و شمار دے کر انھیں دھوکا بھی دیا۔
آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کو اپنے معاشی مسائل کی وجہ قرار دے کر خود کو فریب نہیں دینا چاہیے۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان آج سے 30 سال پہلے اس وقت آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا جب وہ زرمبادلہ کے بحران کے باعث عالمی سطح پر نادہندہ ہونے والا تھا۔ آئی ایم ایف سے ہنگامی قرض لے کر اس نے اپنی معیشت میں بنیادی اصلاحات کیں اور اس کے بعد اسے آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ نہیں جانا پڑا۔
اسی طرح بنگلہ دیش بھی اس ادارے سے نجات حاصل کرچکا ہے۔ یہاں ان ملکوں کی مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ دونوں ملک ماضی میں ہم سے کہیں زیادہ غریب اور پس ماندہ تھے۔ انھوں نے مشکل حالات میں عارضی طور پر آئی ایم ایف کی مدد ضرور حاصل کی لیکن اس پر مستقل انحصار سے ہمیشہ گریز کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ملک آج ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اصل قصور ان اداروں کا نہیں بلکہ ان ملکوں کی حکومتوں کا ہوتا ہے جو اپنی معیشت کو بیرونی امداد اور قرض کے سہارے چلانے کی پالیسی اختیار کرتی ہیں اور اپنے عوام کو غربت، مہنگائی ، بے روزگاری اور پسماندگی کی گہری کھائی میں دھکیل دیتی ہیں۔
تباہی کی یہ داستان اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہے گا۔ پلوں کے نیچے سے اگرچہ بہت پانی گزر چکا ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت پر بھی اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے تاکہ معیشت کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ معیشت تنہا نہیں سب کو ساتھ لے کر ڈوبتی ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس نے 1950 میں آئی ایم ایف کی رکنیت حاصل کی، ایسا کرنے کے لیے اس پر کوئی دبائو نہیں تھا، یہ ایک رضاکارانہ فیصلہ تھا۔ آزادی کے فوراً بعد سے ہی حکومت نے اپنی معاشی اور سیاسی بقا کے لیے امریکا کی طرف دیکھنا شروع کردیا تھا۔
1948 میں امریکا سے جو مالی مدد ملنی شروع ہوئی اس کا سلسلہ سات دہائیوں تک جاری رہا۔ اپنی معیشت کو امریکا اور مغرب کے تابع کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ ملک مغربی مصنوعات کی کھپت کی منڈی میں تبدیل ہوگیا لہٰذا ملک کو جو بھی مدد فراہم کی جاتی وہ منافع کے ساتھ واپس چلی جاتی تھی۔
آزادی کے بعد ملک کے اقتدار اعلیٰ پر جن طبقوں اور قوتوں کی بالادستی تھی ان کا مفاد اسی میں تھا کہ وہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا اور مغرب پر انحصار کریں ۔ اس طرح پاکستان اس دور کی جدید نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط میں چلا گیا۔
پاکستان کے اولین 10 سال نہایت اہم تھے جنھیں بدقسمتی سے ضایع کردیا گیا۔غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا یہی بہترین وقت تھا۔ اس زمانے کی دو قطبی دنیا میں ملک کوامریکا اور سوویت بلاک سے الگ رکھنے کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے بعد ہی معاشی خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنی ممکن ہوسکتی تھی۔
تاہم، ایسا کرنے سے امریکا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا لہٰذاغیر جمہوری حکمران نے یہ خطرہ مول نہیں لیا اور ملک کومکمل طور پر مغربی بلاک کا ایک حصہ بنادیا۔ صنعت یافتہ ملک میں تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کا مکمل انحصار مغرب سے ملنے والے قرض اور مالی امداد پر ہوگیا۔ معیشت بہ ظاہر ٹھیک نظر آتی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ کھوکھلی ہوتی جارہی تھی۔
جنرل ایوب خان کے دور حکومت کو عموماً کافی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ان کے 10 سالہ دور حکومت میں پاکستان بدترین سیاسی اور معاشی بحران میں پھنس چکا تھا۔ انھوں نے ملک میں آمرانہ صدارتی نظام مسلط کررکھا تھا جس کی وجہ سے پورے ملک بالخصوص اس وقت کے مشرقی پاکستان میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا جو ملک کے دو ٹکڑے ہونے کا سبب بن گیا۔
آئی ایم ایف کے سامنے سب سے پہلے جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1958 میں دست سوال دراز کیا اور مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیے مالی مدد کی درخواست کی جس کے جواب میں آئی ایم ایف نے 25 ہزار ڈالر کا قرض فراہم کیا۔ جنرل ایوب نے 1964 میں محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرانے کے بعد عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک مہم جوئی کی جو 1965 کی جنگ کا باعث بن گئی۔
اس جنگ نے پاکستان کو زبردست مالی نقصان پہنچایا اور حکومت دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس مدد کے لیے پہنچ گئی۔ اس بار اسے 37,500 ڈالر دیے گئے۔ ابھی بہ مشکل تین سال ہی گزرے تھے کہ مالی بحران دوبارہ شدت اختیار کرگیا اور 1968 میں مزید 75 ہزار ڈالر کا قرض حاصل کرنا پڑا۔ سیاسی اور معاشی حالات اتنے ابتر ہوگئے کہ جنرل ایوب خان کو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرنا پڑا۔ اگرچہ خود ان کے اپنے بنائے گئے آئین کے مطابق انھیں اقتدار اسپیکر کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ملک میں پہلے عام انتخابات کرائے۔ لیکن ان عام انتخابات کے نتائج اور عوام کے مینڈیٹ کو ماننے سے گریز کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے، بنگلہ دیش بنا اور 1971 کی جنگ نے ملک کو دیوالیہ کردیا۔ جس کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف سے 1972 میں 84 ہزار، 1973 میں 75ہزار اور 1974 میں 75ہزار ڈالر قرض لیے ۔
پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے جال میں خود کو پھنسا چکا تھا، اپنی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے اس نے امریکا کے تعاون سے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا سلسلہ بدستور جاری رکھا۔ 1977 میں حکومت نے فوری طور پر آئی ایم ایف سے دوبارہ رجوع کیا اور 80 ہزار ڈالر حاصل کیے۔
معاشی صورتحال دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جارہی تھی۔ 1980 میں حکومت کو 3 لاکھ 80 ہزار ڈالر کی سہولت حاصل کرنی پڑی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آغاز 1958 میں ہوا تھا اوریہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پاکستان اب سے پہلے تک 22 مرتبہ اس ادارے کے سامنے ہاتھ پھیلا چکا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ملکوں بالخصوص جرمنی نے ورلڈبینک کے سرمائے سے اپنی تعمیر نو کی۔ یہی مثال مشرقی ایشیا کے کئی ملکوں پر بھی صادق آتی ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے خلاف ترقی پذیر ملکوں میں احتجاج کا سلسلہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد شروع ہوا۔
سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ملکوں کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنے کے لیے خوب استعمال کیاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قرض اور مالی امداد بڑی فیاضی سے فراہم کی جاتی تھی۔ قرضوں کی واپسی کے لیے کوئی دبائو نہیں ڈالا جاتا تھا بلکہ اکثر اوقات قرض معاف بھی کردیے جاتے تھے۔
یہ سوال بھی نہیں پوچھا جاتا تھا کہ جن منصوبوں کے لیے مالی مدد دی گئی ہے وہ منصوبے مکمل ہوئے بھی ہیں یا نہیں، اس کے ساتھ حکومتوں سے مالی شفافیت کا تقاضہ بھی نہیں کیا جاتا تھا۔
امریکا اور اس کے مغربی اتحادی اس ''فیاضی'' کا مظاہر ہ تیسری دنیا کے غریب عوام کی خاطر نہیں کررہے تھے بلکہ ان کا اصل مقصد غیر جمہوری حکمرانوں کو نوازنا تھا تاکہ انھیں اپنے سوویت مخالف بلاک سے وفادار رکھا جائے، لیکن جب سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا رویہ بھی تبدیل ہوگیا اور انھوں نے ماضی میں دیے گئے قرضوں کے واپسی کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔
اس دباؤ کے نتیجے میں ترقی پذیر ملکوں میں معاشی بحران پیدا ہونے لگا کیونکہ ان کے وسائل کا زیادہ حصہ قرضوں اور سود کی واپسی پر خرچ ہورہا تھا۔ معاشی مسائل جب زیادہ گہرے ہونے لگے تو ترقیاتی منصوبوں اور توازن ادائیگی کے لیے سرمائے کی ضرورت میں اضافہ ہونے لگا اور یہ ملک ایک بار پھر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے امداد طلب کرنے پر مجبور ہوگئے۔
سرد جنگ کے دوران ان دونوں اداروں کا رویہ جتنا نرم تھا اب وہ اتنا ہی زیادہ سخت ہوچکا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف یہ الزام لگانے لگے کہ مالی بحرانوں میں گھری حکومتوں نے قرضوں کو صحیح استعمال نہیں کیا بلکہ انھیں غیر پیداواری شعبوں میں ضایع کیا اور اپنی معیشتوں کے حوالے سے غلط اعداد و شمار دے کر انھیں دھوکا بھی دیا۔
آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کو اپنے معاشی مسائل کی وجہ قرار دے کر خود کو فریب نہیں دینا چاہیے۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان آج سے 30 سال پہلے اس وقت آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا جب وہ زرمبادلہ کے بحران کے باعث عالمی سطح پر نادہندہ ہونے والا تھا۔ آئی ایم ایف سے ہنگامی قرض لے کر اس نے اپنی معیشت میں بنیادی اصلاحات کیں اور اس کے بعد اسے آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ نہیں جانا پڑا۔
اسی طرح بنگلہ دیش بھی اس ادارے سے نجات حاصل کرچکا ہے۔ یہاں ان ملکوں کی مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ دونوں ملک ماضی میں ہم سے کہیں زیادہ غریب اور پس ماندہ تھے۔ انھوں نے مشکل حالات میں عارضی طور پر آئی ایم ایف کی مدد ضرور حاصل کی لیکن اس پر مستقل انحصار سے ہمیشہ گریز کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ملک آج ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اصل قصور ان اداروں کا نہیں بلکہ ان ملکوں کی حکومتوں کا ہوتا ہے جو اپنی معیشت کو بیرونی امداد اور قرض کے سہارے چلانے کی پالیسی اختیار کرتی ہیں اور اپنے عوام کو غربت، مہنگائی ، بے روزگاری اور پسماندگی کی گہری کھائی میں دھکیل دیتی ہیں۔
تباہی کی یہ داستان اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہے گا۔ پلوں کے نیچے سے اگرچہ بہت پانی گزر چکا ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت پر بھی اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے تاکہ معیشت کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ معیشت تنہا نہیں سب کو ساتھ لے کر ڈوبتی ہے۔