قومی زبان کی بقاء

اُردو حقیقت میں ایک ایسی زبان ہے جو سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔


نصیرالدین چشتی February 18, 2014
اُردو حقیقت میں ایک ایسی زبان ہے جو سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.

زبان کسی بھی فرد،معاشرے یا ملک کی ہو بہت اہمیت رکھتی ہے۔ایسی زبان نے ابلاغ کو موئثر بنانے اور لوگوں کو اپنے احساسات اور تصورات کی ترسیل اور تبادلہ خیال میں مدد دی ہے۔دُور جدید میں زبان کی اہمیت سے انکار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔زبان کسی بھی معاشرے ،طبقے اور تہذیب کی نمائندہ ہوتی ہے۔جہاں زبان ابلاغ کے عمل کی تکمیل کرتی ہے وہیں یہ زبان دنیا میں موجود مختلف تہذیبوں کے درمیان انفرادیت کا سامان بھی پیدا کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ آج کی ترقی یافتہ قومیں اپنی زبان پر بہت فخر کرتی ہیں۔جبکہ تیسری دنیا کے ممالک یا ترقی پذیر ممالک اس غلط تصور یا غلط فہمی میں مبتلا ہیںکہ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی زبان اپنالیں گے تو شاید ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو جائیں گے۔

تاہم انگریزی آج کے دور کی چندزبانوں میں سے ایک ہے جو اپنی اہمیت کے باعث پوری دنیا میں ابلاغ کا بہتر ذریعہ سمجھی جاتی ہیں،اور اسے عالمی زبان (گلوبل لینگوئج) کا درجہ حاصل ہے۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح اس زبان نے کافی حد تک ہماری زبان اور تہذیب کو متاثر کیا ہے، قیامِ پاکستان کے بعد اردو زبان کو ہماری قومی زبان کا درجہ دیا گیا،جس کے پس منظر میں دو بڑی وجوہات کار فرما ہیں۔ایک تو ــ'' اُردو ہندی تنازعہ'' اور دوسرا یہ کہ اردو زبان ایک ایسی زبان ہے جسے لشکری زبان کا درجہ حاصل ہے،یعنی اس میں اور بہت سی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں،جیسے سنسکرت،فارسی،عربی اور ہندی وغیرہ۔

اُردو حقیقت میں ایک ایسی زبان ہے جو سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،جس کے الفاظ کی ادائیگی کے ایک ایک لفظ کے ساتھ چاشنی اور مٹھاس ٹپکتی ہے،مگر افسوس کہ آج ہم اپنے قیمتی اثاثے کو کھوتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی شناخت اور تشخیص کا باعث بننے والی زبان کو بولنے میں عار اور شرم محسوس کرتے ہیں۔آج کے معاشرے میں ایک عجیب سا تصور فروغ پا رہا ہے کہ انگریزی بولنے والا شخص یقینا ایک اچھے طبقے سے تعلق رکھتا ہو گا اور معاشرہ اسے اچھے مقام پر فائز کرتا ہے اور اسے عزت دیتا ہے۔جبکہ ایک اُردو بولنے والا شخص چاہے کتنا بھی قابل اور لائق ہی کیوں نہ ہو معاشرہ اُسے وہ عزت و احترام نہیں دیتا جس کا وہ مستحق ہوتا ہے۔

کیا معاشرے کی یہ تفریق نا اتفاقی پر مبنی نہیں؟یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آخر معاشرے میں یہ تصور فروغ کیسے پایا؟

یہاں اور بہت سے عوامل کے ساتھ ایک اہم عنصر ہمارا تعلیمی نظام بھی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام میں انگریزی پر اتنی توجہ دی جا رہی ہے کہ تمام کا تمام نصابی کورس انگلش میں منتقل کردیا گیا ہے، پہلے زمانے میں سیکنڈری سیکشن میں انگریزی تعلیم کا آغاز کیا جاتا تھا میں خود جب پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد غالباََ 2003ء میں گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول گوجرہ گیا ،تو چھٹی جماعت میں پہلے دن دیا جانے والا ہوم ورک Aسے Fتک ABCتھا۔

آج ہم ثقافتی یلغار کے زِیر اثر اپنی اقدار و روایات،زبان غرض ہر چیز کو بھولتے جا رہے ہیں۔اور یہاں یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی نظر آتی ہے کہ دور جدید میں جنگیں پرانے وقتوں کی طرح توپوں اورگولیوں سے نہیں ہو گی بلکہ ہر قوم دوسری قوم کی تہذیب و ثقافت ختم کر کے اس کی بقاء کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔آج ہم بھی ایسی ہی ثقافتی جنگی کشمکش میں مبتلا ہیں۔چاروں صوبوں کو 65سال تک متحد رکھنے والی اُردو زبان کو بولنے سے آج ہم کتراتے اور گھبراتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان اپنی تہذیب،اقدار،زبان،روایات حتی کہ مذہب کے بارے میں اتنا نہیں جانتا جتنا وہ انگلش زبان کا علم رکھتا ہے۔کیا ہم نے یہ ملک اس لئے حاصل کیا تھا کی دُنیا میں اپنی پہچان بنانے کے بعد وہی لوگ جن سے ہم نے وطن حاصل کیا تھا دوبارہ یہاں اِن کی روایات کو فروغ دیں؟


الودع اردو

سنو۔۔۔!یہ فخر سے ہم بھی اک راز فاش کرتے ہیں

کبھی ہم موں بھی دھوتے تھے، مگراب ہم Wash کرتے ہیں

تھا بچوں کیلئے بھوسا ،مگر اب ہم Kiss ہی کرتے ہیں

ستاتی تھی کبھی یادیں ،مگر اب Miss ہی کرتے ہیں

چہل قدمی کبھی کرتے تھے اور اب Walk کرتے ہیں

کبھی کرتے تھے ہم باتیں،مگر اب Talk کرتے ہیں

کبھی جو ماں/باپ تھے ،وہی اب Mummy/Papa ہیں

کبھی جو تھا غسل خانہ،بنا وہ Bathroom آخر

بڑا جو کیا درجہ،بنا وہ Washroom آخر

کبھی تو درد ہوتا تھا،مگر اب Pain ہوتا ہے

پڑھائی کی جگہ اب تو Knowledge gain ہوتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں