ایران کا جوہری معاہدہ
امریکا، ایران کے درمیان ایٹمی مذاکرات کی کامیابی کا امکان بڑھ گیا ہے
کراچی:
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کا اگلا دور یورپی یونین کے مطابق آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہو گیا ہے۔
دوسری طرف تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب رابرٹ میلے نے کہا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی امید کے ساتھ مزید مذاکرات کے لیے ویانا پہنچیں گے۔ امریکی مندوب کے مطابق انھیں امید ہے کہ 2015کے جوہری معاہدے کو مذاکرات کے ذریعے بحال کیا جا سکتا ہے۔
جولائی 2015 میں امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور چین نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا ۔ جسے عام طور پر ایران ،ا مریکہ جوہری معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گو اس معاہدے پر ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے شدید اعتراضات کیے گئے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر اوباما کے دور میں کیا گیا۔ جو مسلسل امریکا کے8سال صدر رہ کر امریکی تاریخ کے پہلے بلیک صدر بن گئے۔ یہ معاہدہ جب منظر عام پر آیا تو پوری دنیا حیران رہ گئی۔ کیونکہ امریکا ، ایران طویل دشمنی کے پس منظر میں کسی کو اس کی امید نہیں تھی۔
اس معاہدے کے حوالے سے مذاکرات اس قدر خفیہ تھے کہ اوباما انتظامیہ نے اپنے سب سے قریبی حریف اور مشرق وسطیٰ میں اپنے سب سے بڑے با اعتماد اتحادی اسرائیل کو اس کی ہوا بھی لگنے نہیں دی۔
چنانچہ معاہدہ ہونے کے فوراً بعد اسرائیل اور امریکی ری پبلیکن پارٹی اس معاہدے کے خاتمے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ شومئی قسمت سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آ گئے جنھوں نے بہت پہلے ہی اپنی انتخابی مہم میں اعلان کر دیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں اس معاہدے پر خط تنسیخ پھیر دیں گے۔ پھر ایسے ہی ہوا۔ اگرچہ ایران نے ٹرمپ کے اس فیصلے پر ابتداء میں بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ یورینیم کی افزودگی بڑھا دی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ نے امریکا کے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کا اعلان کیا۔ مگر امریکا یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکا اقتصادی پابندیوں کے ذریعے نہ تو ایران کو جوہری پروگرام سے روک سکا اور نہ مشرق وسطی میں اپنے دوسرے مقاصد پوری طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ٹرمپ کی پابندیوں کے باوجود واشنگٹن پوسٹ کے مطابق آج ایران اس پوزیشن میں ہے کہ اس کے پاس محض چند ہفتوں میں کئی ایٹم بم بنانے کا مواد موجود ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد ایران سے کئی مرتبہ جوہری ڈیل بحال کرنے کا کہا لیکن ایران نے اس حوالے سے کوئی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ امریکا نے اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملے کی دھمکیاں دلوائیں۔ امریکی اتحادیوں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی نے جوہری معاہدے کی تنسیخ پر بڑی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے امریکا پر شدید دباؤ ڈالا کہ وہ اس عالمی معاہدے کی پاسداری کرے جس کی سلامتی کونسل گارنٹر ہے لیکن ٹرمپ نے مان کر نہ دیا۔
یہاں تک کہ شدید امریکی دباؤ کے نتیجے میں خود امریکی اتحادی بھی اس کے ہمنواء ہو گئے۔ چنانچہ یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکا ، ایران کے لیے اور زیادہ ناقابل اعتبار ہو گیا اور عالمی سطح پر ایران کے اس موقف کو اور زیادہ پذیرائی ملنی شروع ہو گئی کہ ایسے ملک سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں جو اپنے عالمی معاہدے پر قائم ہی نہ رہے۔
اوباما دور کے جوہری معاہدے کی شرط یہ تھی کہ ایران 2031 تک اپنا جوہری پروگرام منجمد رکھے گا۔ دوبارہ ہونے والے مذاکرات میں تہران ٹرمپ دور کی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں اپنا جوہری پروگرام سابقہ طے شدہ مدت تک منجمد رکھنے پر آمادگی ظاہر کر رہا ہے۔ وہ معاہدہ جو 2015 میں ہوا۔ آج کل جو مذاکرات امریکا اور ایران کے عالمی ثالثوں کے ذریعے ہو رہے ہیں اس میں ایران اپنے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ اپنے میزائل پروگرام کو بھی مذکورہ بالا مدت تک منجمد کر دے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ویانا سے موصول ہونے والی حالیہ رپورٹس کے مطابق معاملات طے ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور اب امریکا، ایران کے درمیان ایٹمی مذاکرات کی کامیابی کا امکان بڑھ گیا ہے۔
جب کہ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ایران سے ہونے والے کسی معاہدے کا پابند نہیں۔ دوسری طرف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں کامیاب ہونے کی صورت میں دوبارہ اس ہونے والے معاہدے کو مسترد کر دینگے۔ وہ جوہری معاہدہ جو ٹرمپ نے برسر اقتدار آ کر ختم کر دیا تھا اس کے بحال ہونے کے امکانات فروری کے آخر سے مارچ کے آخر کے درمیان ہیں۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کا اگلا دور یورپی یونین کے مطابق آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہو گیا ہے۔
دوسری طرف تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب رابرٹ میلے نے کہا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی امید کے ساتھ مزید مذاکرات کے لیے ویانا پہنچیں گے۔ امریکی مندوب کے مطابق انھیں امید ہے کہ 2015کے جوہری معاہدے کو مذاکرات کے ذریعے بحال کیا جا سکتا ہے۔
جولائی 2015 میں امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور چین نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا ۔ جسے عام طور پر ایران ،ا مریکہ جوہری معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گو اس معاہدے پر ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے شدید اعتراضات کیے گئے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر اوباما کے دور میں کیا گیا۔ جو مسلسل امریکا کے8سال صدر رہ کر امریکی تاریخ کے پہلے بلیک صدر بن گئے۔ یہ معاہدہ جب منظر عام پر آیا تو پوری دنیا حیران رہ گئی۔ کیونکہ امریکا ، ایران طویل دشمنی کے پس منظر میں کسی کو اس کی امید نہیں تھی۔
اس معاہدے کے حوالے سے مذاکرات اس قدر خفیہ تھے کہ اوباما انتظامیہ نے اپنے سب سے قریبی حریف اور مشرق وسطیٰ میں اپنے سب سے بڑے با اعتماد اتحادی اسرائیل کو اس کی ہوا بھی لگنے نہیں دی۔
چنانچہ معاہدہ ہونے کے فوراً بعد اسرائیل اور امریکی ری پبلیکن پارٹی اس معاہدے کے خاتمے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ شومئی قسمت سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آ گئے جنھوں نے بہت پہلے ہی اپنی انتخابی مہم میں اعلان کر دیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں اس معاہدے پر خط تنسیخ پھیر دیں گے۔ پھر ایسے ہی ہوا۔ اگرچہ ایران نے ٹرمپ کے اس فیصلے پر ابتداء میں بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ یورینیم کی افزودگی بڑھا دی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ نے امریکا کے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کا اعلان کیا۔ مگر امریکا یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکا اقتصادی پابندیوں کے ذریعے نہ تو ایران کو جوہری پروگرام سے روک سکا اور نہ مشرق وسطی میں اپنے دوسرے مقاصد پوری طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ٹرمپ کی پابندیوں کے باوجود واشنگٹن پوسٹ کے مطابق آج ایران اس پوزیشن میں ہے کہ اس کے پاس محض چند ہفتوں میں کئی ایٹم بم بنانے کا مواد موجود ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد ایران سے کئی مرتبہ جوہری ڈیل بحال کرنے کا کہا لیکن ایران نے اس حوالے سے کوئی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ امریکا نے اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملے کی دھمکیاں دلوائیں۔ امریکی اتحادیوں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی نے جوہری معاہدے کی تنسیخ پر بڑی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے امریکا پر شدید دباؤ ڈالا کہ وہ اس عالمی معاہدے کی پاسداری کرے جس کی سلامتی کونسل گارنٹر ہے لیکن ٹرمپ نے مان کر نہ دیا۔
یہاں تک کہ شدید امریکی دباؤ کے نتیجے میں خود امریکی اتحادی بھی اس کے ہمنواء ہو گئے۔ چنانچہ یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکا ، ایران کے لیے اور زیادہ ناقابل اعتبار ہو گیا اور عالمی سطح پر ایران کے اس موقف کو اور زیادہ پذیرائی ملنی شروع ہو گئی کہ ایسے ملک سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں جو اپنے عالمی معاہدے پر قائم ہی نہ رہے۔
اوباما دور کے جوہری معاہدے کی شرط یہ تھی کہ ایران 2031 تک اپنا جوہری پروگرام منجمد رکھے گا۔ دوبارہ ہونے والے مذاکرات میں تہران ٹرمپ دور کی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں اپنا جوہری پروگرام سابقہ طے شدہ مدت تک منجمد رکھنے پر آمادگی ظاہر کر رہا ہے۔ وہ معاہدہ جو 2015 میں ہوا۔ آج کل جو مذاکرات امریکا اور ایران کے عالمی ثالثوں کے ذریعے ہو رہے ہیں اس میں ایران اپنے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ اپنے میزائل پروگرام کو بھی مذکورہ بالا مدت تک منجمد کر دے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ویانا سے موصول ہونے والی حالیہ رپورٹس کے مطابق معاملات طے ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور اب امریکا، ایران کے درمیان ایٹمی مذاکرات کی کامیابی کا امکان بڑھ گیا ہے۔
جب کہ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ایران سے ہونے والے کسی معاہدے کا پابند نہیں۔ دوسری طرف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں کامیاب ہونے کی صورت میں دوبارہ اس ہونے والے معاہدے کو مسترد کر دینگے۔ وہ جوہری معاہدہ جو ٹرمپ نے برسر اقتدار آ کر ختم کر دیا تھا اس کے بحال ہونے کے امکانات فروری کے آخر سے مارچ کے آخر کے درمیان ہیں۔