ملکی ترقی میں خواتین کا کردار اہم مزید مواقع دینا ہونگے

خواتین کی شمولیت سے 10 برسوں میں ’جی ڈی پی‘ دوگناہوسکتی ہے


خواتین کے قومی دن کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

لاہور: 12 فروری کو ہر سال پاکستانی خواتین کا قومی دن منایا جاتا ہے جس میں خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے ہونے والی جدوجہد اور اقدامات کا جائزہ لے کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔

اس اہم دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عظمیٰ کاردار

(چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے جینڈر مین سٹریمنگ پنجاب اسمبلی )

ملک کی نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے ہر لحاظ سے اپنی ایک اہم حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا جب تک ہم اپنی خواتین کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تب تک ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی خواتین ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔

معیشت میں بھی ان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہماری خواتین ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ہماری تمام خواتین جی ڈی پی کا حصہ بن جائیں تو 10 برسوں میں ملک کی جی ڈی پی دوگنا ہوجائے گی۔

اس حوالے سے ہمیں بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا ہونگے۔ خواتین کو آگے بڑھنے کیلئے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔اس حوالے سے تین اہم کام ہے جن پر ہم توجہ دے رہے ہیں۔ پہلا کام تعلیم، دوسرا سکلز ڈویلپمنٹ اور تیسرا خواتین کی مین سٹریمنگ ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ان پر کام کرنے کا پابند ہے، ہم ان اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہیں اور معاشرے کے تمام کمزور طبقات کو آگے لانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں.

ان میں خواتین، خواجہ سراء، خصوصی افراد و دیگر شامل ہیں۔خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے پاکستان میں کافی کام ہوا ہے۔ 2012ء میں ویمن ڈویلپمنٹ ڈویژن بنایا گیا، یہ خواتین کی وزارت ہے جو ان کیلئے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح خواتین کے تحفظ کیلئے خاتون محتسب کا ادارہ بھی فعال ہے جوہراسمنٹ اور وراثت کے معاملات دیکھ رہا ہے۔

وراثت کے کیسز حل کرنے کا اختیار ملنے سے خاتون محتسب کے ادارے کے پاس ان کیسز کی بھر مار ہوگئی ہے، اس وقت بھی تقریباََ 400 کے قریب کیسز موجود ہیں، دو ماہ میں ان کا فیصلہ کرکے متاثرہ خاتون کو اس کا حق دلوایا جاتا ہے۔

اس اقدام سے کافی بہتری آئی ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کیلئے ہراسمنٹ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے تقریباََ 90 فیصد لڑکیاں کسی نہ کسی طرح ہراساں ہورہی ہیں، اس حوالے سے 2018ء میں وویمن پروٹیکشن اتھارٹی بنائی گئی، اب پنجاب میں وویمن پروٹیکشن ایپ بھی بنائی گئی ہے جو خواتین کو تحفظ دینے کے لیے بہترین ہے۔

اس کی آگاہی کیلئے اب تک 12 یونیورسٹیز میں سیشنز منعقد کیے جاچکے ہیں اور آگاہی کا یہ سلسلہ مزیدجاری ہے۔یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں بہت زیادہ قانون سازی ہوچکی ہے اور اس وقت اصل مسئلہ عملدرآمد کا ہے، ہم اس میکنزم کو تیز کررہے ہیں جس سے کافی بہتری آئی ہے۔

ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ہماری خواتین گھروں سے کام کر کے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس وقت پنجاب میں 12 ملین ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جنہیں تحفظ دینے کیلئے پنجاب واحد صوبہ ہے جو ہوم بیسڈ ورکرز کا بل لایا تاہم ابھی تک اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے۔

ہماری 80 فیصد معیشت غیر رسمی ہے جس میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ خواتین کی حالت زار بہتر بنانے اور انہیں امپاور کرنے میں ہماری نیت ٹھیک ہے اور ہم ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

اب سمیڈا کے ذریعے خواتین کو خصوصی قرضے دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں اور کاروبار کو وسیع کر سکیں۔ فیئر رپریزنٹیشن ایکٹ سے خواتین کو فائدہ ہوا، اب سیکرٹری لیول پر بھی خواتین نظر آرہی ہیں، کابینہ میں 2 فیصد خواتین ہیں جبکہ پارلیمنٹ میں خواتین کی ایک اچھی تعداد موجود ہے۔

مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کی نشست ایک سے بڑھا کر دو کر دی گئی ہے جبکہ جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ دینے کے حوالے سے کوٹہ مختص کرنے پر بھی مشاورت جاری ہے۔ خواتین سیاستدان کافی متحرک ہیں اور ہر فورم پر اپنا کردار موثر اندازمیں ادا کر رہی ہیں جس سے نہ صرف خواتین بلکہ معاشرے کے مسائل بھی حل ہورہے ہیں۔

بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک بات اہم ہے کہ پرائمری کے بعد لڑکیاں سکول سے ہٹا لی جاتی ہے، انہیں ماحول، ٹرانسپورٹ و دیگر بے شمار مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے اب سیکنڈ شفٹ اسکولوں کا آغاز بھی کیا گیا ہے اور بچیوں کو سازگار ماحول دیا گیا ہے جس سے ان کی انرولمنٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ہم انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

پنجاب میں خواتین کے شناختی کارڈاور ووٹ کے اندراج کے حوالے سے بھی وسیع پیمانے پر کام ہورہا ہے،ا س میں نادرا، الیکشن کمیشن، سول سوسائٹی و دیگر ادارے ہمارے ساتھ تعاون کے ذریعے موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیں من حیث القوم آگے بڑھنا ہوگا اور معاشرے کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔

پروفیسر ڈاکٹر سیدہ مہناز حسن

(چیئرپرسن سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی )

خواتین کے حوالے سے قانون سازی کے وقت دیکھنا یہ ہے کہ کس خاتون کیلئے قانون بنا یا جا رہا ہے۔ وہ خاتون دیہی ہے یا شہری۔ اگر دیہی علاقے سے تعلق رکھتی ہے تو کیا وہ کسی غریب ہاری کی بیٹی ہے یا کسی جاگیردار وڈیرے کی، کیا وہ خود کسان ہے یا سیاست میں ہے؟

اگر شہری خاتون ہے تو کیا وہ کسی پوش علاقے میں رہتی ہے یا پسماندہ علاقے میں؟ قانون سازی اتنا سادہ اور آسان عمل نہیں ہے جتنا ہمارے ہاں لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری خواتین کی زندگی میں تبدیلی تو آئی ہے مگر تمام خواتین کی زندگی میں نہیں آئی۔

ہمارے ہاں حد سے زیادہ قانون سازی ہوچکی ہے جبکہ اصل مسئلہ تو عملدر آمد کا ہے جس کیلئے میکنزم بنانا چاہیے۔ اچھا ملک وہ ہے جہاں ہر شخص کو اس کے ٹیلنٹ اور پوٹینشل کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو، کیا ہم اس منزل پر گامزن ہیں؟ جینڈ گیپ انڈیکس کی بات کریں تو پاکستان 154 ممالک میں سے 152 ویں نمبر پر ہے جو افسوسناک ہے، اس سے خواتین کی حالت زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مزدور کا لفظ صرف مرد سے منسوب کیا جاتا ہے اور خواتین کی محنت مزدوری کو کسی کھاتے میں نہیں لکھا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی کارپٹ، ٹیکسٹائل، فیبرک و کھیل کی صنعتیں خواتین کی وجہ سے چل رہی ہیں، شیخوپورہ، پسرور، سیالکوٹ و جنوبی پنجاب کے شہروں سمیت ملک بھر میں خواتین گھروں سے کام کر رہی ہیں اور جی ڈی پی میں مردوں کی نسبت زیادہ حصہ ڈال رہی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، انہیںا ن کے کام کا صحیح معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی سہولیات بلکہ انہیں تو مزدور ہی تسلیم نہیں کیا جاتا جو افسوسناک ہے۔

ان خواتین کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو پراڈکٹ وہ تیار کر رہی ہیں اس کی مارکیٹ میں کیا قیمت ہے، وہ خواتین امپاور نہیں ہیں، اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ خواتین کو وسائل تک رسائی تو ہے مگر وسائل کا کنٹرول ان کے پاس نہیں ہے۔ دنیا کی صرف 1 فیصد خواتین کے نام پر وسائل ہیں جبکہ 99 فیصد وسائل پر مردوں کا کنٹرول ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی زیادہ وسائل مردوں کے پاس ہیں جس کی وجہ سے خواتین کی حالت ابتر ہے.

انہیں فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جاتا۔ وسائل کی ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے خواتین مائیکرو کریڈٹ سکیم، لیبر پالیسی و دیگر اقدامات سے فائدہ نہیں اٹھا پاتی،اسی طرح خواتین کو وراثت کے حصول میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔

پنجاب کی عورت نے جاگیردارانہ سوچ کو قبول نہیں کیا، وہ مردوں سے زیادہ کام کر رہی ہے اور خود اپنا روزگار کما رہی ہے مگر اس کے باوجود کپاس، پھل و سبزیاں اگانے اور چننے والی خواتین کو کسان تسلیم نہیں کیا جاتا، ہمیں ان مخفی ورکرز کو شناخت دینا ہوگی۔بدقسمتی سے ہماری حکومت کو تعلیم یافتہ، قابل افراد اور محققین کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کو میٹنگز اور فیصلہ سازی میں پڑھی لکھی خواتین کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ان سے پالیسی سازی میں فائدہ نہیں اٹھایا جاتا لہٰذا جب تک 'ڈائننگ روم' میں پالیسیاں بنتی رہیں گی تب تک نہ خواتین کی حالت بہتر ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ ہوگا۔

ہمیں معاشرے کی ذہنیت بدلنے کیلئے کام کرنا ہوگا، اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے، اس کیلئے فیملی انسٹی ٹیوشن انتہائی اہم ہے، گھر سے ہی عورت کا مقام بنا یا جائے، لڑکے اور لڑکی دونوں کی تربیت کی جائے اور انہیں سکھایا جائے کہ کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے اور کس طرح عورت کو اس کے حقوق اور عزت دینی ہے۔اس کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔

بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی )

مجموعی طور پر پاکستانی خواتین نے ترقی کی ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ نئی نسل نے خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے، خواتین نے خود آگے بڑھنے کے نئے راستے نکالے ہیں اور اب ہر شعبے میں خواتین اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔

میرے نزدیک خواتین کو ان کے حقوق دیے بغیر انسانی حقوق کی ترقی نہیں ہوسکتی۔ پاکستانی خواتین کو اس کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اس کیلئے کام کر رہی ہیں۔پاکستان میں خواتین کے حقوق کی آواز تحریکی انداز میں پھیلی۔ پاکستانی خواتین نے آمریت کے سخت ترین دورمیں اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے انفرادی، سیاسی اور تحریکی انداز میں جدوجہد کا آغاز کیا جو قابل تحسین ہے۔

وویمن ایکشن فورم کی شکل میں دور آمریت میں ترقی پسند مرد و خواتین نے منظم آواز اٹھائی اور خواتین کو آگاہ کیا کہ کس طرح انہیں دیوار سے لگایا جارہا تھا، پھر جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں، ریاست کی جانب سے ان پر بدترین تشدد کیا گیا، گرفتاریاں ہوئیں مگر خواتین کے حقوق کیلئے عملی طور پر جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔

اس جدوجہد نے آج کی خواتین کو نظریاتی تقویت دی، حقوق کیلئے نعرے دیے اور خواتین کے مسائل کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا۔ پاکستانی خواتین نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی عورت زندہ اور باشعور ہے ۔

ویمن ایکشن فورم نے اس دور میں جس طرح خواتین کی رہنمائی کی اس سے آج تک نئی نسل فائدہ اٹھا رہی ہے۔ آج خواتین کی ایک بڑی تعداد پارلیمنٹ میں موجود ہے جو مردوں سے بہتر پرفارم کر رہی ہے، خواتین رکن اسمبلی زیادہ متحرک ہیں اور ہر معاملے میں تاریخ رقم کر رہی ہیں، اسی طرح کھیل و دیگر شعبوں میں بھی خواتین ملک و قوم کا نام روشن کر رہی ہیں، انہوں نے خود اپنے لیے راہ متعین کی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک جس طرح مردوں کا ہے.

اسی طرح خواتین کا بھی ہو۔ خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع، سازگار اور ہراسمنٹ سے پاک ماحول دینا ہوگا۔غیر رسمی شعبے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کام کر رہی ہے، جو ملکی جی ڈی پی میں اہم حیثیت رکھتی ہیں، انہیں بنیادی انسانی حقوق دینا ہونگے۔ خواتین کوتعلیم، صحت، کھیل و دیگر شعبوں میں یکساں مواقع فراہم کرنے سے ملک کی نیک نامی ہوگی اور دنیا میں اچھی شناخت قائم ہوگی۔

آمنہ افضل

(سماجی کارکن)

میرا تعلق شاہدرہ سے ہے جو پسماندہ علاقہ ہے، ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلوائی جاتی۔ میری والدہ بھی تعلیم یافتہ نہیں ہیں مگر انہوں نے شدید مخالفت کے باوجود مجھے تعلیم دلوائی، جدید چیزیں سیکھنے کیلئے کورسز کروائے اور میری حوصلہ افزائی کی۔

آج میرے خاندان اور رشتہ داروں میں بھی لڑکیوں کو پڑھانے کا رجحان پیدا ہوا ہے، ہمیں تمام لڑکیوں کو پڑھنے کیلئے سازگار ماحول، محفوظ ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات دینا ہونگی۔ لڑکیوں کیلئے لائبریریز قائم کی جائیں۔ سیاست، معیشت ، سماجی زندگی اور گھریلو فیصلوں میں خواتین کو شامل کیا جائے، گھر سے ہی خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرکے اعتماد دیا جائے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

خواتین کے لیے قانون سازی کافی بہتر ہوئی ہے تاہم عملدرآمد کے مسائل ہیں، جنہیں حل کرنا ہوگا۔ لڑکیوں کو دوران سفر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں نے سکوٹی خریدی ہے، اپنی بہن کو بھی سکھائی ہے، میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں کا ذہن تبدیل کرنے میں وقت لگے گا ، ہمیں اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ تبدیلی چاہے آہستہ آئے مگر اسے جاری رہنا چاہیے، ہمیں پائیدار اقدامات کی طرف جانا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔