سعودی ولی عہد کا دورہ اور تعاون کی یقین دہانیاں

وزیراعظم نواز شریف بھی قیام امن کی خاطر آپریشن کی بجائے بات چیت کا آپشن اپنانے کے بعد عجیب مخمصے کا شکار ہو چکے ہیں

سالانہ 13.9 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیج کر ملکی اقتصادی صورتحال کا سہارا دینے والے اوورسیز پاکستانیوں میں سب سے بڑا حصہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا ہے۔ فوٹو : فائل

سعودی عرب کے ولی عہد، نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اپنا 3 روزہ دورۂ پاکستان مکمل کرکے اپنے وطن سعودی عرب روانہ ہو چکے ہیں۔

وزیراعظم محمد نواز شریف کے گزشتہ سال 5 جون کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کسی بھی غیر ملکی مہمان کا یہ سب سے اہم اور ہائی پروفائل دورہ تھا۔ امریکہ، چین، ترکی، برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے رہنما گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران پاکستان کے دورے کر چکے ہیں مگر عالمی سیاست کے بدلتے تناظر میں سعودی ولی عہد کا دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بالخصوص شام اور ایران کی بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان اور سعودی عرب کا اپنے دیرینہ برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا اعادہ اقوام عالم کے لیے خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے اعزاز میں وزیراعظم ہاؤس میں ایک شایانِ شان پرتکلف عشائیہ دیا اور اس سے قبل اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات برادرانہ سے بڑھ کر ہیں۔ یہ وہ جذبہ ہے جس کی سعودی شاہی قیادت کو پاکستانی اور پاکستانی قیادت سے توقع ہے۔

سعودی حکام کی جانب سے پاکستان بھر کی چیدہ چیدہ شخصیات کے اعزاز میں ایک روز قبل پنجاب ہاؤس میں شاہی عشائیہ دیا گیا۔ سعودی حکام کی جانب سے پاکستان کی چیدہ چیدہ شخصیات کے ذریعے عام آدمی تک اپنی نیک خواہشات پہنچانے کا یہ اچھا آغاز ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان کے ذمہ داران سعودی حکام کو صاف صاف الفاظ میں تو نہیں بتا سکے کہ ہمیں کس کس ترقیاتی منصوبے کے لیے سعودی امداد درکار ہے البتہ ان شعبوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے جن میں اگر سعودی حکومت پاکستان کی معاونت کرے تو سعودی عرب کو دل و جان سے چاہنے والے 19 کروڑ عوام کا یہ ملک اپنی حالیہ بحرانی کیفیت سے نکل کر تعمیر و ترقی و خوشحالی کے نئے سفر پر گامزن ہوسکتا ہے اور سعودی عرب کے شانہ بشانہ عالمی سیاست میں اہم ترین کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان کو درپیش چیلنجز میں اہم ترین امن عامہ کی صورتحال دہشت گردی سے نجات اور توانائی کے بحران سے نکلنا ہے۔ توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے سعودی حکام پاکستان کو آسان شرائط پر قرض ہی دے دیں تو پاکستان آئندہ چند برسوں میں ہی دیگر تمام مسائل پر قابو یوں پا سکتا ہے کہ اس کے پاس دنیا کے اہل ترین انسانی وسائل اور عالمی دماغ موجود ہیں۔

اس موقع پر سعودی اور پاکستانی قیادت کو اعلانات سے زیادہ عملی طور پر ایک دوسرے سے تعاون پر توجہ دینا ہوگی کہ اقوام عالم کی نظروں میں پاکستان اورسعودی عرب کا مثالی اتحاد کھٹکتا بھی بہت ہے کہ انہیں بجا معلوم ہے کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستانی اور عرب دنیا کی حقیقی اقتصادی پاور اگر سرجوڑ کے بیٹھ گئے تو پھر انہیں ناقابل تسخیر اتحادی بنانے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ مجموعی طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کا دورۂ پاکستان انتہائی کامیاب رہا پاکستان کے لیے اس فوری مالی فوائد میں سے ساڑھے 18 کروڑ ڈالر کی امداد اور برآمدی قرض کی سہولت کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں مگر اس سے بڑھ کر وہ یقین دہانی ہے جو سعودی ولی عہد نے وزیراعظم نواز شریف کو کرائی کہ دونوں ممالک ہر مشکل وقت میں ماضی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔


اس وقت بھی روزگار کے سلسلہ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد سعودی عرب میں قیام پذیر ہے۔ سالانہ 13.9 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیج کر ملکی اقتصادی صورتحال کا سہارا دینے والے اوورسیز پاکستانیوں میں سب سے بڑا حصہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا ہے کہ وہ سالانہ 4 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ مزید معاہدات کی صورت میں توقع ہے کہ مزید پاکستانی حصول روزگار کی خاطر سعودی عرب کا رخ کریں گے۔



شنید تھی کہ سعودی حکام کے دورۂ پاکستان کے دوران سابق صدر پرویز مشرف کے مستقبل کے حوالے سے بھی بات چیت ہو گی مگر وزیر اطلاعات پرویز رشید نے یہ کہہ کر سارے امکانات ہی ختم کر دیے کہ اللہ کی قسم سعودی ولی عہد نے پرویز مشرف کا ذکر تک نہیں کیا۔ شاید یہ اس شدید مایوسی کا ہی نتیجہ ہے کہ ''میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں'' فیم پرویز مشرف اگلے روز ہی 16 روز تک آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں زیر علاج رہنے کے بعد آئین سے غداری کے زیر سماعت کیس میں پیشی کے لیے خصوصی عدالت آن پہنچے۔ انہوں نے ہسپتال سے نکلتے ہوئے ڈاکٹروں کو اپنے دستخطوں سے لکھ کے دیا کہ وہ اپنی مرضی سے ہسپتال چھوڑ رہے ہیں۔ ابھی ان پر فرد جرم تو عائد نہ ہو سکی ہے البتہ امکان یہی ہے کہ خصوصی عدالت کا اختیارِ سماعت طے ہو جانے کے بعد معاملات تیزی سے آگے بڑھیں گے۔

دوسری جانب یکم مارچ 2014 کو لال مسجد کیس کی آئندہ سماعت کے موقع پر لال مسجد شہداء فاؤنڈیشن کے وکلاء ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد سے استدعا کریں گے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو عدالت طلب کیا جائے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے قریبی حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے بیرونی دنیا کے دوستوں اور اپنے بعض جذباتی وکلاء کے روّیوں سے تنگ آ کر از خود صورتحال کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اب وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ رات دن بیٹھیں گے اور ایک ایک مقدمہ کے ایک ایک نکتہ پر غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد آگے بڑھنے کے لیے ضروری فیصلے کریں گے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف بھی قیام امن کی خاطر آپریشن کی بجائے بات چیت کا آپشن اپنانے کے بعد عجیب مخمصے کا شکار ہو چکے ہیں ان کی اپنی کابینہ میں جب مذاکرات یا آپریشن کے معاملے پر رائے لی گئی تھی تو سوائے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے تقریباً تمام کابینہ ارکان آپریشن کے حق میں تھے جبکہ وزیر داخلہ اکیلے مذاکرات کے خواہاں تھے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں سول آبادی کو بھاری جانی و مالی نقصان سے بچانے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین عرفان صدیقی، میجر (ر) محمد عامر، رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند نے بھی وزیراعظم کی ہدایات کے عین مطابق مذاکراتی عمل پوری نیک نیتی اور خلوص سے شروع کیا۔

طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے ایک رکن کے سوا باقی تینوں اراکین مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم خان اور مولانا یوسف شاہ سے بھی معمولی لغزشوں کے سوا کوئی بڑی غلطی سرزد نہ ہوئی۔ پوری پاکستانی قوم کو یہ امید ہو چلی تھی کہ اب جنگ بندی کا اعلان ہونے کو ہی ہے کہ اچانک تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی جانب سے ایف سی کے 23 اہلکاروں کے قتل کے دعوے نے صورتحال یکسر بدل دی۔

وزیراعظم نواز شریف بھی اپنی مذاکراتی ٹیم کے ہمراہ گھنٹوں اس الجھن سے نکلنے کے راستے تلاش کرتے رہے کہ اب مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے یا فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کر دیا جائے، توقع ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران حکومتی مذاکراتی کمیٹی اپنے مشاورتی اجلاس اور طالبان کمیٹی سے بیک ڈور رابطوں کے بعد ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرے گی اور اس کے بعد ہی طالبان کی جانب سے بلامشروط یکطرفہ جنگ بندی یا حکومت کی جانب سے آپریشن کا آپشن اختیار کرنے کا عندیہ دے دیا جائے گا۔ بہرحال حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے روح رواں عرفان صدیقی کے بقول اب قوم کو انتظار کی سولی پر مزید نہیں لٹکایا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ وقت تیزی سے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ بعض اوقات ہاتھوں سے لگائی گرہیں بعد ازاں دانتوں سے بھی نہیں کھلتیں۔
Load Next Story