اخلاقیات سے عاری سیاست
مخالفین کی کردار کشی اور بے ہودہ الزامات کا چلن ابتدا سے ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ رہا ہے
سیاست کے حمام میں سب ہی بے لباس ہیں۔ (فوٹو: فائل)
کچھ ایسی سیاسی بیان بازی نظروں سے گزری کہ کچھ تاسف، شرمندگی اور تکلیف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ سوچا کیوں نہ ماضی کی اُن باتوں کو یاددہانی اور سیکھنے سکھانے کی نیت سے ضبطِ تحریر میں لایا جائے، جو سیاستدانوں کے اخلاقی زوال کی عکاسی کرتی ہیں۔
یہ اوائل نوے کی دہائی کی بات ہے۔ میں ایک پرجوش اور سیاسی طور پر متحرک نوجوان تھا۔ والد مرحوم کی سرکاری مصروفیات، نواز شریف سے قربت اور پھر میرے کالج کا سیاسی ماحول میرے لیے نواز شریف کا سپاہی بننے کےلیے کافی تھے۔ غنڈہ گردی کی شدید خواہش کے باوجود گھریلو ماحول، تربیت اور والد صاحب کا عصا کچھ ایسی چیزیں تھیں جو ہمارے بگڑنے کی راہ میں شدت سے حائل تھیں۔ کالج کے تمام دوست نہ صرف ''خلیفہ'' میں شمار ہوتے تھے، بلکہ ہر قسم کی معاشرتی برائی میں پیش پیش تھے۔ ہم ان کے نئے نئے ہتھیاروں اور روز کے کارناموں کو حسرت و یاس سے دیکھتے اور سنتے، دل میں کڑھتے اور محلے میں آکر اپنے نام کے ساتھ ان کے واقعات کو لگا کر ڈینگیں مارنے کی ناکام کوشش کرتے۔ محلے میں بھی ایک سے ایک ''خلیفہ'' تھا، وہ ہماری بات سن کر کچھ ایسی طنزیہ نظروں سے دیکھتے کہ کچھ ہی عرصہ میں ہمیں یہ سلسلہ ترک کرتے ہی بنی۔
الیکشن کا دور دورہ تھا۔ 88 کی شکست میاں صاحب اور آئی جے آئی والوں سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔ والد صاحب جیسے اور بھی ایماندار و جاںفشانی سے کام کرنے والے افسران، جیسا کہ ڈاکٹر صفدر محمود، شعیب بن عزیز وغیرہ کی وجہ سے میاں صاحب کی حکومت پذیرائی اور ارتقا کی منازل تیزی سے طے کررہی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی گورنمنٹ پر سیکیورٹی رسک کے علاوہ ان کے شوہر نامدار کے کارنامے بطور دھبہ لگ چکے تھے۔ مگر پھر بھی وہ اپنی ذاتی قابلیت اور شخصیت کی وجہ سے قدرے بہتر سیاسی پوزیشن میں تھیں۔ میاں صاحب مرکز میں بطور اپوزیشن جانے کا فیصلہ کر تو چکے تھے مگر ان کو حکومت کے بغیر سیاست میں رہنا بڑا عجیب لگ رہا تھا اور سونے پہ سہاگہ کہ اب جنرل جیلانی کے پیش رو ان کو پیغامات دے رہے تھے کہ بھائی تم پر بہت سرمایہ کاری کرچکے اب سیکھنا سکھانا ختم اور خود بھی کچھ کرکے دکھاؤ، ورنہ آرام سے پانچ سال گزارو۔
میاں صاحب کے منہ کو حکومت کا خون لگ چکا تھا اور چونکہ وہ ایک سرمایہ دار تھے، یہ نقصان انہیں روزانہ کا نقصان نظر آرہا تھا اور ان کےلیے سوہان روح بنتا چلا جارہا تھا۔ ایسے میں میاں صاحب کو بطور حکمت عملی اور تو کچھ نظر نہ آیا، انہوں نے بے نظیر کی کردارکشی کے ذریعے ان کی شخصیت کے سحر کو توڑنے کا سوچا۔ افسرانِ بالا بشمول والد صاحب کی مجلس بلائی گئی اور یہ کام محکمہ اطلاعات کے ذمے لگا۔ باوجود اس کے کہ ذاتی طور پر سب افسران اس کے خلاف تھے مگر بادشاہ کے حکم کے آگے کیا مجال۔ ہم والد صاحب کی فون پر گفتگو سن کر سمجھنے کی کوشش تو کرتے ہی تھے کہ ان کے سرکاری و صحافی دوستوں، جیسا کہ مجیب شامی، ہارون رشید، شعیب بن عزیز، و دیگر کی محفلوں میں بالواسطہ شرکت کا موقع بھی ہماری سیاسی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرتا رہتا۔ ان سیاسی تجزیوں اور نت نئی معلومات کی بنیاد پر ہمیں بالآخر طلبا کی سیاسی سرگرمیوں میں کچھ مقام مل ہی گیا۔ اب اس ساری کہانی کے بعد آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
مسلم لیگ (اس وقت کی نون لیگ) کے پاس اسٹریٹ پاور نہیں تھی، یہ کردار ''جماعتیوں'' کے ذمے تھا۔ نون لیگ کے ہونہار سیاستدان (آج بھی سیاست میں ہیں، لہٰذا نام نہیں لوں گا) جماعتیوں کے مسلح نوجوانوں کے ساتھ آتے اور ہمیں پمفلٹ اور ٹریننگ دی جاتی۔ اس محفل کی چند خاص باتیں ہوتی تھیں۔ عامیانہ لطیفے، جو کہ ہماری دلچسپی، وابستگی اور تحریک کےلیے عمل انگیزی کا کام کرتے۔ دوسرا قیمے والے نان اور بوتلیں سافٹ ڈرنکس)۔ اس وقت ''شہد'' والی بوتلوں کا رواج عام نہیں ہوا تھا۔ تیسرا معروف سیاسی شخصیات کا بے تکلف ساتھ، جو کہ ان شخصیات کے نزدیک ہماری ڈینگوں کےلیے بہت ہی آسان، مجرب اور مفت نسخہ تھا۔ چوتھا ہمارے ہمعصر اور مخالف طلبا سے مقابلے کےلیے مواد جو کہ مسابقتی تسکین کےلیے نہایت کارآمد نسخہ تھا۔ آخری خاص بات تھی وہ پمفلٹ اور ٹریننگ جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔
یہ بے نظیر بھٹو کی سابقہ زندگی کی باتصویر عکاسی تھی، جو عموماً لغو اور بے بنیاد ہوتی مگر حقیقی تصاویر ہونے کہ وجہ سے پی پی اور ان کے جیالوں کےلیے سوہانِ روح بنتی جارہی تھی۔ مثلاً بے نظیر کی سگار نوشی کی تصویر تو صحیح ہوتی مگر اس میں چرس کا اضافہ میاں صاحب اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت خود کردیتے۔ یا وہ نصرت بھٹو کی بغیر بازو شیشے کا گلاس تھامے تصویر تو صحیح ہوتی مگر اس کے اندر شراب ڈالنے اور ڈانس کے تڑکے کی ذمے داری بھی میاں صاحب ہی اٹھاتے۔ بہرکیف، قصہ مختصر یہ کہ ہمیں اس داد و تحسین کے مزے آج بھی یاد ہیں جو ہمیں اپنے سیاسی اساتذہ سے تب ملتی جب بڑھ چڑھ کر اپنے سارے دن کی کارگزاری انہیں شام کی محفل میں سناتے، جس میں یقیناً مبالغہ آرائی کی ملمع کاری تو ہوتی مگر بے ہودگی و مخرب الاخلاق لوازمات واضح اور غالب ہوتے۔
ایک بار ٹرک کی چھت پر ہمیں سوار کرایا گیا کہ ہم ''نس بی بی، پج بی بی، شیر آیا شیر آیا'' کا ورد اس طرح کرتے ہوئے میاں صاحب سے اگلی سواری میں چلیں کہ سڑک کے اطراف کھڑے حامیوں و تماش بینوں کا خون گرما دیں۔ یاد رہے کہ اب یہ وہ وقت تھا جب بات سائیکل سے شیر تک اور آئی جے آئی سے لیگ تک جا پہنچی تھی۔ لہٰذا ''جماعتیے'' اب ہمیں اخلاقیات کا وہ بھولا ہوا درس دینا شروع ہوگئے تھے کہ جوان خون اب ان کی ضد میں میاں صاحب کی غلیظ سیاست کا اور زور و شور سے ساتھ دینے کو فرض اولین سمجھنا شروع ہوگیا تھا۔ جماعت کو میاں صاحب سے غداری کا مرتکب گردانا گیا۔ پی پی سیکیورٹی رسک (بوجوہ فوج)، فحاشی کی علمبردار (بہ کوشش میاں صاحب) اور بدعنوانی (بشکریہ زرداری) ٹھہری۔ رہے معصوم میاں صاحب تو وہ قوم کی نظروں میں ایسے مسیحا بن کر ابھرے کہ ان کو بائیں بازو کا واحد مخالف ترجمان جانا گیا۔ بھٹو اور یحییٰ خان کے ادوار کی فحاشی و بے حیائی سے سنی ہوئی قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ پی پی کا راستہ روکنے والا ''معصوم شکل کا شیر'' ہے تو سہی، بھلے بات کرنے کا سلیقہ و طریقہ ہو کہ نہ ہو۔
تو بات ہورہی تھی اس ٹرک کی۔ ہمیں یہ حکم ہوا کہ جب اس وقت کے حلقہ 98 (سابقہ 61/62) سے گزریں تو چونکہ یہ پی پی کا گڑھ یا یوں کہہ لیجئے کہ سخت حلقہ تصور ہوتا تھا تو اس میں اخلاق سے گرے ہوئے وہ پمفلٹ دھڑادھڑ بانٹے جائیں جس میں بے نظیر کی کردار کشی عیاں ہو۔ اور ساتھ میں وہ شرمناک نعرے لگوائے جاتے جو ہم اپنے گھر کے افراد کے سامنے دہرا نہیں سکتے تھے۔ نہ کل اور نہ ہی آج۔
مجھے اور دیگر کئی دوستوں کو چار سال بعد اس وقت سمجھ آیا کہ بے حیائی اور کردار کشی سیاست میں میاں صاحب کی مرہون منت ہے جب میاں صاحب نے اگلی بار ایک سیاسی بچے مگر ہمارے قومی ہیرو کی کردارکشی شروع کی۔ ہم ساتھ تو ابھی بھی میاں صاحب کے ہی تھے مگر کچا و سیاسی نابالغ ذہن اب تھوڑا تھوڑا سر اٹھا کر اپنے آپ سے کبھی کبھار سوال کی جسارت کرلیتا تھا کہ یہ اسلام کے علمبردار ضیاالحق کے جانشین یعنی میاں صاحب ایسی گندی باتوں کا سہارا ہی کیوں لیتے ہیں۔ مگر ہم اپنےذہن اور ضمیر کو ''میاں دے نعرے وجن گے'' کی لوری دے کر سلا دیتے۔ تو قارئین کرام، ہم ایسی سیاسی تربیت سے گزرے جس کی ماضی قریب میں کوئی روایت تھی نہ نظیر۔ یعنی شکست کا خوف آپ کو اپنی سطح سے اتنا گرا دے کہ صرف دو ہی چیزوں کا استعمال آپ کی جیت کو یقینی بناسکے اور وہ دو چیزیں ہوں کردار کشی اور پیسہ۔
آج بھی وہی سب کچھ جاری ہے اور شومئی قسمت کہ وقت کی بازی پلٹ چکی ہے۔ میاں صاحب کی صاحبزادی اب باپ دادا (اس میں دادا یعنی جنرل جیلانی سیاسی دادا ہیں) کا کاروبار سنبھالنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ اب دقّت یہ آرہی ہے کہ کردار کشی کیسے قائم رکھی جائے کہ بات پلٹ کر ''نانی بیٹی'' پر نہ آجائے۔ لیکن یہ بیماری اس قدر سرائیت کرچکی ہے کہ اب کیا نونی پٹواری تو کیا یوتھیا، اور کیا جیالا تو کیا جعلی ملا... اس حمام میں سب ہی بے لباس ہیں۔
یہ سطور تب لکھنی شروع کیں جب غریدہ نامی ایک صحافی خاتون نے اپنے پروگرام میں چار مرد حضرات کی حیا سوز گفتگو کو نہ صرف نشر کروایا بلکہ اس کی تشہیر کی ذمے داری بھی لی اور واضح طور پر وہ اس بے حیائی والی گفت و شنید سے محظوظ بھی ہوتی رہیں۔
میں اپنی قوم کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اس بے ہودگی کو نہ صرف دیکھ رہی تھی بلکہ کچھ احباب اپنی سیاسی تسکین کی خاطر سوشل میڈیا پر داد و تحسین بھی بلند کرتے نظر آئے۔ ابھی حیرانی و غم کی کیفیات سے ہی نہ نکل پائے تھے کہ یوتھیوں نے غریدہ کی عزت کو وہ تار تار کیا کہ سوشل میڈیا اس غلاظت کے نہ تھمنے والے طوفان میں گھر گیا۔
دعا ہے، ہمارے ارباب بست و کشاد ہوش کے ناخن لیں اور پیمرا شاید اپنی ذمے داری سے آگاہی حاصل کرلے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔