نیب سمیت تمام سرکاری عہدیدار عدالت کو نہیں عوام کو جوابدہ ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ
نیب کو ثابت کرنا ہے کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، اسے تو شروع ہی یہاں سے کرنا چاہیے کہ سب برابر ہیں، عدالت
ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ہر پبلک آفس ہولڈر عوام کو جوابدہ ہے، نیب بھی عدالت کو نہیں عوام کو جوابدہ ہے، نیب نے یہ ثابت کرنا ہے کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کرپشن کی انکوائری نہ کرنے پر چیئرمین نیب کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ نیب نے عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف کرپشن انکوائری پر جواب جمع کرادیا، جس میں کہا گیا کہ سابق صدر اور ان کے اہلخانہ کے تمام اکاؤنٹس، اثاثہ جات کا ریکارڈ حاصل کرلیا، پرویز مشرف کی بیرون ملک 2 پراپرٹیز اور 2 فارن اکاؤنٹس کا سراغ لگایا، اور ان کی بیرون ملک پراپرٹیز اور اکاؤنٹس کی مزید تفصیلات کے لیے ایم ایل اے لکھ دیے، بیرون ملک سے ایم ایل اے کے جواب موصول ہونے کا انتظار ہے، ایم ایل ایز کے جواب ملنے پر کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہوگا۔
نیب نے اپنے جواب میں کہا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں پرویز مشرف کے خلاف مارچ 2018ء میں انکوائری شروع کی، پرویز مشرف کو انکوائری میں شامل تفتیش کیا، سوالنامہ دیا، پرویز مشرف کے جواب کے مطابق وہ شدید بیمار اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں، چئیرمین نیب نے کوئی توہین عدالت نہیں کی، ان کے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ہرجانے کے ساتھ مسترد کی جائے۔ پرویز مشرف کے مشکوک اثاثوں سے متعلق فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے انٹیلجنس کی درخواست کی، مشکوک ٹرانزیکشن کی رپورٹس بھی طلب کی ہیں۔
چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب کی ذمہ داری ہے کہ یہ تاثر زائل کرے کہ صرف منتخب نمائندوں کا احتساب ہوتا ہے، مشرف آرمڈ فورسز سے نہیں، پبلک آفس ہولڈر رکھتے تھے، ان کا کیس نیب کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے، نیب لوگوں کو جوابدہ ہے ان کا اعتماد بحال کرے۔ چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف کب تک انکوائری مکمل ہو سکتی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو جواب دیا کہ ہم رپورٹ ایک مہینے تک عدالت کے سامنے پیش کر دیں گے، پرویز مشرف کی کُل 29 جائیدادوں کی انکوائری جاری ہے۔
وکیل درخوستگزار کوئی سیاستدان ہوتا جے آئی ٹی بن جاتی یہ ایک جنرل کا معاملہ ہے، پراسیکیوٹر نیب کا جواب ان کی جانب سے تاخیر کا اعتراف ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نیب کی تفتیش میں مداخلت نہیں کریں گے، پرویز مشرف جنرل نہیں سیاستدان ہیں، یہاں سیاسی تقریر کی اجازت نہیں دیں گے، ہم کہہ دیتے ہیں ایک ماہ میں تفتیش مکمل کریں اور کیاکریں، نیب کی انکوائریوں اتنے سال کیوں زیر التوا رہتی ہیں، بیرون ملک سے کیا تین تین سال لگتے ایم ایل اے کا جواب آنے میں۔ نیب پروسیکیوٹر نے جواب دیا کہ کئی بار تو بیرون ملک سے ہمیں جواب دیا ہی نہیں جاتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر پبلک آفس ہولڈر عوام کو جوابدہ ہے، نیب بھی عدالت کو نہیں عوام کو جوابدہ ہے، نیب نے یہ ثابت کرنا ہے کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، نیب کو تو شروع ہی یہاں سے کرنا چاہیے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ عدالت نے نیب کو انکوائری ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف پروسیڈنگ انڈر ٹیک کر لی گئی ہے۔ صحافی نے سوال کیا کہ کیا انکوائری 1 ماہ میں مکمل کر لی جائے گی۔ نیب پروسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے ایم ایل اے کے جواب کا کہا ہے انکوائری کا نہیں، ہماری جانب سے 3 دفعہ یاددہانی کرائی جا چکی ہے، امید ہے کہ ایم ایل اے کا جواب ایک ماہ کے اندر آجائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کرپشن کی انکوائری نہ کرنے پر چیئرمین نیب کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ نیب نے عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف کرپشن انکوائری پر جواب جمع کرادیا، جس میں کہا گیا کہ سابق صدر اور ان کے اہلخانہ کے تمام اکاؤنٹس، اثاثہ جات کا ریکارڈ حاصل کرلیا، پرویز مشرف کی بیرون ملک 2 پراپرٹیز اور 2 فارن اکاؤنٹس کا سراغ لگایا، اور ان کی بیرون ملک پراپرٹیز اور اکاؤنٹس کی مزید تفصیلات کے لیے ایم ایل اے لکھ دیے، بیرون ملک سے ایم ایل اے کے جواب موصول ہونے کا انتظار ہے، ایم ایل ایز کے جواب ملنے پر کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہوگا۔
نیب نے اپنے جواب میں کہا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں پرویز مشرف کے خلاف مارچ 2018ء میں انکوائری شروع کی، پرویز مشرف کو انکوائری میں شامل تفتیش کیا، سوالنامہ دیا، پرویز مشرف کے جواب کے مطابق وہ شدید بیمار اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں، چئیرمین نیب نے کوئی توہین عدالت نہیں کی، ان کے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ہرجانے کے ساتھ مسترد کی جائے۔ پرویز مشرف کے مشکوک اثاثوں سے متعلق فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے انٹیلجنس کی درخواست کی، مشکوک ٹرانزیکشن کی رپورٹس بھی طلب کی ہیں۔
چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب کی ذمہ داری ہے کہ یہ تاثر زائل کرے کہ صرف منتخب نمائندوں کا احتساب ہوتا ہے، مشرف آرمڈ فورسز سے نہیں، پبلک آفس ہولڈر رکھتے تھے، ان کا کیس نیب کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے، نیب لوگوں کو جوابدہ ہے ان کا اعتماد بحال کرے۔ چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف کب تک انکوائری مکمل ہو سکتی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو جواب دیا کہ ہم رپورٹ ایک مہینے تک عدالت کے سامنے پیش کر دیں گے، پرویز مشرف کی کُل 29 جائیدادوں کی انکوائری جاری ہے۔
وکیل درخوستگزار کوئی سیاستدان ہوتا جے آئی ٹی بن جاتی یہ ایک جنرل کا معاملہ ہے، پراسیکیوٹر نیب کا جواب ان کی جانب سے تاخیر کا اعتراف ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نیب کی تفتیش میں مداخلت نہیں کریں گے، پرویز مشرف جنرل نہیں سیاستدان ہیں، یہاں سیاسی تقریر کی اجازت نہیں دیں گے، ہم کہہ دیتے ہیں ایک ماہ میں تفتیش مکمل کریں اور کیاکریں، نیب کی انکوائریوں اتنے سال کیوں زیر التوا رہتی ہیں، بیرون ملک سے کیا تین تین سال لگتے ایم ایل اے کا جواب آنے میں۔ نیب پروسیکیوٹر نے جواب دیا کہ کئی بار تو بیرون ملک سے ہمیں جواب دیا ہی نہیں جاتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر پبلک آفس ہولڈر عوام کو جوابدہ ہے، نیب بھی عدالت کو نہیں عوام کو جوابدہ ہے، نیب نے یہ ثابت کرنا ہے کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، نیب کو تو شروع ہی یہاں سے کرنا چاہیے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ عدالت نے نیب کو انکوائری ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف پروسیڈنگ انڈر ٹیک کر لی گئی ہے۔ صحافی نے سوال کیا کہ کیا انکوائری 1 ماہ میں مکمل کر لی جائے گی۔ نیب پروسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے ایم ایل اے کے جواب کا کہا ہے انکوائری کا نہیں، ہماری جانب سے 3 دفعہ یاددہانی کرائی جا چکی ہے، امید ہے کہ ایم ایل اے کا جواب ایک ماہ کے اندر آجائے گا۔