ملک کا پہلا تتلی گھر 2 سال سے بند ماہرین نے منصوبے کو پیسے کا ضیاع قرار دے دیا

بریڈنگ سینٹر میں ملکی اور غیرملکی 8 سے 10 اقسام کی تتلیوں کی بریڈنگ کروائی جارہی تھی


آصف محمود February 14, 2022
بریڈنگ سینٹر میں ملکی اور غیرملکی 8 سے 10 اقسام کی تتلیوں کی بریڈنگ کروائی جارہی تھی ۔ فوٹو : ایکسپریس

پنجاب میں تتلیوں کی بریڈنگ اورشہریوں کی تفریح کے لئے بنایا گیا صوبے کا پہلا تتلی گھر گزشتہ 2 سال سے بند پڑا ہے جبکہ دوسری طرف ماہرین حشرات کا کہنا ہے تتلی گھرکے قیام کا منصوبہ ہی بنیادی طور پرغلط اورپیسے کا ضیاع تھا اس کی بجائے بٹر فلائی گارڈن بنایا جاتا تو زیادہ بہترنتائج دے سکتا تھا۔

پنجاب حکومت نے 2016 میں جلوپارک کے مشرقی حصے میں 80 ایکڑرقبے پرپاکستان کا پہلا اور منفرد بوٹینکل گارڈن اور بٹرفلائی ہاؤس بنایا تھا۔ بٹر فلائی ہاؤس میں جہاں شہریوں کو تتلیوں سے متعلق آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی مصنوعی ماحول میں افزائش بھی کی جانی تھی اورابتدائی مہینوں میں اس پرخاصا کام بھی کیا گیا تاہم اب گزشتہ دوسال سے یہ تتلی گھربند پڑا ہے۔ یہاں تعینات خاتون ماہرحشرات نازنین سحرکو پی ایچ اے کی طرف سے کسی اورپراجیکٹ پرلگادیا گیا ہے۔

بریڈنگ سینٹر میں ملکی اور غیرملکی 8 سے 10 اقسام کی تتلیوں کی بریڈنگ کروائی جارہی تھی جن میں منارچ، پلین ٹائیگر، لٹل ییلو، لیمن، اورنج سلفر، کامن مارمن، یلیو گلاسی ٹائیگر و دیگر اقسام شامل ہیں۔ ابتدامیں فلپائن سے مختلف تتلیوں کے لاروے منگوائے گئے تھے تاہم بعدمیں مقامی نسل کی تتلیوں کی بریڈنگ شروع کی گئی تھی۔

بٹرفلائی ہاؤس ہاؤس کی چھت فائبر سے بنائی گئی ہے، گرمیوں میں یہاں درجہ حرارت کنٹرول رکھنے کے لئے بڑے ائیرکنڈیشنرلگائے گئے تھے تاہم سردیوں میں درجہ حرارت کنٹرول کرنے کاکوئی انتظام نظرنہیں آتا ہے۔

بٹرفلائی ہاؤس کی سابق انچارج نازنین حسین نے بتایا کہ تتلیاں انتہائی حساس ہوتی ہیں اوران کے لئے سازگار ماحول بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے، تتلیوں کوزندہ رکھنے کے کئے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 35 ڈگری ہونا چاہیے، بالغ تتلیاں ایک سے دوہفتے تک زندہ رہ سکتی ہیں۔

بٹرفلائی ہاؤس میں موسم کی مناسبت سے تتلیاں پرورش پاتی ہیں۔ کچھ تتلیاں سردیوں میں پرورش پاتی ہیں توکئی اقسام گرمیوں میں پھلتی پھولتی ہیں تاہم پورا سال تتلیوں کی کوئی نہ کوئی قسم موجود رہتی ہے۔

پی ایچ اے کے ملازمین شام کے وقت بوٹینکل گارڈن کی آزادفضاؤں میں اڑنے والی تتلیوں کو پکڑتے اورپھرانہیں یہاں بٹرفلائی ہاؤس کے اندر چھوڑدیتے تھے لیکن ادن دنوں سردیوں میں چونکہ کھلے ماحول میں بھی تتلیاں میسرنہیں ہیں اس لئے انہیں پکڑنے کاکام بھی چھوڑدیا گیا ہے۔

ملک کے معروف ماہرحشرات اعزاز احمد کہتے ہیں انہوں نے چندماہ پہلے بٹرفلائی ہاؤس جلوکاوزٹ کیا اورانہیں اس کی حالت دیکھ کرافسوس ہواہے، وہ سمجھتے ہیں کہ بٹرفلائی ہاؤس ایک شارٹ ٹرم منصوبہ تھا جوشاید کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ تتلیوں کے لئے کسی بڑے ہال اورٹنل کی بجائے ایسے مقامات ہونے چاہیں جہاں وہ آزادانہ طورپربیٹھ سکیں اوراڑتی پھرتی نظرآئیں کیونکہ جب آپ انہیں کسی جگہ بند کردیتے ہیں تو وہاں ان کا زیادہ عرصہ زندہ رہنامشکل ہوجاتا ہے۔

مختلف اقسام کی تتلیوں کو الگ الگ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے، تتلی وہاں جاتی ہے جہاں خود کے لئے ماحول کومناسب سمجھتی ہیں۔ وہاں ایسے پودے لگائے جائیں، ان کے لئے خوراک کا اہتمام ہوتو تتلیاں خود وہاں آئیں گی، میں نہیں سمجھتا کہ کنٹرولڈ ماحول میں تتلیوں کی پرورش انتہائی مشکل ہوتی ہے۔

اس کی بجائے انہیں کھلے ماحول میں رکھاجائے ،ان کوشکار یوں سے بچایا جائے اورچند نسلوں کی تتلیاں وہاں چھوڑدیں آپ دیکھیں گے کہ چند مہینوں میں ہی ان کی افزائش بڑھناشروع ہوجائیگی، بوٹینکل گارڈن میں تفریح کے لئے آنیوالے شہریوں نے بٹرفلائی ہاؤس کی بندش پرافسوس کا اظہارکیا ہے۔

ایک خاتون رابعہ احمد نے کہا اگران مقامات کوبندہی کرنا ہوتا ہے توحکومت عوام کا کروڑوں روپے خرچ کیوں کرتی ہے، کیاپہلے کوئی تحیقیق نہیں کی گئی تھی کہ یہاں سردیوں میں تتلیاں کہاں سے لائی جائیں گی۔

ایک شہری احمدحسن نے کہا شہبازشریف جوکچھ یورپ میں دیکھتے یاان کے مشیرانہیں جوبتاتے وہ فورااس منصوبے پرکام شروع کروادیتے ہیں، جذبات میں بنائے گئے منصوبوں کا یہی حال ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں