مجھے اظہار کی یہ نعمت میسر نہیں
اُردو کا ذکر ہو تو غالبؔ کی سطح کے شاعر ڈھونڈنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔
اُردو کا ذکر ہو تو غالبؔ کی سطح کے شاعر ڈھونڈنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی زندگی کا ایک پہلو ''غالبؔ کے لطائف'' کی صورت نظر آتا ہے اور پھر توجہ ان کی بادہ خواری اور قمار بازی کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ ان کی ذات سے متعلق یہ سب باتیں اس سانچے میں یکدم Fit ہوجاتی ہیں جو عوام کی اکثریت نے ادیبوں اور شعراء کے بارے اپنے ذہن میں بنا رکھے ہیں۔ ان سانچوں کے مطابق شاعر حضرات عمومی طور پر کاہل ہوتے ہیں جو ''رزق حلال'' کے طریقے ڈھونڈنے کے بجائے اپنے حال میں مست رہتے ہیں اور معاشرے پر حاوی ا خلاقی اقدار کی پیروی نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی طبعِ عیاش کی بدولت ان سے اکثر روگردانی کرتے نظر آتے ہیں۔ سچی بات ہے کئی برسوں تک میں نے بھی غالب کو ایسا ہی ایک شاعر جانا۔
پھر مجھے ان کے لکھے خطوط بار بار پڑھنے کی لت لگ گئی۔ اس لت کی بدولت کسی باقاعدہ محقق کی لکھی کوئی تحریر پڑھے بغیر میں نے بتدریج یہ دریافت کر ہی لیا کہ اسد اللہ خان غالبؔ شاعری کی خداداد صلاحیتوں سے مالامال ہونے کے باوجود اپنے ہنر Craft کے اسرار و رموز جاننے کے لیے بڑی مشقت کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ادب و ابلاغ کی اصل زبان فارسی تھی۔ انھوں نے اوائل عمری سے اس زبان پر عبور حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی اور بالآخر اس مقام پر پہنچے کہ اپنے زمانے میں حرفِ آخر گردانے جانے والوں کی زبان میں بھی فاش غلطیوں کی نشاندہی کرنا شروع کر دی۔ یہ بات تو اُردو ادب کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ ''دیوان غالبؔ'' کی صورت میں ان کا جو کلام ہم تک پہنچا ہے اسے مرتب کرنے سے پہلے انھوں نے خود ہی بڑی سفاکی سے اپنے بہت سارے کلام کو ناقابل اشاعت تصور کرتے ہوئے ضایع کر دیا تھا۔ ان کے کرافٹ کے حوالے سے جنونی حد تک Perfectionist ہونے کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
اپنی روایات کو پوری طرح سمجھنے اور کافی حد تک ان کی پیروی کرنے کے باوجود غالب ایک کھلے ذہن کے مالک تھے جن کو اس بات کا پوری طرح احساس تھا کہ ''گزشتہ'' کے علم پر عبور حاصل کر لینا کوئی خاص بات نہیں۔ بالآخر دُنیا پر حاوی تو وہ قومیں اور معاشرے ٹھہرتے ہیں جنھیں نت نئی ایجادات کا جنون ہوا کرتا ہے۔ ''ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے'' جیسے سوالوں پر مسلسل غور کرتے ہوئے انسان ابر و ہوا کو اپنی سہولت کے لیے استعمال کرنے کے بے شمار طریقے ڈھونڈ سکتا ہے۔ ریل کے دُخانی انجن نے انھیں چونکا کر رکھ دیا تھا اور شاید اسی حیرت کی بدولت وہ سرسید احمد خان کو یہ بات سمجھا پائے کہ وہ بجائے مسلم اشرافیہ کی عظمتِ رفتہ کی داستانیں لکھنے میں اپنا وقت ضایع کرنے کے انگریزوں اور ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کامیابیوں کے اصل سبب ڈھونڈنا شروع کر دیں۔ 1857 کے واقعات جنھیں انگریز غدر اور ہم آزادی کے جنگ کہتے ہیں غالبؔ کو پریشان تو ضرور کر گئے مگر انھوں نے خود قوم پرستی کے جذبات کے ساتھ ان میں فریق نہ بننا چاہا۔ اپنے گھر میں محصور ''ہائے دلی، وائے دلی، بھاڑ میں گئی دلی'' کی دہائی تو دیتے رہے مگر برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑنے والوں کو بھی انھوں نے محض ''تلنگا'' ہی گردانا اور بالآخر فتح یاب ہو جانے والوں سے اپنے وظیفے اور پنشن کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔
1857 میں بظاہر ''اچھے'' اور ''برے'' کے درمیان نمایاں تفریق کے باوجود وہ متحارب گروہوں میں سے کسی ایک کے ساتھ نہ چلے۔ مجھ کو پورا یقین ہے کہ ''حق اور باطل'' میں کسی ایک کے ساتھ وہ ضرور اس لیے کھڑے نہ ہو سکے کہ وہ مزاجاََ شاعر اور بزدل وغیرہ تھے۔ ان کی زبان بند رہی تو اصل وجہ اس کی لوگوں میں موجود برطانوی استعمار کے خلاف شدید جذبات تھے۔ ان میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ اپنے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر چھائے جذبات کو کھلے الفاظ میں خا م ثابت کرتے ہوئے سماجی حوالوں سے بالکل تنہاء ہو جاتے۔ ان کے اپنے دل و دماغ میں بھی 1857 کے حوالے سے ایک شدید کش مکش جاری تھی۔ اس سے مغلوب ہو کر کچھ لکھ بیٹھتے تو خدا سے دُعا مانگتے کہ وہ جنون میں کچھ ''بک'' رہے ہیں اسے کوئی سمجھ نہ پائے۔
اندرونی جذبات کی اتنی شدید کش مکش ہمیں اسداللہ خان غالبؔ کے بعد صرف سعادت حسن منٹو میں نظر آتی ہے۔ 1947 کے فسادات نے انھیں دیوانہ بنا دیا تھا مگر لوگ دوش ان کی بادہ خواری کو دیتے رہے۔ شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر انھوں نے ''کھول دو'' لکھا تو ''حقیقی اسلام کے نفاذ کے لیے بنی ریاست'' نے انھیں فحاشی کے الزامات لگا کر عدالتوں میں رگیدنا شروع کر دیا۔ حکومتِ پاکستان اور اس کی پریس برانچ نے منٹو کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اسے ایک حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ریاست سے کہیں زیادہ شرمناک کردار مگر ان دنوں کے ''ترقی پسندوں'' نے ادا کیا۔ منٹو کو باقاعدہ منظور کردہ قراردادوں کے ذریعے ''رجعت پسند'' ٹھہرا دیا گیا۔ ان کے افسانے ان تمام رسالوں میں شایع کرنے پر پابندی لگا دی گئی جو اپنے تئیں پاکستان کو ''سرخ انقلاب'' کے لیے تیار کر رہے تھے۔ دائیں اور بائیں، دونوں اطراف کے کچھ ملاؤں کا ٹھکرایا منٹو ان حالات میں پاگل خانے نہ پہنچتا تو کہاں جاتا؟ ان دنوں کے منٹو کی اذہانی کیفیت کا بھرپور اظہار ہمیں ''ٹوبہ ٹیک سنگھ'' میں فوراَََ نظر آ جاتا ہے۔
میں نہ غالبؔ ہوں نہ سعادت حسن منٹو۔ ایک اور جنم بھی مل جائے تو ان جیسا ذہن نصیب نہیں ہو گا۔ مگر کیفیت میرے دل و دماغ کی ان دنوں تقریباََ ویسی ہی ہے جو غالبؔ 1857 میں اور منٹو 1947 کے بعد محسوس کر رہے تھے۔ ان دونوں پر ربّ پھر بھی اس صورت مہربان رہا کہ وہ اپنے دلوں پر بیتے صدمات کو کسی نہ کسی صورت بیان کرتے رہے۔ مجھے اظہار کی یہ نعمت میسر نہیں ہے۔