پتھر کے دل والوں سے

پتھروں کے دور سے بچانے والے اپنے پتھر کے دل کو تو موم کریں اور سوچیں کہ ہمارے بھی بچے ہیں۔۔۔


انیس منصوری February 18, 2014
[email protected]

ہائے اللہ، اس سادگی پر قربان ہو جانے کو دل چاہتا ہے۔ کتنی محبت اور سچائی سے سادہ لفظوں میں سندھ کے وزیر ِتعلیم نے ارشاد فرما دیا کہ بس سندھ میں 11000 اسکول بند ہیں۔ نثار کھوڑو صاحب خود اچھا مذاق کرتے ہیں اس لیے نمبروں کی ہیرا پھیری میں بھی مذاق کر گئے۔ میں تو سمجھا کہ ایک لمبا عرصہ سندھ میں قائد حزب اختلاف رہنے والے اور پانچ سال تک چُپ چاپ اسپیکر کے فرائض انجام دینے والے نثار کھوڑو صاحب وزارت ِتعلیم کے ساتھ تو مذاق نہیں کریںگے لیکن کہتے ہیں کہ مذاق میں مزے لینے کی عادت اتنی جلدی چھوٹتی نہیں۔

وزیروں کی یادداشت بلا کی ہوتی ہے اگر نہیں بھی ہوتی تو اُن کے سیکریٹری انھیں قیامت کا حافظہ دے دیتے ہیں۔ پرویز مشرف کا جس زمانے میں ہر جگہ ڈنکا بجتا تھا اُس وقت سندھ کی تعلیمی کمان حمیدہ کھوڑو صاحبہ کے پاس ہوتی تھی۔ گھما پھرا کر پانچ سال بعد پھر ایک کھوڑو وزیر تعلیم ہیں۔ ارباب رحیم کی صحت پر لاکھ اعتراض کیے جا ئیں لیکن جب انھوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران سینہ ٹھوک کر کہا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ کرپشن وزارت تعلیم میں ہے تو ہر طرف ایک شور سا مچ گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ اور جیسے ہی جمہوریت کے چیمپئن حکومت میں آئے تو سندھ اسمبلی میں پوچھا گیا کہ اسکولوں کی حالت ِزار بتائی جائے تو وہ کاغذ میں نے سنبھال کر رکھ لیا۔

حمیرا علوانی کے سوال پر وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے ارشاد فرمایا تھا کہ سندھ کے 49 ہزار اسکولوں میں سے 29 ہزار ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولیات موجود نہیں اور ساڑھے سات ہزار اسکول بند ہیں۔ نثار کھوڑو صاحب اُس وقت اسپیکر کی حیثیت سے یہ سب کچھ سماعت فرماتے رہے۔ پیر مظہر الحق نے سینئر وزیر اور وزیر تعلیم کی مسند پر بیٹھ کر کیا کیا کارنامے کیے اس کی مثال آپ کو پورے صوبے کے ڈسٹرکٹ آفس سے مل جائے گی۔ اور تو اور اُس وقت کئی جیالے ارکان اسمبلی نے تو کھڑے ہو کر صدا حق بلند کرنے کا سیاسی کارنامہ بھی کیا تھا ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اُن اراکین کے اُس وقت کے اسپیکر سے کتنے اچھے تعلقات تھے۔ میں سمجھا اتنا لمبا عرصہ رکن اسمبلی رہنے والے اور قائد حزب ِ اختلاف سے لے کر سندھ اسمبلی کے اسپیکر تک کی ذمے داریاں نبھانے والے جب لوگ آئینگے تو سندھ علم کے زیور سے مالا مال ہو جائیگا ۔

جب خیر پور میں وزیر تعلیم امریکی ادارے کے سربراہ کے ساتھ رقص کر رہے تھے تو میرے ذہن میں اُن بچوں کے اسکولوں کا نقشہ تھا ۔ اپنے کلچر پر فخر کرنے والی پیپلز پارٹی کی جب حکومت 2008 قائم ہو ئی تو 49 ہزار اسکول تھے۔ 6 سال تک روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی ایک بھی اسکول کا اضافہ نہیں کر سکی۔ پوچھے گئے سوال کا جواب وزیر تعلیم نے اپنے روایتی گول مول انداز میں دیا اور کہنے لگے کہ 49 ہزار میں سے 38 ہزار فعال ہیں۔ یعنی سمجھ جائیے کہ باقی 11 ہزار کا کیا ہوا؟ ایک وزیر نے کہا جناب اسکول تو بہت ہیں آنکھیں کھول کر تو دیکھیں۔ ایک رکن اسمبلی نے بتایا کہ اُن کے علاقے کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ کاغذات میں پورے 54 اسکولز ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جیالے رکن اسمبلی ڈاکٹر کھٹومل جیون نے مزید تڑکا لگاتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے یہ اسکول سیاسی رشوت کے طور پر دیے تھے۔ تو کوئی جناب جیون صاحب سے بھی پوچھتا کہ آپ کی حکومت 6 سال سے کیا کر رہی ہے۔

نثار کھوڑو نے آدھی بات کرتے ہوئے کہا کہ جناب وہ تو ہم نے بند کر دیے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہاں کے ٹیچر آج بھی تنخواہ لے رہے ہیں۔ بلکل محترم وزیر تعلیم صاحب کے آپ کے 132 ارب روپے کے بجٹ میں سے 110 ارب تنخواہ پر خرچ ہوتے ہیں۔ تو اٹھائیے قلم اور لکھ دیجیے کہ آپ اُن ٹیچروں کو سیاسی رشوت نہیں دینگے اور فورا سب لائن حاضر ہوں۔ لیکن قلم کس کے پاس ڈھونڈھیں ۔۔؟؟ نہیں کبھی نہیں کرینگے۔۔ مذاق میں ٹال دینگے ۔۔۔ ناجانے کیوں مجھے یقین سا ہوتا جا رہا ہے کہ یہ حکمران، روشن پاکستان، پڑھا لکھا پنجاب ۔۔ صحت کا انصاف، یا پھر کوئی نئے ڈبے میں خوشبو لگا کر عوام کو بیچیں گے، یہ کبھی بھی پاکستان کے مستقبل سے سنجیدہ نہیں ہو سکتے ۔۔ بلاول اچھی یونی ورسٹی میں پڑھ کر اپنی مسند پر بیٹھ گیا۔ اور ہمارے بچے جو بلاول کے ساتھ جوان ہوئے وہ اُسی کھیت میں غلامی کی طوق لے کر مر جائینگے جس میں اُن کے اجداد دفن ہوئے ۔۔ حمیدہ کھوڑو ہو، پیر مظہر الحق ہو یا پھر نثار کھوڑو۔ کچھ نہیں ہو گا۔ بس اعداد و شمار کا دھندہ کرینگے۔

بہت بڑا کارنامہ کیا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی جھنڈا بنا لیا۔ جناب حمزہ شہباز خوش ہو گئے لیکن اُن بچوں سے بھی تو پوچھتے کہ وہ اس پاکستان کے سائے میں علم کا دیا کیسے جلائے ہوئے ہیں۔۔ پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چئیرمین قمر السلام نے صحیح کہا کہ رجسٹر میں بچوں کی جتنی انٹری ہوتی ہے اتنے بچے اسکول میں نہیں ہوتے۔ اسکول انتظامیہ اپنی نوکری بچانے کے بچوں کی حاضری ظاہر کرتی ہے۔ بلکل اسی طرح پنجاب کا نام اونچا کرنے اور اسکول اور کالج انتظامیہ نے نوکری بچانے کے لیے اولے پڑتی بارش میں بچوں کو کھڑا کیا۔ EDO بیٹھے تھے، حکومت کے نمایندہ تھے۔ تمام لوگ تھے جس کے سامنے کہا گیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگ کے 67 فیصد اسکول کس حالت میں ہیں۔ جب سوال اٹھا کہ اسکول کیوں بند کیے جا رہے ہیں تو حکومت ِ پنجاب کے نمایندہ کہنے لگے کہ بچے کم ہونے کی وجہ سے اسکول کو بند کر کے بچے دوسرے اسکول میں بھیج دیے جاتے ہیں۔۔آب خادم اعلی بتائیں کہ ایک گاؤں میں بند ہونے والے اسکول کے بچے کتنی دور پڑھنے کے لیے جائینگے ۔

یہ لوگ جس نام سے بھی حکومت میں آتے ہیں۔ ہمارے مسائل جوں کہ توں ہی رہتے ہیں ۔ چارسدہ میں سرکاری اسکول کا حال برا ہے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق وہاں پرائیوٹ اسکولز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جہاں اوسط 700 روپے تک فیس لی جاتی ہے۔ ان اسکولوں میں لڑکیاں بھی ہیں اور لڑکے بھی ہیں۔ جس سے یہ بات واضح ہے کہ خیبرپختوانخوا کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ مگر '' انصاف کی تعلیم'' نیٹو کی سپلائی سے شروع ہو کر عمران خان کے انکشافات پر ختم ہو جاتی ہے ...

کوئی تو انھیں بتاؤ کہ جہالت کے قلعے زیادہ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ پتھروں کے دور سے بچانے والے اپنے پتھر کے دل کو تو موم کریں اور سوچیں کہ ہمارے بھی بچے ہیں ...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں