متحدہ اور پی پی میں بڑھتے ہوئے فاصلے

کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن میں پی پی حکومت سے متحدہ کی شکایات بڑھتے بڑھتے اب متحدہ کے یوم سوگ اور احتجاج شروع ہو چکا ہے

پیپلز پارٹی جہاں سندھ کے دیہی علاقوں میں مقبول پارٹی ہے تو وہاں اب تقریباً تین عشروں سے متحدہ بھی سندھ کے شہری علاقوں میں مقبولیت حاصل کر چکی ہے جس میں بلاشبہ اردو بولنے والے ان نئے سندھیوں کی اکثریت ہے اور دوسری زبانیں بولنے والے بھی متحدہ میں ضرور موجود ہیں مگر متحدہ پھر بھی اردو بولنے والوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ جماعت اسلامی، جے یو پی، مسلم لیگ اور دیگر مسالک کی مذہبی جماعتوں میں بھی اردو بولنے والے موجود ہیں اور قومی پارٹی کہلانے والی پیپلز پارٹی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں اردو بولنے والوں کی بہت کم تعداد موجود ہے۔ کراچی میں اردو بولنے والے پی پی کے اہم رہنماؤں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اور اندرون سندھ بسنے والے اردو بولنے والے پی پی سے بہت دور ہیں اور بہت مجبوری میں پی پی کو ووٹ دیتے ہیں۔

جب پی پی وجود میں آئی تھی اس وقت اردو بولنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد شہری علاقوں سے تو پی پی میں شامل ہو گئی تھی مگر پی پی نے اندرون سندھ اردو بولنے والوں کو کبھی اہمیت دی نہ انھیں قریب لانے کی کوشش کی۔ پی پی کی بھٹو صاحب کی پہلی حکومت سے قبل سندھ میں کبھی لسانی بنیاد پر ہنگامے ہوئے تو اندرون سندھ بسنے والے اردو بولنے والوں کو لسانی بنیاد پر نقل مکانی کرنا پڑی۔ پی پی حکومت سے قبل دیہی علاقوں سے شہروں میں جانے کا جو رجحان تھا وہ لسانی بنیاد پر کبھی نہیں رہا بلکہ روزگار، ملازمتوں کے حصول، تجارتی ترقی، تعلیم، صحت و دیگر سہولتوں کے حصول کے لیے تھا جس میں اردو، سندھی، گجراتی زبانیں بولنے والے سب شامل تھے اور لسانی تعصب بھی برائے نام تھا۔

سابق وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو کے دور حکومت میں سندھی کو سرکاری زبان بنانے پر اندرون سندھ لسانی ہنگامے شروع ہوئے۔ جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے اور اردو بولنے والوں نے بڑے شہروں کی طرف ہجرت شروع کر دی تھی مگر پی پی کی طرف سے اردو بولنے والوں کو مطمئن کرنے اور انھیں ہجرت سے روکنے پر توجہ نہیں دی گئی اور ممتاز بھٹو کی جگہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو لا کر سمجھ لیا گیا کہ سب ٹھیک ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت وجود میں آنے سے قبل قوم پرست جماعتوں میں صرف جی ایم سید کی جیے سندھ تحریک اور رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک نمایاں تھیں۔ جی ایم سید کی وفات اور سندھ میں پھیل جانے والے تعصب اور قوم پرست جماعتوں کی تعداد بڑھتی گئی اور قومی سطح کی پارٹی پی پی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ قوم پرستوں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقعہ پی پی کی دوسری حکومت میں ملا اور پی پی خاموش تماشائی بنی رہی اور سندھ میں لسانیت فروغ پاتی رہی۔ محترمہ نے قائم علی شاہ کی جگہ آفتاب میرانی کو وزیر اعلیٰ بنایا جن کی حکومت میں 1990 میں قوم پرستوں نے ایم کیو ایم کو بنیاد بنا کر اردو بولنے والوں کو جانی و مالی نقصان پہنچانا شروع کیا مگر پیپلز پارٹی نے لسانیت روکنے پر توجہ نہیں دی۔

جنرل ضیا کے مارشل لا میں وجود میں آنے والی ایم کیو ایم کراچی و حیدر آباد میں مقبولیت حاصل کرتی رہی اور اندرون سندھ اردو بولنے والوں پر عرصہ حیات تنگ ہوتا رہا اور بڑے شہروں کی طرف اردو بولنے والوں کی نقل مکانی بڑھی اور جن لوگوں نے کبھی خواب میں بھی اندرون سندھ کے اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑنے کا نہ سوچا تھا وہ بھی بڑے شہروں میں جانے پر مجبور ہوئے۔ بڑے شہروں میں بھی لسانیت پھیلی۔ دونوں طرف جانی نقصانات کا رد عمل سامنے آیا اور پی پی اور متحدہ میں فاصلے بڑھنے لگے۔

محترمہ نے اپنی حکومت کو سندھ میں موثر بنانے کے لیے ایم کیو ایم کو بھی شامل کیا جو ایک اچھی کوشش تھی مگر 1989 میں متحدہ شکایات کے باعث پی پی حکومت سے الگ ہوگئی اور اس کے (ن) لیگ کے قائد نواز شریف سے آ ملنے کے نتیجے میں ایم کیو ایم اور پی پی کے درمیان بڑھنے والے فاصلوں کا فائدہ قوم پرستوں کو ہوا اور 1990 میں دوسری بار سندھ میں لسانی ہنگامے ہوئے اور پی پی حکومت برطرف کر دی گئی اور جام صادق علی نے لسانی ہنگاموں کو بڑھنے سے روکا اور نقل مکانی میں بھی کمی واقع ہوئی۔


1993 میں پی پی کی محترمہ کی دوسری حکومت میں سندھ میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کو پی پی نے ختم کرانے کی بجائے نصیر اللہ بابر کے ذریعہ یکطرفہ بنا کر متحدہ اور پی پی کے درمیان فاصلوں میں شدت پیدا کی جس کے نتیجے میں اپنے ہی صدر کے ہاتھوں پی پی حکومت برطرف ہوئی اور 1997 کے انتخابات میں متحدہ نواز شریف سے ملنے پر مجبور ہوئی اور پھر ان سے جدا ہو کر جنرل مشرف اور (ق) لیگ سے چلتی رہی اور محترمہ کی شہادت کے بعد آصف زرداری پی پی اور متحدہ کو قریب لائے جو تقریباً 5 سال ساتھ چلے جو ایک منفرد ریکارڈ تھا۔ جام صادق، مظفر شاہ، لیاقت جتوئی اور ارباب غلام رحیم کی حکومتوں میں کبھی سندھ میں لسانی فسادات نہیں ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دونوں نے سندھ ہی میں رہنا ہے اور دونوں کا مستقبل سندھ سے ہی وابستہ ہے۔ اب صرف سندھ میں پی پی کی حکومت ہے جو متحدہ کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہی ہے اور جاری آپریشن نے ایک بار پھر پی پی اور متحدہ میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔

سندھ میں یوں دیگر صوبوں کے لوگ بھی مقیم ہیں جن کی بڑی تعداد کراچی میں آباد ہے اور اے این پی کے دعوے کے مطابق تقریباً 35 لاکھ پختون جو کے پی کے اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پنجاب سے آنے والوں کی بھی بڑی تعداد کراچی میں آباد چلی آ رہی ہے جب کہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے سندھی بولنے والوں کی منتقلی بھی کراچی میں جاری ہے اور انھیں سرکاری ملازمتوں اور روزگار کے حصول کے لیے کراچی آنا پڑا ہے جب کہ کراچی میں آباد بلوچوں کی شروع سے پیپلز پارٹی سے قربت رہی ہے اور کراچی کے اطراف قدیم سندھیوں اور بلوچوں کے دیرینہ گوٹھ ہیں جہاں آباد لوگ پی پی کو ووٹ دیتے آ رہے ہیں اور یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ ان علاقوں سے پی پی کو اس بار ماضی کی طرح نشستیں نہیں مل سکیں اور وہاں پی پی کے امیدواروں کو پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا اور لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ جس طرح برقرار رہا وہ پی پی کی نہیں بلکہ پیپلز امن کمیٹی کی مرہون منت ہے اور وہاں کے منتخب ارکان اسمبلی پی پی سے زیادہ امن کمیٹی کے قریب ہیں اور پی پی حالیہ انتخابات میں انھیں ساتھ لے کر چلنے پر مجبور ہوئی ہے۔

اندرون سندھ صرف پیپلز پارٹی ہی بڑی سیاسی قوت نہیں ہے بلکہ دیہی علاقوں میں جے یو آئی کا بھی فنکشنل لیگ سے زیادہ ووٹ بینک ہے۔ اندرون سندھ شہری علاقوں میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) بھی وجود رکھتی ہیں اور فنکشنل لیگ بھی بعض اضلاع میں کامیاب رہی ہے۔ کراچی، حیدر آباد، میرپورخاص ودیگر شہری علاقوں میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں متحدہ کا ووٹ بینک زیادہ اور کراچی متحدہ کا گڑھ ہے جس میں شگاف تحریک انصاف نے ضرور ڈالا ہے جب کہ کراچی میں پی پی، جماعت اسلامی، (ن) لیگ، جے یو آئی اور دیگر مسلک کی جماعتیں متحدہ کا ووٹ بینک توڑنے میں ناکام رہی ہیں۔

بظاہر سندھ میں اندرون سندھ کی اسمبلیوں میں نمایندگی پیپلز پارٹی کے پاس اور شہری علاقوں میں متحدہ کے پاس ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت میں متحدہ کو شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور سندھ میں متحدہ کا گورنر محض آئینی سربراہ ہے جن کے بعض اختیارات بھی سندھ کی حکومت نے اپنی اکثریت کے باعث وزیر اعلیٰ کو منتقل کروا دیے ہیں۔ سندھ حکومت میں پی پی کی واضح اکثریت ہے جس کے بل بوتے پر وہ اسمبلی سے مرضی کے فیصلے کرانے میں کامیاب رہتی ہے۔

سندھ میں آباد دیگر صوبوں کے لوگوں کے مقابلے میں سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والے فرزند زمین ہیں جنھیں ہر حال میں سندھ ہی میں رہنا ہے مگر موجودہ سندھ حکومت کے آٹھ ماہ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ گزشتہ دور میں متحدہ پی پی حکومت میں شامل ضرور رہی مگر قوم پرستوں اور خود پی پی کے حلقوں میں متحدہ کی اس شمولیت کو پسند نہیں کیا گیا تھا۔

کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں پی پی حکومت سے متحدہ کی شکایات بڑھتے بڑھتے اب متحدہ کے یوم سوگ اور احتجاج شروع ہو چکا ہے اور سابق صدر زرداری متحدہ کی شکایات ختم نہیں کروا رہے اور دونوں جماعتوں میں بڑھتی ہوئی خلیج اور متحدہ کی طرف سے سندھ کی دو حصوں میں تقسیم کے نعرے کسی وقت بھی سماجی ابتری کا باعث بن سکتے ہیں۔
Load Next Story