کراچی کے مسائل

کراچی کی بڑھتی ہو ئی آبادی اور اس سے پیدا ہو نے والے بے شمار مسائل ، کراچی جو منی پاکستان کہلا تا ہے ۔۔۔


مصباح الدین فرید February 18, 2014

را قم کو تقریبا ً 26 سال کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں مختلف حیثیتوں سے کا م کرنے کا مو قع ملا ان 26 سا لوں کے علاوہ مزید 5 سے 6 سال تک بحیثیت سول انجینئر حید رآباد ،حب ڈیم اور خضدار میں بھی کا م کا تجربہ رہا ۔ کراچی کے سابق میئرفاروق ستار نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں میری ملازمت کی ابتدا ء میں ہی مجھے کراچی کے بلک واٹر سپلائی کا انچارج مقررکردیا تھا ۔ ایک نئے انجینئر کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج تھا ، اس وقت کی بلدیاتی قیادت کی سپورٹ سے کراچی میں پا نی کی منصفانہ تقسیم کا نظام بہت بہترہوگیا تھا۔

اس تمام عرصے میں سپرنٹنڈنگ انجینئر پھر چیف انجینئر رہا۔ فاروق ستار کے دونوں ادوار یعنی بحیثیت میئرکراچی اور منسٹر لوکل گورنمنٹ ،راحیل ناصر شاہ ،آغا مسعود عباس ،نعمت اللہ خان اور پھر مصطفی کمال کے ساتھ کراچی میں قر یہ قریہ گھومتا رہا اور بلدیاتی امور سے آگاہی بڑھتی گئی۔ کراچی کی آبادکا ری گزشتہ 25 سالوں میں تیزی سے بڑھتی رہی شہر کے خدوخال بدلتے رہے اور کراچی کو دنیا کا ساتواں بڑا شہر بن گیا۔

کراچی اپنے منفرد محل و قوع متوازن موسم اور زبردست افرادی قوت کی وجہ سے صنعت و حرفت میں تر قی کی قو ت سے مالا مال ہے ۔ اس سلسلے میں ایک طرف صوبائی ووفاقی حکومت کی ذمے داریاں بہت اہم ہیں، ساتھ ساتھ میرے خیال میں کراچی کے صنعتکار ، بلڈرز اور ملٹی نیشنل اداروں کو اپنا بھر پورکردارادا کرنا ہوگا جنہیں کراچی اور اس کے عوام نے اپنی سخت محنت ومشقت سے کہا ںسے کہا ںپہنچا دیا ہے۔ شہرکی تر قی میں ان کا کو ئی رول نظر نہیں آتا یہ ادارے اپنی سوشل کارپوریٹ ریسپانسبلیٹی کے تحت شہری تقا ضوں سے قطع تعلق رہتے ہیں۔ ان کے بعض سربراہان تو پا نی کا ٹینکر بھی مفت ما نگتے ہیں جبکہ ان کے مکانا ت کروڑوں روپے مالیت کے ہوتے ہیں ان کے بنگلوں میں لاکھوں کی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہے ۔

دوسری جا نب منفعت بخش کاروبار کر نے والے اداروں صنعتکاروں اور تاجر حضرات کو بلکہ تمام شعبوں میں جنہیں اس شہر نے کروڑ پتی اور ارب پتی بنا دیا، وہ مختلف سماجی کا موں میں حصہ لیتے ہیں غریبوں کی ہر مدد کر تے ہیں ،مختلف رفاہی کا موں میں حکومت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں لیکن کراچی جس نے ہزاروں لا کھو ں لوگوں اور بے شمار اداروں کو تر قی دے کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا اس کی اجتما عی تر قی پر ان کی توجہ نہیں ہے ۔

کراچی ملک کی قدرتی بندرگا ہ ہے جہاں سے پو رے پا کستان کو تیل اور تمام اشیا ء فراہم ہوتی ہیں یہاں ہو نے والی صنعتی اور تجاتی سرگرمیاں لا کھوں خاندانوں کو روزگار فراہم کرتی ہیںاور سندھ حکومت کو 98 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کو 70 سے 72 فیصد ریونیو کراچی سے حا صل ہو تا ہے۔

کراچی کی بڑھتی ہو ئی آبادی اور اس سے پیدا ہو نے والے بے شمار مسائل ، کراچی جو منی پاکستان کہلا تا ہے یقینا اس کی تعمیروتوسیع میں ملک بھرکی لسانی اکا ئیوں کا ایک بھر پور رول رہا ہے اور یقینا کراچی کی تمام ترصنعتی وتجارتی سرگرمیوں میں ان سب کا بہت اہم کردار ہے جو یقینا نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ان تمام آبا دیوں کے لیے بھی بنیادی حقوق فراہم کرنا بھی ریاستی ذمے داری ہے مگر بے ہنگم پھیلا ؤ اور بلدیاتی سہولتوں کی عدم موجودگی اور سرکا ری زمینوں پر قبضہ مافیا کی سرگرمیوں کی وجہ سے بنیادی سہولتوں کی فراہمی نہیں ہوپاتی اور دوسری طرف انفرا اسٹرکچر فراہم کر نے کے لیے بلدیا تی اداروںکے پا س وہ وسائل بھی نہیں ہیں ۔

میری تجویز ہے کہ سب سے پہلے کراچی میں مردم شماری کے ساتھ ساتھ کراچی کی حقیقی حدود کا تعین کیا جائے جس کو آرگنا ئز کرنا کراچی انتظا میہ کی ذمے داری ہے ۔

وفاقی حکومت کو ایک طرف توکراچی شہر کے لیے حدود کا تعین کر نا ہوگا اور یہاں پر بسنے والے پاکستان بھر سے آئے ہو ئے لوگوں کو سہولتیں فراہم کر نے کے لیے یو ٹیلیٹی اداروں کو خصوصی فنڈز دینے ہوں گے ۔

میری نظر میں جودیگر اہم ترین مسائل ہیں ،ان کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں ۔

کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کو فراہمی و نکاسی آب کے نظام میں عدم توازن سے نجا ت دلانا ہو گی ،شہر میں تعمیر ہو نے والی کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پا بندی لگائی جائے، با زاروں میں یا عمارتوں میں پارکنگ کا نظام ،دفاتر اوررہا ئشی منصوبوں میں بھی پا رکنگ کی عدم موجوگی سے پیدا شدہ مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینا لازمی ہے ۔ علاوہ ازیں سڑکوں پر تجاوزات کی موجودگی اور ان کو متبادل روزگار کی فراہمی اور اس کے نظام کی تشکیل نوضروری ہے۔

15ہزار ٹن روزانہ سالڈ ویسٹ کو ٹھکا نے نہ لگا نے کے سبب شہر بھر میںکو ڑاکٹ کا ڈھیر سے نجا ت ، 280 کے لگ بھگ چھوٹے،بڑ ے سات نالے اور لیاری وملیر ندی پرآبادیو ں کا تسلسل اور اس میں سیوریج کے کنکشن اور سالڈ ویسٹ کی بھرائی اور اس سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقدامات۔

سپریم کورٹ کے نوٹس لیے جانے کے باوجود تمام انڈسٹریل ویسٹ کا زہریلا پا نی کی بنا کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر کی نذرکرنا جس سے سمندری آلودگی میں بے پناہ اضا فہ اور ماہی گیری کی صنعت پر اثرات ۔Disaster Management کی عد م مو جودگی اور اس کی ضرورت ۔سرکاری اسکولوں کی حالت زار سرکا ری و پرائیوٹ اسکولوں کا تعلیمی معیار، سرکا ری اسپتالوں جناح ، سول اور عباسی شہید کے حجم کے مطابق عام آدمی کے لیے مزید اسپتالوں کی ضرورت خا ص طور پر کراچی کے مضافات میں 14فائر بریگیڈکی زبوں حالی اورکا رکردگی کو بہتر بنا نے کی ضرورت جبکہ دوسری طرف کراچی کے تنگ با زاروں تنگ انڈسٹریل ایریاز تنگ گلیاں اور کراچی میںتعمیر ہو نے والی کثیر المنزلہ عمارتوں کے لیے نئی اسنا رکل کی ضرورت ،عاملوں جنسی ادویات فروخت کر نے والوں جعلی دندان ساز اور غیر تعلیم یا فتہ افراد کی شعبہ طب میں کا م سے روکنا جعلی ادویات جعلی منرل واٹر کی فیکٹریا جعلی کاسمیٹک جعلی مشروبات،خواتین کے لیے با وقار روزگار کی فراہمی ،دعو توں میں خوراک کا ضیاع اوراوقات تقریبات کی پابندی اس مسائل ہیں جن کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں