کھیل تماشے کیلیے یوکرین سے لائی گئی 4 نایاب ڈولفن ہلاک

ڈولفن شو 3ماہ ہی چل سکا،بچ جانے والی2سی کیٹ مچھلیاں واپس بھیج دی گئیں

ڈولفن شو 3ماہ ہی چل سکا،بچ جانے والی2سی کیٹ مچھلیاں واپس بھیج دی گئیں۔ فوٹو؛ فائل

KARACHI/LAHORE:
پاکستان میں ڈولفن شو کیلیے لائی جانیوالی نایاب نسل کی 4ڈولفن مچھلیوں کی ہلاکت کاانکشاف ہوا ہے۔

پاکستان میں ڈولفن شو کے لئے لائی جانیوالی نایاب نسل کی چار ڈولفن مچھلیوں کی ہلاکت کا انکشاف ہوا ہے، ڈولفن مچھلیاں سن دوہزارانیس میں کھیل تماشے کے لئے لاہور لائی گئی تھیں۔ زندہ بچ جانیوالی دو سی کیٹ مچھلیاں چند روزقبل واپس یوکرائن بھیج دی گئی ہیں.

کراچی میں ڈولفن شو کروانے والی نجی کمپنی نے روس اوریوکرائن کی دوکمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے سن دوہزارانیس میں ڈولفن شو کے لئے چارڈولفن مچھلیاں جن میں دونراوردومادہ تھیں امپورٹ کی تھیں جبکہ دو سی کیٹ بھی منگوائی گئی تھیں۔لاہورمیں ڈولفن شوصرف تین ماہ ہی چل سکا اس کے بعد کورونا وبا کی وجہ منتظمین کو یہ شوبند کرناپڑاتھا.

کوویڈ 19 کے دوران منتظمین ڈولفن مچھلیوں کو روزانہ خوراک تودیتے رہے جبکہ ان کی دیکھ بھال کے لئے غیرملکی ڈاکٹر بھی موجود تھا لیکن اس کے باوجود چاروں ڈولفن یکے بعد دیگرے دم توڑ گئیں، منتظمین کے مطابق مچھلیوں کی خوراک کا روزانہ خرچہ 20 ہزارروپے تھا۔ ڈولفن شو کے لئے ٹرینربھی روس سے آئے تھے ،غیرملکی ٹیم کو شوکی ہر ایک ٹکٹ پرپانچ ڈالرحصہ دیاجاتا تھا۔ شو کے لئے تین کیٹگریز کے لئے 800 روپے، ایک ہزار اورڈھائی ہزار روپے مالیت کے ٹکٹ رکھے گئے تھے.

لاہورمیں ڈولفن اورسی کیٹ کا امپورٹ پرمٹ پنجاب وائلڈلائف کی طرف سے دیا گیا تھا۔ حالانکہ یہاں جانوروں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنیوالے بعض اداروں نے اعتراضات بھی اٹھائے تھے۔ پاکستان خطرے سے دوچارانواع کی بین الاقوامی تجارت بارے معاہدے(سائیٹیز) کا ممبر ہے جس کے تحت حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوئی ہے کہ اس بات کویقینی بنایاجائے کہ پاکستان میں کوئی بھی جانوریا پرندہ جنگلی مسکن سے پکڑکر درآمد یا برآمد تونہیں کیا گیا ہے اوریہ کہ جو جانور درآمد کئے گئے ہیں یہاں ان کوکس ماحول میں رکھاجائیگا۔


ڈسٹرکٹ وائلڈلائف آفیسر لاہور تنویراحمد جنجوعہ نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا ہماراکام اس بات کویقینی بنانا ہے کہ پنجاب میں کسی دوسرے صوبے یا بیرون ملک سے جو جنگلی جانور اورپرندہ لایاجارہا ہے اس کا ذریعہ کیا ہے ،وہ کہاں سے خریدا گیا اوراسے امپورٹ کرنے والا اسے کہاں رکھے گا۔ جو ڈولفن اوردوسری مچھلیاں امپورٹ کی گئی تھیں وہ قانونی تقاضے پورے کرکے لائی گئی تھیں۔ یہ مچھلیاں امپورٹ کرنیوالوں کی ذاتی ملکیت تھیں ان کی اموات پر محکمہ ان سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتا ۔البتہ اگرکوئی شخص وائلڈ سے کوئی جانورغیرقانونی طورپرپکڑتااوراس کاشکار کرتا ہے توپھرقانون کے مطابق ہم کارروائی کرسکتے ہیں.

ڈبلیوڈبلیوایف کی رکن اور وائلڈلائف بیالوجسٹ ڈاکٹرعظمی خان کہتی ہیں نایاب نسل کے جانوروں کے کھیل تماشے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جبکہ عالمی سطح پر بھی ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔بھارت،فرانس اورکینیڈاسمیت کئی ممالک نے ڈولفن کو اسیری میں رکھنے پرپابندی عائدکردی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈولفن کو قید میں رکھنے اوران کے کھیل تماشوں سے ان کی شرح اموات بڑھ رہی ہے جبکہ اس سے ڈولفن کی طبعی عمر آدھی رہ جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ڈولفن ایک ہائپرسوشل جانور ہے بعض اوقات اس کی ساری زندگی اپنے کسی ایک ساتھی کے کھوجانے یااس کی موت کے سوگ میں گزرجاتی ہے۔ماہرین کاکہنا ہے ڈولفن شومیں ایسی ڈولفن استعمال کی جاتی ہیں جنہیں سمندر یعنی ان کے قدرتی مسکن سے پکڑا جاتا ہے کیونکہ اس وقت دنیا میں ڈولفن کی مصنوعی بریڈنگ کا کوئی بڑامرکزنہیں ہے۔ یہ عمل ان کی آبادی میں تیزی سے کمی کاباعث بن رہا ہے.

ڈاکٹرعظمی خان کے مطابق اسیری میں رکھی گئی ڈولفنز جن سے مختلف ایکروبیٹک کرتب کروائے جاتے ہیں ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی تولیدی صلاحیت بھی متاثرہوتی ہے۔ کھلے سمندر میں ڈولفن روزانہ شکارکی تلاش میں سینکڑوں میل کاسفرکرتی ہیں لیکن ڈولفنیریم میں، ان کے پاس مردہ مچھلی کھانے اور اپنے تالاب کے اندر نہ ختم ہونے والے دائروں میں تیرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہ حالات ان کی موت کا باعث بنتے ہیں۔قیدی ڈولفن کو انسانی انفیکشن ، بیکٹیریا اور کلورین جیسے کیمیکلز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ تناؤ سے متعلق بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں.

یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینمل سائنسزکے شعبہ فشریزاورایکواکلچرکے چیئرمین ڈاکٹر محمد حفیظ الرحمن نے بتایا کہ ڈولفن کو زندہ رہنے کے لئے مخصوص پانی، درجہ حرارت اورخوراک درکارہوتی ہے، سمندری پانی میں نمکیات کی شرح عام پانی کے مقابلے میں کئی ہزارگنازیادہ ہوتی ہے۔ ڈولفنز کی اموات کی وجہ ان کے لئے بنائے گئے پانی کے تالاب میں نمکیات کی کمی، نامناسب درجہ حرارت اورخوراک ہوسکتی ہیں.

 
Load Next Story