نئی زندگی میں رہنا ہی نہیں بلکہ ’سہنا‘ بھی ہے۔۔۔

بیٹیوں کی تربیت کے ساتھ ہمیں اپنے بیٹوں پر بھی دھیان دینا چاہیے!


فرحی نعیم February 15, 2022
بیٹیوں کی تربیت کے ساتھ ہمیں اپنے بیٹوں پر بھی دھیان دینا چاہیے!۔ فوٹو: فائل

رہن سہن۔ یعنی جب رہن کے ساتھ 'سہن' کی بات ہوتی ہے، تو یہ ہمارے اس ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں ہم رہتے ہیں۔ جو ہماری مزاج، عادتوں اور طبیعت کے متعلق موافق حالات ظاہر کرتا ہے کہ یہاں ہم چوں کہ رہتے ہیں، لہٰذا ہم نے وہاں کا 'سہن' بھی اپنا لیا۔

اپنے علاقے کے بہ جائے اس غیر علاقہ یا وطن یا ماحول سے مطابقت حاصل کرتے ہوئے، اپنے آپ کو بدلنے کا فن اپنا لیا۔ انسان کی فطرت میں اللہ نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ بہت جلد اپنے آپ کو نئے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے مزاج کو بدلنے پر قادر ہے۔

خاص طور پر خواتین میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ ماحول کے مطابق، اپنے آپ کو، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈھالنے کی، بلکہ یہاں تک کہ بدلنے کی بھی کوشش کر لیتی ہیں۔ ان میں یہ قدرتی وصف ہے کہ وہ حالات کے مطابق اپنے مزاج و عادات کو اسی رنگ میں رنگنے کی صلاحیت بروئے کار لاتی ہیں۔ اور کسی حد تک کام یاب بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ خدا داد صلاحیت اکثریت میں موجود ہے۔

جب ہم رہن سہن کے ساتھ، رہنے سہنے کی بات کرتے ہیں، تو بات زیادہ وسیع طلب اور توجہ طلب ہوجاتی ہے۔ اس میں کئی پہلو نکلتے ہیں اور سب کے سب بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہاں ہم بات ان لڑکیوں کی کریں گے، جو نئی شادی شدہ زندگی میں داخل ہوتی ہیں۔ سسرال کا ماحول ہر نئی شادی شدہ لڑکی کے لیے اجنبی اور ایک امتحان کے مانند ہوتا ہے۔ جس میں ڈھلنا ہی اس لڑکی کی کام یابی کی ضمانت ہے۔

ضروری نہیں کہ یہ مطابقت فوراً ہی حاصل ہو جائے۔ اس میں لازماً کچھ وقت درکار ہوتا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں یہ گیند،ہمیشہ نئی آنے والی بہو کے کورٹ میں ڈال دی جاتی ہے کہ وہ نئے ماحول میں ڈھلنے میں کتنا وقت لیتی ہے؟ چند دن، چند ماہ، یا چند سال۔۔۔ ہمارے خاندانی نظام اور طور طریقوں میں چوں کہ 'آنے والی' ہی کو قربانیاں اور سمجھوتے، کرنے پڑتے ہیں۔

لہٰذا ان کی تربیت بھی ضروری ہے اور یہ تربیت ایک لڑکی کے بچپن سے ہونی ضروری ہے۔ بچی اپنے گھر میں، بہن بھائیوں، اور والدین کے ساتھ کس قسم کا مزاج روا رکھتی ہے۔ کیا اسے ابتدا سے ہی بڑوں کا ادب، بہن بھائیوں سے شفقت، رواداری کا رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے؟ کیا اسے بہن بھائیوں کے غلط برتاؤ پر درگزر کرنے کا کہا جاتا رہا یا گھر میں بھی وہ بہت جلد مشتعل ہو جاتی ہے؟

تربیت کے آغاز کی کڑی یہیں سے جڑنی شروع ہو تی ہے۔ ایک لڑکی بری بھلی، ہر طرح کے حالات سے مطابقت اپنے گھر میں ہی سیکھ سکتی ہے، وہ اپنے والدین کی سختی برداشت کرتی ہوگی، بہن بھائی کی غلطیوں کو درگزر کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو گی، جب ہی وہ سسرالی رشتوں کو، ان کے رویوں کو بھی نبھا سکے گی۔

اس کے گھر، نئے خاندان اور خود اس کی اور اپنے گھر (میکے) کی خوشی اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ جلد از جلد سسرالی ماحول سے ہم آہنگ ہو، اور اس کے لیے اس کو اس گھر میں صرف رہنا ہی نہیں 'سہنا' بھی ہوتا ہے۔ اور تھوڑا نہیں بلکہ بہت کچھ اپنے مزاج و عادات کے خلاف۔۔۔ تنقید، تُرشی، طنز، نرم گرم ناسازگار ماحول وغیرہ کو 'سہنا' ہی تو اصل بہادری ہے۔

سہنا یعنی ان مخالف ہواؤں کو برداشت کرنا، اور ان کو موافق حالات کی طرف پھیر دینا۔ اس کے بعد آنے والی کی کام یابی اور موافق اور سازگار ماحول کے لیے بہت گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک گھر جو خاندان کی اکائی ہے، اس کی مضبوطی اور اس کو قائم رکھنے کا سارا دارومدار ہی ایک عورت کی برداشت پر ہے اور برداشت کے پیچھے وہ رویے ہیں جو گھر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہم ان رویوں کے بجائے یہاں بات صرف ایک پہلو پر کریں گے۔

بات سادہ ہے لیکن گہری بھی، کیوں کہ ہمارے سماج میں ساری توقعات (جس میں اکثر بے جا بھی ہوتی ہیں) نئی آنے والی بہو سے ہی لگائی جاتی ہیں، لہٰذا یہ مجبوری ہے کہ اس کو نئے گھر میں رہنے کے ساتھ بہت کچھ ان چاہے بھی سہنا ہے۔

اپنی مرضی کو طاق پر رکھ کر دوسروں کی خوشی کو اپنا بنانا ہے۔انہی کومقدم رکھ کر گھریلو امور کی انجام دہی کرنی ہے۔کیوں اسی پر آئندہ زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگرچہ مشترکہ خاندانی نظام اب ہمارے معاشرے میں بھی بکھر چکا ہے لیکن بہرحال کہیں نا کہیں یہ اب بھی نظر آتا ہے اور اسی کو بچانے کے لیے کوششیں مقصود ہیں۔

یہاں آپ کو بھی ایک شکایت ہوگی کہ ایک لڑکی ہی کیوں سب کچھ برداشت کرے، جب سماجی طور پر میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں تو زندگی میں کبھی لڑکی کو تحمل دکھانا ہوتا ہے تو کہیں لڑکے کو بھی گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ اب یہ بات تو ہم مندرجہ بالا سطور میں کرچکے ہیں کہ اسے ہم ایک تحریر یا خواہش کے ذریعے نہیں بدل سکتے کہ لڑکی ہی کو سب کچھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔

ہاں البتہ تبدیلی میں یہ حصہ ضرور ڈال سکتے ہیں کہ اپنے بیٹوں کی تربیت پر بھی تھوڑی سی توجہ دیں اور اسے اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی شریک حیات کو بھی اپنے برابر کا جیون ساتھی سمجھے، کبھی اس کے لیے بھی کچھ برداشت کرے۔ یقیناً جب آپ کسی کی بیٹی کو اپنی بہو بنا کر یہ رِیت ڈالیں گی، تو شاید قطرہ قطرہ دریا بنے اور سماج کا یہ چلن بھی بدل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں