بے روزگاری کا حل صنعتی پالیسی

معاشی اور اقتصادی استحکام کے ملکی اور قومی تناظر میں یہ شفافیت، فعالیت ہمارے ادارہ جاتی سسٹم میں نظر نہیں آتی

معاشی اور اقتصادی استحکام کے ملکی اور قومی تناظر میں یہ شفافیت، فعالیت ہمارے ادارہ جاتی سسٹم میں نظر نہیں آتی۔ فوٹو: فائل

اقتصادی ماہرین کا اس بات پر مکمل اتفاق رائے ہے کہ حکومتوں کا معاشی حقائق کی روزمرہ صداقتوں کی بنیاد پر ایک مربوط، مستقل اور استحکام کی سمت سازی کی نشاندہی کرنے کا ادارہ جاتی نظام ہوتا ہے جو ریاستی اور حکومتی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے، حکومت کا اس ادارہ جاتی سسٹم پر مکمل انحصار ہوتا ہے۔

ان کے ماہرین تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں پر رپورٹیں تیار کرتے ہیں ، معیشت کی رفتار پر ان کی نگاہ ہوتی ہے ، یہی ادارہ ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ اور اسمگلنگ و دیگر مالیاتی مجرمانہ گٹھ جوڑ سے حکومت کو خبردار کرتا ہے اور ملکی معیشت اسی ادارہ جاتی انتظامات کی روشنی میں معاشی معاملات میں باضابطگی پیدا کرنے کے عوام کو معاشی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔

مگر معاشی اور اقتصادی استحکام کے ملکی اور قومی تناظر میں یہ شفافیت، فعالیت ہمارے ادارہ جاتی سسٹم میں نظر نہیں آتی جس کا نظارہ قوم وزارتی تبدیلیوں، اداروں کے بیانات اور حکومتی پالیسیوں سے ابھرنے والے جمہوری اور حکومتی ثمرات میں نہیں دیکھتے، جس کے فقدان کے باعث نہ تو اقتصادی اور معاشی ترقی کے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہیں نہ ایک مستحکم معیشت کے دعوؤں کی حقیقت سالانہ یا منی بجٹ کے موقعے پر نظر آتی ہے، اور نہ عوام کے معیار زندگی میں کوئی بامعنی اور بنیادی تبدیلی کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے۔

ہاں البتہ عوام ایک جمود، معاشی پسماندگی، بے سمتی، بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کا شور سنتے رہتے ہیں لیکن وہ معاشی اور اقتصادی استحکام عوام کو اپنے تعلقات کار ، کلچر ، ملازمت اور معیار زندگی میں نظر نہیں آتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اقتصادی سسٹم میں وہ تسلسل، بے اعتباریت، استقامت، تنوع ، پیداواریت اور ساکھ کیوں جنم نہیں لیتی، عوام بے روزگارکیوں ہیں، مہنگائی کا زور کیوں نہیںٹوٹتا ، غربت ختم کیوں نہیں ہوتی، ایک مستحکم معیشت کی نوید ہمارے حکام ہمیں کیوں نہیں سناتے اور اگر سناتے بھی ہیں تو ان پر قوم کو یقین کیوں نہیں آتا۔

افریقہ سے خبریں آتی ہیں کہ وہاں عوام نے اپنے معاشی حالات میں بہتری کے خود اتنے اچھے اقدامات اور منصوبہ بندی کی ہے کہ حکومتی ادارے ان کی امداد کے لیے ان سے رابطے کرتے ہیں، تعلیم، صحت، فنون لطیفہ، سائنسی ادارے، کاسمیٹکس، آرائش گیسو، مشروبات و ملبوسات، کھلونوں اور سیکڑوں صنعتوں سے وابستگی کے لیے رہنما ادارے موجود ہیں، غربت وہاں بھی ہے لیکن معاشرے میں وسعت، تنوع، تکثیریت اور علم و عمل کے بے شمار وسائل میسر ہیں،بے کاری سے بچانے کے لیے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے علاوہ بھی بالغان کی کلاسیں ہوتی ہیں وہاں پڑھائی کے بعد ملازمت کے مواقعے بھی موجود ہیں۔

لیکن ہمارے یہاں صلاحیتیں قتل ہوتی ہیں، انتہائی باصلاحیت لوگ بے کار اور بے بس ہوکر دیار غیر چلے جاتے ہیں، زندہ، متحرک اور فعال معاشرے سب سے زیادہ اپنی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں کہ ان کا طریقہ کار کیا ہے۔

روزگار کے لیے ہماری سیاسی جماعتیں اپنے نوجوان کارکنوں کے لیے کوئی بنیادی خیال پیش نہیں کرتیں، پیشہ ورانہ صلاحیتیں رکھنے والوں کو صنعتوں کی طرف بھیجنے کا کوئی سسٹم نہیں، کارخانے اور فیکٹریاں روزگار دینے کے لیے کوئی پروگرام نہیں رکھتیں، سائٹ کا علاقہ ویران پڑا ہوا ہے، اندر جو صنعتیں رواں ہیں انھیں زیادہ تر ٹھیکیداروں کے سپرد کردیا گیا ہے۔

ایک مکمل صنعتی پالیسی اور ملکی ترقی کو ملک گیر خوشحالی سے جوڑنے والی حکمت عملی کا فقدان ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بیروزگاری کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا گیا، غربت کے باعث پیشہ ور مجرموں نے شہری علاقوں کو جنگل کے قانون کے نرغے میں لے لیا ہے، خواتین کی زندگیاں، پرس ، زیورات اور نقدی محفوظ نہیں، پولیس گردی نے پر امن شہریوں کو اپنے روزگار سے بھی غیر محفوظ بنا دیا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے حفاظت کی امید بھی ماند پڑتی نظر آتی ہے، کیونکہ جرائم کی وارداتوں میں اکثر قانون نافذ کرنے والے خود شامل ہوتے ہیں، بربریت اور وحشت عود کر آئی ہے۔

جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ روزگار کی فراہمی شرط اول ہے، سماج کو جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے فطری تعلق معیشت کے استحکام سے پیدا ہوتا ہے لیکن معاشی اور صنعتی استحکام پر مامور سیاسی جماعتوں کے اپنے ایجنڈے ہیں، ایک فلاحی ریاست اور مساوات پر مبنی اقتصادی نظام کے لیے عوام کی رہنمائی کے لیے ادارے تعاون کرلیں تو صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے لیکن صنعتی ادارے حکمرانوں کے اشاروں کے پابند ہیں اور عجیب بے بسی کا عالم ہے کہ صنعت کاروں، سرمایہ کاروں کو افرادی قوتوں کا انتظار ہے لیکن بے روزگاری کا طوفان کم ہوتا نظر نہیں آتا۔ ضرورت ایک مکمل صنعتی، فلاحی پالیسی اور ''روزگار دوست مہم '' کی ہے، نظام تعلیم کو صنعتی پالیسی اور کارخانوں کی طرف پھیرنا پڑے گا۔


ہر گھر سے ایک بے روزگار کو روزگار دینے کے لیے سیاسی قیادتوں کو اپنے فرائض ادا کرنا ہونگے، چین کا صرف ذکر کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے، جو پالیسی اور انقلاب چین نے اپنے ہاں برپا کیا ہے، وہ کام صنعت کار، سرمایہ کار، مزدور اور مالکان ملک میں انجام دیں پھر ملک ترقی کرے گا، معیشت کو استحکام نصیب ہوگا۔ صرف ایک خبر کے اقتباس سے اندازہ لگا لیجیے کہ ملکی معیشت کی سمت درست کیسے ہوسکتی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی ) کے مطابق پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں تجارت کی شرح دنیا کے کم تناسب میں شامل ہے، جو مجموعی جی ڈی پی کا صرف 30فیصد ہے۔ تاہم بینک کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مکمل تباہ کن اور مایوس کن صورتحال ہے، ملک میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت اور تجارت سے متعلق اپنی رپورٹ میں اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ اپنی نمو کو فروغ دینے کے لیے پاکستان اپنی معیشت کو تجارت کے لیے مزید کھولنے کی حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔

بینک کا اپنی '' پاکستان اکانومی اینڈ ٹریڈ ان دا ایج آف گلوبل ویلیو چینز'' کے عنوان سے رپورٹ میں کہنا تھا کہ اگر اس کے حجم کو مدِ نظر رکھا جائے تو دنیا میں جی ڈی پی میں تجارت کی کم شرح میں سے ایک پاکستان کی ہے جو صرف 30 فیصد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بہتری کی بڑی صلاحیت رکھتا ہے، ملک سے متعلق مختلف جائزوں نے معاشی کشادگی سمیت اسپیشلائزیشن کے مواقعے، وسیع تر مارکیٹوں تک رسائی، معلومات کی آمد اور معیشت کو باقاعدہ بنا کر کے بے شمار فوائد کی تصدیق کی ہے۔

رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ ملک کا موجودہ طرز معیشت اس وقت امریکا، یورپ اور چین کے جیسا ہے، جو ٹیکسٹائل کے شعبے میں خاصیت رکھتا ہے البتہ اس کی کچھ زرعی مصنوعات مشرق وسطیٰ کو فروخت کی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا جنوبی ایشیا میں اپنے قریبی پڑوسیوں کے ساتھ کوئی خاص تجارتی تعلق نہیں ہے، واحد معیشت جس کے لیے یہ ایک بڑی منڈی ہے وہ اس کا شمالی پڑوسی ملک افغانستان ہے۔

اے ڈی بی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر برآمدی مصنوعات ٹیکسٹائل گروپنگ کے تحت آتی ہیں، برآمد کے ارتکاز کے رسمی اقدامات اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی برآمدات نسبتاً زیادہ انواع و اقسام کی ہیں، خاص طور پر دوسرے بڑے ٹیکسٹائل برآمد کرنے والے ممالک جیسے بنگلہ دیش اور کمبوڈیا کے مقابلے میں، لیکن اس کی برآمدات بھارت کے مقابلے میں کم اقسام کی ہیں۔

رپورٹ میں سال 2019 سے 2020 تک کے اعداد و شمار کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ کورونا وبا کے باعث ایک غیر معمولی سال تھا، دستیاب اعداد و شمار سے مرتب کردہ رپورٹ 166 ممالک اور معیشتوں کے لیے جی ڈی پی کی مختلف سطحوں پر اقتصادی کشادگی کا ایک خاکہ ظاہر کرتی ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کی معاشی کشادگی کا موازنہ دوسرے ممالک سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان معاشی سرگرمیوں کے لیے کھلے پن کے لحاظ سے بھارت اور بنگلہ دیش سے کم، جب کہ ایتھوپیا، برازیل اور سوڈان سے زیادہ کھلا ہے۔ اے ڈی بی کا اپنی رپورٹ میں مزید کہنا ہے کہ پاکستان نسبتاً بڑا ملک ہے تاہم اس کی تجارتی کشادگی غیر معمولی حد تک کم ہے۔

رپورٹ میں مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جن ممالک کی جی ڈی پی پاکستان کے برابر ہے، ان کی جی ڈی پی میں بھی تجارت کی شرح پاکستان سے بہت زیادہ ہے، جن میں فلپائن، نیدر لینڈز اور ویت نام شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی پاکستان کے مقابلے میں تقریباً 10گنا زیادہ ہے، پھر بھی تجارت اس کی معیشت میں زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔
Load Next Story