پاکستانیت اور ڈرامے
ہمارے بچوں کے اسکول بیگ بڑے بڑے ہیں، مگر سلیبس کے اندر کچھ نہیں!
پاکستان میں شوبز انڈسٹری تقریباً ختم ہو چکی ہے البتہ ٹی وی ڈرامے ابھی تک زندہ ہیں' ہمارے ٹی وی ڈرامے کس قسم کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کر رہے ہیں' اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں البتہ چند ایک ڈرامے دلچسپ اور سبق آموز بھی ہیں۔
آج کی دنیا میں ڈراموں کو سیاسی و قومی مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جا رہا ہے' جیسے ترکی اور ہندی ڈرامے اپنے اپنے ملک و قوم کی برتری ثابت کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں' پاکستان کو بھی ایسے ڈرامے بنانے چاہئیں' ایسے ڈراموں میں حب الوطنی، یگانگت، یکسانیت اور وطنیت کا جو پیغام دیا جاتا ہے وہ نہ تو نصاب سے ملتا ہے، نہ اسکول سے، نہ کالج سے اور نہ ہی کسی یونیورسٹی سے۔
ہمیں نصاب میں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا ہے کہ ہم نہ تو سندھی ہیں، نہ بلوچی، نہ پنجابی ، نہ پختون بلکہ ہم صرف ''پاکستانی'' ہیں۔ اور یقیناً یہی چیزیں ہمیں انتہا پسندی سے دور لے کر جا سکتی ہیں! ہماری شناخت تو پاکستان کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں! ایک فرد کے طور پر کسی کی پہچان اُس کا ملک ہوتا ہے، قومیت نہیں ہوتی! صوبہ بھی نہیں قبیلہ بھی نہیں! ہمیں قومی ترانے کا مفہوم سمجھایا جائے تو پتہ چلے گا کہ اُس پورے قومی ترانے میں صرف ایک چیز کی گونج ہے قوم،ملک اور سلطنت۔
پورے قومی ترانے میں کہیں بھی سندھ ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخواہ ، گلگت بلتستان، کشمیر کے الفاظ ہیں ہی نہیں! ہمارے ذہنوں میں قوم، مذہب، صوبہ، قبیلہ اور زبان کی تفریق کس نے ڈالی؟ ہم سب کے درمیان اتنی لکیریں کس نے کھینچ دیں؟ بہت سے سوال ذہن میں آتے ہیں، لیکن ان کے جواب تشنہ ہیں' ڈراموں میں ان سوالات کی تفصیل آنی چاہیے۔ پوری قوم کو صرف ایک جذبے سے دیکھواور وہ جذبہ ''پاکستانیت'' کا ہو۔
سوال یہ ہے کہ یہ چیزیں ہمارے نصاب کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟ کیا ان چیزوں کو سیکھنے کے لیے ہماری نسل کو فوج میں بھرتی ہونا پڑے گا؟ اگر نہیں تو خدارا ہمیں اپنے نصاب کو بدلنا ہوگا، اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، اور پھر یہ پیغام صرف ڈراموں میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہر ڈیپارٹمنٹ ، ادارے میں ہوناچاہیے، ہر اسکول، ہرکالج میں ایک پیریڈ اخلاقیات کا، ڈسپلن کا اور حب الوطنی کا ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں حالات تو یہ ہیں کہ یہاں جب طالب علم 4سال کی گریجویشن کر کے نکلتا ہے، تو اُسے جنرل نالج کا بالکل علم نہیں ہوتا۔
نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان کون تھے،نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ خان لیاقت علی خان کون تھے، نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں اُسے کیسے حصہ ڈالنا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ نہ تو انھیں آغاز سے ہی اخلاقیات پڑھائی جاتی ہیں، نہ جنرل نالج پڑھایا جاتا ہے، نہ مقابلوں کے امتحانات کے لیے تیار کیا جاتا ہے، نہ ڈسپلن سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی انھیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ایک اچھا شہری بن کر اس ملک و قوم کی کیسے خدمت کر سکتے ہیں؟
یعنی ہمارے بچوں کے اسکول بیگ بڑے بڑے ہیں، مگر سلیبس کے اندر کچھ نہیں! لہٰذااس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کریں، اور یہ کام ہمارے کرتا دھرتائوں کا ہے، اس کے لیے وہ ایسے ایسے طریقے اختیار کریں کہ طلبہ بھی اسے اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ یہ بالکل ایسے ہی ہو جیسے جب بھی کڑوی گولی بنائی جاتی ہے تو اُس کے اوپر میٹھے کا کوٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ آپ اُسے بآسانی نگل لیں اور افاقہ بھی ہو جائے! ورنہ کڑوی گولی جب بھی دیں گے تو مریض اُسے نگلنے کے بجائے باہر پھینک دے گا جس سے افاقہ ہونے کے بجائے اُلٹا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
آج کی دنیا میں ڈراموں کو سیاسی و قومی مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جا رہا ہے' جیسے ترکی اور ہندی ڈرامے اپنے اپنے ملک و قوم کی برتری ثابت کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں' پاکستان کو بھی ایسے ڈرامے بنانے چاہئیں' ایسے ڈراموں میں حب الوطنی، یگانگت، یکسانیت اور وطنیت کا جو پیغام دیا جاتا ہے وہ نہ تو نصاب سے ملتا ہے، نہ اسکول سے، نہ کالج سے اور نہ ہی کسی یونیورسٹی سے۔
ہمیں نصاب میں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا ہے کہ ہم نہ تو سندھی ہیں، نہ بلوچی، نہ پنجابی ، نہ پختون بلکہ ہم صرف ''پاکستانی'' ہیں۔ اور یقیناً یہی چیزیں ہمیں انتہا پسندی سے دور لے کر جا سکتی ہیں! ہماری شناخت تو پاکستان کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں! ایک فرد کے طور پر کسی کی پہچان اُس کا ملک ہوتا ہے، قومیت نہیں ہوتی! صوبہ بھی نہیں قبیلہ بھی نہیں! ہمیں قومی ترانے کا مفہوم سمجھایا جائے تو پتہ چلے گا کہ اُس پورے قومی ترانے میں صرف ایک چیز کی گونج ہے قوم،ملک اور سلطنت۔
پورے قومی ترانے میں کہیں بھی سندھ ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخواہ ، گلگت بلتستان، کشمیر کے الفاظ ہیں ہی نہیں! ہمارے ذہنوں میں قوم، مذہب، صوبہ، قبیلہ اور زبان کی تفریق کس نے ڈالی؟ ہم سب کے درمیان اتنی لکیریں کس نے کھینچ دیں؟ بہت سے سوال ذہن میں آتے ہیں، لیکن ان کے جواب تشنہ ہیں' ڈراموں میں ان سوالات کی تفصیل آنی چاہیے۔ پوری قوم کو صرف ایک جذبے سے دیکھواور وہ جذبہ ''پاکستانیت'' کا ہو۔
سوال یہ ہے کہ یہ چیزیں ہمارے نصاب کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟ کیا ان چیزوں کو سیکھنے کے لیے ہماری نسل کو فوج میں بھرتی ہونا پڑے گا؟ اگر نہیں تو خدارا ہمیں اپنے نصاب کو بدلنا ہوگا، اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، اور پھر یہ پیغام صرف ڈراموں میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہر ڈیپارٹمنٹ ، ادارے میں ہوناچاہیے، ہر اسکول، ہرکالج میں ایک پیریڈ اخلاقیات کا، ڈسپلن کا اور حب الوطنی کا ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں حالات تو یہ ہیں کہ یہاں جب طالب علم 4سال کی گریجویشن کر کے نکلتا ہے، تو اُسے جنرل نالج کا بالکل علم نہیں ہوتا۔
نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان کون تھے،نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ خان لیاقت علی خان کون تھے، نہ اُسے علم ہوتا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں اُسے کیسے حصہ ڈالنا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ نہ تو انھیں آغاز سے ہی اخلاقیات پڑھائی جاتی ہیں، نہ جنرل نالج پڑھایا جاتا ہے، نہ مقابلوں کے امتحانات کے لیے تیار کیا جاتا ہے، نہ ڈسپلن سکھایا جاتا ہے اور نہ ہی انھیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ایک اچھا شہری بن کر اس ملک و قوم کی کیسے خدمت کر سکتے ہیں؟
یعنی ہمارے بچوں کے اسکول بیگ بڑے بڑے ہیں، مگر سلیبس کے اندر کچھ نہیں! لہٰذااس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کریں، اور یہ کام ہمارے کرتا دھرتائوں کا ہے، اس کے لیے وہ ایسے ایسے طریقے اختیار کریں کہ طلبہ بھی اسے اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ یہ بالکل ایسے ہی ہو جیسے جب بھی کڑوی گولی بنائی جاتی ہے تو اُس کے اوپر میٹھے کا کوٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ آپ اُسے بآسانی نگل لیں اور افاقہ بھی ہو جائے! ورنہ کڑوی گولی جب بھی دیں گے تو مریض اُسے نگلنے کے بجائے باہر پھینک دے گا جس سے افاقہ ہونے کے بجائے اُلٹا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔