صاف پانی کیس کا فیصلہ

کہا جاتا ہے کہ اب نیب اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے

msuherwardy@gmail.com

کراچی:
احتساب عدالت نے صاف پانی ریفرنس کے تمام ملزمان کو با عزت بری کرتے ہوئے ریفرنس کو وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔

صاف پانی کیس میں بھی دراصل شہباز شریف کو پھنسانے کی بہت کوشش کی گئی۔ سب سے پہلے شہباز شریف کو ہی صاف پانی کیس کے نوٹس بھیجے گئے بلکہ جب شہباز شریف کو پہلی دفعہ نیب نے گرفتار کیا تو انھیں بلایا صاف پانی کیس کی تفتیش کے لیے گیا تھا تاہم گرفتار آشیانہ میں کر لیا گیا۔

لیکن پھر بھی نیب اور حکومت نے شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں پھنسانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ تاہم ایک ماحول بنایا گیا کہ صاف پانی میں بہت کرپشن ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے اپنے بیٹی اور داماد کو نواز دیا ہے۔ حالانکہ حقائق اس سے برعکس تھے۔

احتساب عدالت کے جج محمد ساجد علی نے 23صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا ہے۔ فیصلہ میں نیب کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما انجینئر قمرالاسلام سمیت 16 افراد کو بری کر دیا ہے۔ فیصلہ میں واضح لکھا گیا ہے کہ ملزمان سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا ہے۔ ضابطہ جاتی سقم کو جرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ذرا سا قانونی ثبوت بھی موجود نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ سرکاری اختیار کا غلط استعمال ہوا۔ فیصلے کے مطابق مجرمانہ ذہنیت کا پایا جانا جرم کے سرزد ہونے کے لیے لازم ہے جو زیر نظر مقدمے میں کہیں موجود نہیں۔ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ اسکیم پر عمل درآمد میں ملی بھگت یا بدنیتی ہوئی، غیرقانونی فائدہ پہنچایا گیا یا اختیارات کا غلط استعمال ہوا۔

جج کے مطابق ریکارڈ کے مطالعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ کسی سیاسی فرد یا کسی اور نے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا نہ ہی کسی اور فرد کو غیرقانونی مالی فائدہ پہنچایا گیا۔ اس لیے قومی احتساب بیورو آرڈیننس (این اے او) مجریہ 1999کے تحت کوئی مقدمہ نہیں بنتا۔ اسی لیے احتساب قوانین کے تحت کسی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ زیر نظر ریفرنس کو منظور کرنا وقت کا ضیاع ہوگا۔

ریفرنس میں تعمیراتی عمل، تعمیراتی قیمت کے تعین سمیت تمام لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ منصوبے میں تمام متعلقہ قاعدے قانون اور ضابطوں پر عمل کیا گیا۔تمام عمل متعلقہ کمیٹیوں میں مکمل غورو خوض اور مشاورت سے کیاگیا، کوئی تبدیلی بھی منصوبے کو مزید بہتر، متحرک، موثر بنانے اور زیادہ سے زیادہ عوام کے استفادے کے ارادے اور مقصد سے کی گئی۔

فیصلہ میں صاف کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے اور اس میں کی گئی ادائیگیوں میں ریکارڈ کی روشنی میں کسی ضابطے اور قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ اس لیے وسیم اجمل اور شریک ملزمان سے اختیارات کا غلط استعمال ثابت نہیں ہوتا۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات منصوبہ مکمل ہونے کے خاصے عرصے بعد لگائے گئے ہیں۔ اس لیے بعد ازاں آنے والی الزامات پر مبنی رپورٹس قابل اعتبار ہیں نہ ہی ان پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔

عدالت کے مطابق ان رپورٹس کو کسی کو غلط یا ناجائز مالی فائدہ پہنچائے جانے کا جامع ثبوت نہیں کہا جا سکتا، یہ چیز موجود نہیں۔ اگر مجرمانہ ذہنیت سے کسی کو کوئی مالی فائدہ پہنچایا ہی نہیں گیا تو وہ نیب قانون کی دست اندازی کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ عدالت نے شہبازشریف کے دور کے صاف پانی پروجیکٹ کو بالکل صاف اور شفاف قرار دیا ہے۔ پراسکیوشن صاف پانی پروجیکٹ میں کوئی خلاف ورزی یا لاقانونیت ثابت نہیں کرسکی۔


عدالت نے فیصلہ میں تحریر کیا ہے کہ سروے کی ایسسمنٹ سے لے کر پروجیکٹ مکمل ہونے تک تمام متعلقہ رولز اور قوانین پر مکمل عملدرآمد کیا گیا۔پروجیکٹ میں جو بھی تبدیلی کی گئی متعلقہ کمیٹیوں کی سفارشات اور منظوری سے کی گئی تھیں۔ پروجیکٹ میں جو بھی تبدیلی کی گئی اس کا مقصد منصوبے کو مزید بہتر بنانا اور زیادہ سے زیادہ عوام کو فائدہ پہنچانا تھا۔متعلقہ کمیٹیوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پروجیکٹ میں تبدیلیوں سے منصوبے کی اصل لاگت میں اضافہ نہ ہو۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیب نے صاف پانی کمپنی کا ضمنی ریفرنس بھی دائر کیاتھا۔ جس میں شہباز شریف کے داماد علی عمران اور ان کی بیٹی رابعہ عمران کو ملزم بنایا گیا کہ ان کے ملکیتی ایک پلازہ کو صاف پانی کمپنی نے کرایہ پر حاصل کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے۔پلازے کا تیسرا فلور اوپن بڈنگ کے ذریعے صاف پانی کمپنی کو دیا گیا۔نیب کا الزام تھا کہ فلور کا کبھی قبضہ نہیں لیا گیا اور ایڈونس کرایہ دیا گیا۔

احتساب عدالت کے فیصلہ میں قرار دیا گیا ہے کہ حقائق کے مطابق صاف پانی کمپنی نے نا صرف باقاعدہ قبضہ لیا بلکہ نئی انتظامیہ نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی لاقانونیت، رولز کی خلاف ورزی یا مالی فوائد سامنے نہیں آئے ۔ سابق سی ای او وسیم اجمل نے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔ علی عمران کی کمپنی اور صاف پانی کے درمیان معاملہ معاہدے کے قواعد و ضوابط پورے نہ کرنے کا تھا ۔دونوں کے درمیان کیس نیب قوانین کے زمرے میں نہیں آتا۔

احتساب عدالت کے فیصلہ سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ شہباز شریف'ان کے دامان اور بیٹی کو جان بوجھ کر اس کیس میں پھنسانے کی کوشش کی گئی۔ دونوں کا جرم اتنا تھا کہ وہ شہباز شریف کے داماد اور بیٹی تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں مفرور ہیں، اور وہ نیب میں پیش نہیں ہوئے۔ لیکن اگر ایک لمحہ کے لیے سوچیں دونوں پیش ہوتے اور انھیں بھی باقی ملزمان کی طرح گرفتار کر لیا جاتا۔ وہ بھی کئی کئی ماہ جیل کاٹتے اور انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے۔

وہ غیر سیاسی لوگ تھے۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے فرار میں ہی عافیت جانی۔ تا ہم اس کیس کی وجہ سے انھیں جس قدر نقصان ہوا کیا ہم سب اس کا اندازہ بھی کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف پر کس قدر دبائو آیا ہوگا ہم اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ بیٹی اور داماد کا رشتہ کتنا نازک ہوتا ہے' اس کا ہم سب کو اندازہ ہے۔ آج احتساب عدالت کا فیصلہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کو احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلمان شہباز پر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو بھی شکایت کی گئی اور وہ وہاں سے بھی بری ہوئے ہیں۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے شہباز شریف اور ان کے خاندان کے پندرہ سال کے بینک اکائونٹس کا جائزہ لیا ہے اور انھیں کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ یہ تحقیقات بھی پاکستان کی حکومت کے کہنے پر ہوئی ہیں۔ لیکن وہاں بھی شہباز شریف کے خلاف کچھ نہیں ملا ہے۔

تاہم آج بھی شہباز شریف حکومت کے نشانہ پر ہیں۔ ان پر مزید کیس بنانے کی بازگشت ہیں۔ عمران خان نے انھیں پہلے دن سے نشانہ پر رکھا ہوا ہے۔ دو دفعہ نیب سے گرفتار کروایا گیا ہے۔ اب ایف آئی اے سے گرفتار کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈیلی میل اور ڈ یوڈ روز والا معاملہ بھی شہباز شریف کے حق میں ہی جا رہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے صرف شہباز شریف کو سیاسی طور پر مائنس کرنے کی ہی کوشش نہیں کی بلکہ ان کے کاروباری معاملات کو بھی نقصان پہنچانے کی بھی بھر پور کوشش کی ہے۔ ان کے بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان کی بیٹیوں اور داماد کو نشانہ بنانا افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تا ہم اس سب کے باوجود حکومت اور نیب مل کر بھی شہباز شریف کو مائنس نہیں کر سکے ہیں۔ اور وہ آج بھی پاکستان کی سیاست کے محور نظر آرہے ہیں۔ یہی موجودہ حکومت کی بڑی ناکامی ہے جس کا وہ برملا اعتراف بھی کر رہی ہے۔ لیکن شہباز شریف نے اس سب کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ نیب سے کوئی کچھ نہیں پوچھ سکتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اب نیب اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے۔ جب آپ اس طرح کے جھوٹے ریفرنس بنائیں گے۔ اور لوگوں کو بے گناہ کئی کئی ماہ جیل میں رکھیں گے تو کیا کہا جائے گا۔ بہر حال بے شک شہباز شریف کے داماد اور بیٹی بے قصور ثابت ہو گئے ہیں لیکن جو تکلیف ملی ہے اس کا کوئی مداوا نہیں۔
Load Next Story