اندیشوں کے بھنور

زندگی سے سبق حاصل کرکے تجربات کی بھٹی سے جلا پانے والے بزرگ معاشرے کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔۔۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے جیسے دنیا مادی ترقی کرتی چلی جا رہی ہے زندگی میں سکون اور خوشی کم سے کم جب کہ اندیشے اور خوف بڑھتے جا رہے ہیں۔ زندگی اﷲ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے ہمیں قدرت کے اس انمول تحفے کو خوبصورت، حسیں اور بامقصد بنانا چاہیے۔ زندگی کو بہتر اور مثالی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور وہ تمام ضروریات پوری کرنے کی کاوشیں بھی کرنی چاہئیں جن سے اس دنیا اور اس دنیا کے بعد والی دنیا بھی بہتر اور مثالی ہو سکے۔ زندگی کی فطری مسرتیں چھیننے میں طرح طرح کے اندیشے اور خوف بڑھتے جا رہے ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں ایسے افراد کثرت سے نظر آتے ہیں جو اندیشوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ پریشانیاں اور مسائل ہمیں بے چین کر دیتے ہیں لیکن کیا واقعی زندگی کے بعض مسائل اتنے اہم ہیں کہ ان کی خاطر ہم اپنا سکون ہی برباد کر دیں؟ یہاں ہم زندگی کے مختلف طبقوں اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے اندیشوں کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا نوجوان کئی اندیشوں میں مبتلا نظر آتا ہے، ایک مسئلہ جو بہت تیزی کے ساتھ سامنے آیا ہے وہ بعض نوجوانوں کو یہ گلہ بھی ہو جاتا ہے کہ ہماری نجی زندگی میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ پھر بھی خاندانی نظام اتنا مضبوط ہوا کرتا تھا کہ ''کچھ دو اور کچھ لو'' کے مصداق ایڈجسٹمنٹ ہو رہی تھی۔ شہری زندگی کے پھیلاؤ کی وجہ سے فیملی سسٹم مختصر ہونے لگا، مہنگائی اور بے روزگاری نے خاندانی نظام پر قدغن لگائی۔ ٹی وی، وی سی آر، سی ڈی، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی آمد سے نئی نسل کا ذہن کافی حد تک تبدیل ہو گیا۔ ان حالات میں بعض گھرانوں میں بزرگ اور نئی نسل میں جنریشن گیپ دیکھنے میں آیا۔ نوجوانوں کا بہت بڑا مسئلہ جو پچھلے دس پندرہ سال کے دوران ابھر کر سامنے آیا بے روزگاری اور کم آمدنی والا روزگار ہے۔ بے روزگاری اور غیر محفوظ ملازمت بہت سے نوجوانوں کی ذہنی صحت کو دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے۔ نوجوانوں کا ایک اور اہم مسئلہ فیوچر شاک ہے، یعنی مستقبل کے اندیشے۔۔۔ معاشی مشکلات انھیں انجانے خطرات میں مبتلا رکھتی ہیں۔ شادی کے لیے کثیر سرمایہ شادی کے بعد مالی ضروریات کا پورا کرنا، ذاتی مکان کے حصول کا خواب یہ تمام چیزیں بہت سے نوجوانوں کو مستقل ذہنی پریشانی میں مبتلا رکھتی ہیں۔

شادی سے پہلے لڑکیاں جن اندیشوں میں مبتلا ہوتی ہیں انھیں شاید ان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ کسی اچھے رشتے کا انتظار بھی ایک عجیب ذہنی دباؤ بن جاتا ہے۔ جب کوئی رشتہ آئے تب بھی وہ دہرے خوف سے گزرتی ہیں پہلا خوف یہ کہ اسے ٹھکرا نہ دیا جائے، مسترد کر دینے کے اس احساس کو شاید دوسرا اس سے بہتر محسوس ہی نہیں کر سکے گا۔ دوسرا خوف یہ کہ اگر رشتہ طے ہو گیا ہے تو شوہر نہ جانے کس طبیعت کا ہو اور شادی کے بعد زندگی نہ جانے کیسی گزرے؟ معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی اور اخلاقی قدروں کے زوال کے باعث بھی اکثر لڑکیاں بہت سے اندیشوں میں مبتلا رہتی ہیں۔ مثلاً گھر سے نکلتے ہوئے اوباش نگاہوں کا خوف کسی کی شر انگیزی کا خوف وغیرہ وغیرہ۔

خواتین خانہ بھی بہت سے اندیشوں کا شکار رہتی ہیں، کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرتی ہیں۔ ایک اہم مسئلہ شوہر، ساس، بہو کی کھٹ پٹ، نند بھاوج کی تند و تیز لڑائیوں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ پچھلی سطور میں عرض کیا گیا کہ بہت سے افراد کم آمدنی سے پریشان ہیں۔ یہ پریشانی ان کی بیویوں کی سوچ میں بھی تلخی گھول دیتی ہے۔ کم آمدنی میں گھریلو بجٹ بنانا اشیائے خورونوش اور یوٹیلیٹی بلز کے لیے رقم الگ کرنا، بچوں کی فیسوں اور دیگر ضروریات کے لیے پیسے مختص کرنا، ایسے مسائل ہیں جو انھیں مستقل ذہنی دباؤ میں مبتلا رکھتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سوچ و بچار کا زیادہ بوجھ بھی اکثر خاتون خانہ پر ہی پڑتا ہے۔ بچے اسکول میں ٹھیک سے پڑھ رہے ہیں یا نہیں، بچوں کے دوست کہیں برے بچے تو نہیں اور ان کی صحت و اخلاق خراب تو نہیں ہو رہے ان معاملات کا بوجھ بھی بہت سے گھروں میں صرف عورتوں پر ہی ہوتا ہے۔


زندگی سے سبق حاصل کرکے تجربات کی بھٹی سے جلا پانے والے بزرگ معاشرے کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس عمر میں بھی کئی افراد کو بعض اندیشے گھیرے رہتے ہیں، مثلاً ریٹائرمنٹ کا خوف، ریٹائرمنٹ کے وقت آدمی ایک خاص ذہنی کیفیت سے گزرتا ہے اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مشین کے بے کار پرزے کی طرح اسے مشین سے نکالا جا رہا ہو۔ ریٹائرمنٹ کی زندگی بعض اوقات بزرگوں کے اندر ناقدری یا نظر انداز کیے جانے کا احساس بھی پیدا کردیتی ہے۔ زندگی کی رفتار کا ساتھ دیتی ہوئی اولاد کو دیکھ کر بعض بزرگوں کی نگاہوں سے اپنے ماضی کا عملی اور متحرک دور شاید اوجھل ہوجاتا ہے۔

بزنس سے وابستہ افراد بھی طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہوجانے کا خوف، مسابقت کی دوڑ، کمپیٹیشن کا خوف، پروڈکٹ کی تیاری کا دباؤ، میٹریل مہنگا ہونے کی پریشانی، مارکیٹ میں پروڈکٹ کی باقاعدہ کھپت کا خیال، ملکی یا عالمی سطح یا عالمی سطح پر ناخوشگوار حالات و واقعات، آئے دن کی ہڑتال پر تشویش وغیرہ وغیرہ۔ ایک تجارت پیشہ شخص اپنی سرگرمیوں کے دوران کافی اسٹریس کا شکار ہوتا ہے اس کا دماغ اور اعصاب الرٹ رہتے ہیں جس سے زیادہ ذہنی اور جسمانی توانائی خرچ ہوتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا کا ہر شخص اندیشوں اور انجانے خوف کا شکار ہے، چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو یا اس کا کوئی بھی مذہب و ملت ہو، ہر آدمی کے اندر کسی نہ کسی قسم کے اندیشے جنم لیتے رہتے ہیں، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اندیشوں کے بھنور میں پھنسے رہنا ہر شخص کا مقدر ہے؟ ہر آدمی خوف و غم میں مبتلا ہے؟ خوف سے نجات کے راستے مسدود ہیں کیونکہ آدمی اس سے گلوخلاصی نہیں کرسکتا۔ کیا ہم خود کو اس بھنور میں پڑا رہنے دیں کیونکہ ذہنی دباؤ تو ہر شخص پر ہی حملہ آور ہوتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ پیغمبرانہ تعلیمات نے ہمیں ایسے سنہری اصول بتائے ہیں جو ہمیں روحانی اور ذہنی سکون سے آشنا کرتے ہیں۔ سچا عمل کرنے والا وہ شخص ہے جو اپنی تمام خواہشات اور تمناؤں کو اﷲ کی محبت کے تابع کرے۔ خداوند کریم کی رضا پر راضی رہے اور محض وہ بات کرے جو حق تعالیٰ کو پسند ہے۔ بے جا اندیشوں سے بچنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص کو چاہیے کہ کاروبار حیات میں مذہبی قدروں، اخلاقی اور معاشرتی قوانین کا احترام کرتے ہوئے پوری جدوجہد اور کوشش کرے لیکن نتیجے پر نظر نہ رکھے۔ نتیجہ اﷲ کے اوپر چھوڑ دے۔ اس لیے آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ حالات جس طرح چابی بھر دیتے ہیں آدمی اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بے شک اﷲ قادر مطلق اور ہر چیز پر محیط ہے۔ حالات پر اس کی گرفت ہے وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے حالات میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔

غرض اس طرح مثالیں اٹھاتے جائیے اور ملاحظہ کیجیے کہ خوف اور غم کے منڈلاتے سایوں کو اپنے اوپر طاری کرنے کے بجائے امید اور یقین کی روشنی سے انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم ان پریشانیوں اور دشواریوں کو خود پر طاری کر لیتے ہیں تو مایوسی اور ناامیدی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی طرز فکر اور طرز سوچ میں مثبت تبدیلی کر کے ہم اندیشوں کی یلغار کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں اپنا ہر معاملہ کلی طور پر اپنے پروردگار کو سونپ دیں۔ خواہشات کی کثرت بندے کے لیے پریشانی اور بربادی کا ایک ہلاکت خیز جنگل ہے ۔
Load Next Story