سیاسی قوتیں امن کی تلاش میں
الزامات، دعووں اور اعلانات کے ساتھ شہر میں ٹارگیٹڈ آپریشن جاری
کراچی کے سیاسی منظر نامے میں ان دنوں احتجاج کا رنگ نمایاں ہے۔
مختلف معاملات پر سیاسی جماعتیں خدشات اور تحفظات کا اظہار کرنے کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر تنقید کررہی ہیں۔ شہر میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود بدامنی اور ہدفی قتل کے واقعات پر مختلف حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، جب کہ عوام خوف زدہ ہیں۔ پچھلے دنوں مسلم لیگ ن (کراچی ڈویژن) نے زخموں سے چُور کراچی میں سیاسی جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے اکٹھا ہونے کا موقع دیا۔ اس کانفرنس کا عنوان ''مثبت سیاسی اقدار اور اقتدار، کراچی میں امن و ترقی کا پیش خیمہ ہوگا'' تھا۔
کانفرنس میں متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی، تحریک انصاف، سنی تحریک، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کے راہ نما شریک تھے۔ سب کا اتفاق اس بات پر تھا کہ شہر میں بدامنی کے خاتمے کے لیے بلاتفریق آپریشن جاری رکھا جائے، جب کہ مشترکہ قراردادوں میں کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کرنے کی بات بھی کی گئی۔
اتوار کے دن مسلم لیگ ہاؤس میں پارٹی کے مقامی صدر نہال ہاشمی نے کہا کہ کراچی میں تمام سیاسی جماعتیں خاندان کی طرح ہیں۔ کراچی کا امن ملک کے لیے ضروری ہے اور قیام امن کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت ہر ممکن تعاون کررہی ہے اور وزیراعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ کراچی امن کا گہوارہ بنے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے کہا کہ دہشت گردی اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔
پیپلز پارٹی نے بھی قانون شکن عناصر کو اہمیت دے کر سیاسی غلطی کی تھی۔ تاہم بعد میں اس کا ازالہ کیا اور ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ان کے مطابق آئی جی سندھ نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی پولیس میں 30 فی صد دہشت گرد موجود ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ نے انہیں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔ کانفرنس میں موجود متحدہ کے راہ نما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ کراچی آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے بجائے ایم کیو ایم کے خلاف کیا جارہا ہے۔ آپریشن کے باوجود 150 افراد مہینے میں قتل ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پولیس اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان گٹھ جوڑ ہے۔ اسی لیے آپریشن فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے راہ نما قاری محمد عثمان نے کہا کہ کراچی میں غیر جانب دارانہ آپریشن کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے راہ نما ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ این آر او بھی ہے، کیوں کہ این آر او کے تحت دہشت گردوں کو رہا کیا گیا تھا، جو کراچی میں قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے راہ نما یونس بارائی نے کراچی میں بدامنی کو پرانا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ آج کراچی کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والے خود امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
جے یو آئی (س) کے حافظ احمد علی نے کہا کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔ اس موقع پر سنی تحریک کے راہ نما شاہد غوری کراچی آپریشن سے متعلق کہا کہ انہیں بھی تحفظات ہیں۔ تاہم وہ امن کی خاطر خاموش ہیں۔ اس کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی کے راہ نما الطاف خان ایڈووکیٹ بھی موجود تھے، جنہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے کراچی میں امن کے لیے ہمیشہ مثبت اقدامات کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے تمام قوتوں کو متحد ہونا چاہیے۔
دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے کارکنوں کے قتل، گرفتاریوں اور گم شدگی پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ متحدہ کے آپریشن پر تحفظات اور شکایات وفاقی اور صوبائی حکومتوں تک پہنچ رہے ہیں اور اب انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کو کراچی ایرپورٹ پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ کراچی آپریشن میں مشکلات ضرور ہیں، لیکن کراچی کا امن واپس لائیں گے، ہم ان لوگوں کا پیچھا کریں گے، جو پولیس پر حملوں میں ملوث ہیں، کراچی میں امن کے لیے کوئی سیاست نہیں ہوگی، کراچی میں آپریشن میں کام یابی ملی ہے، مگر آپریشن کو مزید مؤثر بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کے لیے ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں سے رابطوں کے لیے دو کمیٹیاں بنائی ہیں اور ان رابطوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کی گرفتاری 24 گھنٹوں میں ظاہر کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ وفاقی وزیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایم کیوایم نے لاپتہ افراد کی فہرست دی ہے، کسی سرکاری افسرکو ہٹانے یا کسی کے خلاف کوئی شکایت یا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے تیسرے مرحلے میں رکاوٹ آئی ہے، جسے دور کیا جائے گا، انہوں نے واضح کیا کہ یہ آپریشن کسی ایک پارٹی یا گروہ کے خلاف نہیں کیا جارہا۔
دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گورنر ہاؤس سے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بلاجواز گرفتاریوں، تشدد، 45 لاپتہ کارکنان کی بازیابی، 10 کارکنان کے ماورائے عدالت قتل اور اپنے تحفظات سے انہیں آگاہ کیا، جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے شکایات کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ تاہم بعد میں چوہدری نثار کی زبانی میڈیا کو معلوم ہوا کہ ان کی نہیں بلکہ گورنر سندھ کی الطاف حسین کی بات ہوئی ہے اور ایم کیوایم نے بھی اس سے متعلق لاعملی کا اظہار کیا۔ بہرحال، پچھلے دنوں ہی گورنر ہاؤس کے اجلاس میں کراچی میں آپریشن جاری رکھنے اور آپریشنل ٹیم کو تبدیل نہ کرنے کی بات بھی ہوئی۔
تاہم حکومت سندھ ایم کیو ایم کی شکایات کے ازالے کے لیے فوری اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس آپریشن کی نگرانی کے لیے وزیراعظم کی منظوری سے کمیٹی بھی قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی موجود تھے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے دبئی میں سید قائم علی شاہ کی ملاقات میں بھی سیاسی صورت حال، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات اور کراچی آپریشن پر ایم کیوایم کے تحفظات پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ باخبر ذرایع کے مطابق اس ملاقات میں وفاق اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطوں پر تفصیلی غور کیا گیا۔
مختلف معاملات پر سیاسی جماعتیں خدشات اور تحفظات کا اظہار کرنے کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر تنقید کررہی ہیں۔ شہر میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود بدامنی اور ہدفی قتل کے واقعات پر مختلف حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، جب کہ عوام خوف زدہ ہیں۔ پچھلے دنوں مسلم لیگ ن (کراچی ڈویژن) نے زخموں سے چُور کراچی میں سیاسی جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے اکٹھا ہونے کا موقع دیا۔ اس کانفرنس کا عنوان ''مثبت سیاسی اقدار اور اقتدار، کراچی میں امن و ترقی کا پیش خیمہ ہوگا'' تھا۔
کانفرنس میں متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی، تحریک انصاف، سنی تحریک، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کے راہ نما شریک تھے۔ سب کا اتفاق اس بات پر تھا کہ شہر میں بدامنی کے خاتمے کے لیے بلاتفریق آپریشن جاری رکھا جائے، جب کہ مشترکہ قراردادوں میں کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کرنے کی بات بھی کی گئی۔
اتوار کے دن مسلم لیگ ہاؤس میں پارٹی کے مقامی صدر نہال ہاشمی نے کہا کہ کراچی میں تمام سیاسی جماعتیں خاندان کی طرح ہیں۔ کراچی کا امن ملک کے لیے ضروری ہے اور قیام امن کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت ہر ممکن تعاون کررہی ہے اور وزیراعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ کراچی امن کا گہوارہ بنے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر نے کہا کہ دہشت گردی اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔
پیپلز پارٹی نے بھی قانون شکن عناصر کو اہمیت دے کر سیاسی غلطی کی تھی۔ تاہم بعد میں اس کا ازالہ کیا اور ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ان کے مطابق آئی جی سندھ نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی پولیس میں 30 فی صد دہشت گرد موجود ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ نے انہیں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔ کانفرنس میں موجود متحدہ کے راہ نما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ کراچی آپریشن جرائم پیشہ عناصر کے بجائے ایم کیو ایم کے خلاف کیا جارہا ہے۔ آپریشن کے باوجود 150 افراد مہینے میں قتل ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پولیس اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان گٹھ جوڑ ہے۔ اسی لیے آپریشن فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے راہ نما قاری محمد عثمان نے کہا کہ کراچی میں غیر جانب دارانہ آپریشن کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے راہ نما ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ این آر او بھی ہے، کیوں کہ این آر او کے تحت دہشت گردوں کو رہا کیا گیا تھا، جو کراچی میں قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے راہ نما یونس بارائی نے کراچی میں بدامنی کو پرانا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ آج کراچی کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والے خود امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
جے یو آئی (س) کے حافظ احمد علی نے کہا کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔ اس موقع پر سنی تحریک کے راہ نما شاہد غوری کراچی آپریشن سے متعلق کہا کہ انہیں بھی تحفظات ہیں۔ تاہم وہ امن کی خاطر خاموش ہیں۔ اس کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی کے راہ نما الطاف خان ایڈووکیٹ بھی موجود تھے، جنہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے کراچی میں امن کے لیے ہمیشہ مثبت اقدامات کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے تمام قوتوں کو متحد ہونا چاہیے۔
دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے کارکنوں کے قتل، گرفتاریوں اور گم شدگی پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ متحدہ کے آپریشن پر تحفظات اور شکایات وفاقی اور صوبائی حکومتوں تک پہنچ رہے ہیں اور اب انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کو کراچی ایرپورٹ پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ کراچی آپریشن میں مشکلات ضرور ہیں، لیکن کراچی کا امن واپس لائیں گے، ہم ان لوگوں کا پیچھا کریں گے، جو پولیس پر حملوں میں ملوث ہیں، کراچی میں امن کے لیے کوئی سیاست نہیں ہوگی، کراچی میں آپریشن میں کام یابی ملی ہے، مگر آپریشن کو مزید مؤثر بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کے لیے ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں سے رابطوں کے لیے دو کمیٹیاں بنائی ہیں اور ان رابطوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کی گرفتاری 24 گھنٹوں میں ظاہر کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ وفاقی وزیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایم کیوایم نے لاپتہ افراد کی فہرست دی ہے، کسی سرکاری افسرکو ہٹانے یا کسی کے خلاف کوئی شکایت یا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے تیسرے مرحلے میں رکاوٹ آئی ہے، جسے دور کیا جائے گا، انہوں نے واضح کیا کہ یہ آپریشن کسی ایک پارٹی یا گروہ کے خلاف نہیں کیا جارہا۔
دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گورنر ہاؤس سے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بلاجواز گرفتاریوں، تشدد، 45 لاپتہ کارکنان کی بازیابی، 10 کارکنان کے ماورائے عدالت قتل اور اپنے تحفظات سے انہیں آگاہ کیا، جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے شکایات کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ تاہم بعد میں چوہدری نثار کی زبانی میڈیا کو معلوم ہوا کہ ان کی نہیں بلکہ گورنر سندھ کی الطاف حسین کی بات ہوئی ہے اور ایم کیوایم نے بھی اس سے متعلق لاعملی کا اظہار کیا۔ بہرحال، پچھلے دنوں ہی گورنر ہاؤس کے اجلاس میں کراچی میں آپریشن جاری رکھنے اور آپریشنل ٹیم کو تبدیل نہ کرنے کی بات بھی ہوئی۔
تاہم حکومت سندھ ایم کیو ایم کی شکایات کے ازالے کے لیے فوری اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس آپریشن کی نگرانی کے لیے وزیراعظم کی منظوری سے کمیٹی بھی قائم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی موجود تھے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے دبئی میں سید قائم علی شاہ کی ملاقات میں بھی سیاسی صورت حال، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات اور کراچی آپریشن پر ایم کیوایم کے تحفظات پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ باخبر ذرایع کے مطابق اس ملاقات میں وفاق اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطوں پر تفصیلی غور کیا گیا۔