ہم متحدہ عرب امارات کی اتنی خدمت کرتے ہیں لیکن نام نہاد برادرانہ تعلقات ہیں سپریم کورٹ
پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑتا ہے، جسٹس مقبول باقر
سپریم کورٹ نے اداکارہ صوفیہ مرزا کی بچیوں کی حوالگی کیس سے متعلق ہونے والی سماعت میں کہا ہم متحدہ عرب امارات کی اتنی خدمت کرتے ہیں لیکن نام نہاد برادرانہ تعلقات ہیں۔
سپریم کورٹ میں اداکارہ صوفیہ مرزا کی بچیوں کی حوالگی کے کیس سے متعلق سماعت ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سیکریٹری خارجہ سہیل احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے سیکریٹری خارجہ سے استفسار کیا وزارت خارجہ بچیوں کی واپسی اور عوامی فلاح کے کاموں میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے؟ سیکریٹری خارجہ نے کہا متحدہ عرب امارات میں متعلقہ حکام سے بچیوں کی حوالگی کے معاملے پر رابطے میں ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا متحدہ عرب امارات سے تو ہمارے نام نہاد برادرانہ تعلقات ہیں، وزارت خارجہ نے اب تک بچیوں کی واپسی کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ہم اتنے نااہل، نالائق اور پتھر دل لوگ ہیں، ہم یو اے ای کی اتنی خدمت کرتے ہیں، کتنی مجبوریاں ہیں ہماری کہ بچیاں واپس نہیں لا سکتے۔
انہوں نے کہا نام لینا نہیں چاہتا لیکن کیسے کیسے لوگ ہمارے سروں پر پیر رکھ کر بیٹھے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑتا ہے، بھارت بھی تیسرے درجے کا ہی ملک ہے مگر وہ اپنے شہریوں کے لیے کیا حشر کرتا ہے دوسرے ملکوں کا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا بچیوں کی واپسی پر کیے گئے تمام دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں، سیکریٹری صاحب آپ سینیئر بیوروکریٹ ہیں، مگر لگ رہا ہے آپ عدالت محض خانہ پوری کرنے آئے ہیں، ہمیں امید تھی کہ آپ بتائیں گے کس قانون کے تحت بچیاں واپس آسکتی ہیں۔
جسٹس مقبول باقر کے استفسار پر سیکریٹری خارجہ نے کہا وزارت خارجہ صرف رابطے کا ایک ذریعہ ہے، سفارتی سطح پر متحدہ عرب امارات سے کل بھی اجلاس کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ صوفیہ مرزا کی بچیوں کی واپسی کی درخواست پر سیکریٹری خارجہ طلب
جسٹس مقبول باقر نے کہا متحدہ عرب امارات کے حکام سے اجلاس میں کیا طے ہوا؟ اگر کوئی عزت دار ملک ہوتا تو متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کر چکا ہوتا، انٹرپول سے بچیوں کی واپسی پر کیا پیش رفت ہوئی؟
ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیتے ہوئے کہا انٹرپول صرف لوکیشن معلوم کر سکتا ہے، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بچیوں کی واپسی نا ہونے میں وزارت خارجہ اور داخلہ دونوں کی نااہلی تھی۔
اداکارہ صوفیہ مرزا نے عدالت سے استدعا کی کہ بچیوں کی واپسی کے لیے ٹیم تشکیل دے کر یو اے ای بھیجوائی جائے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا ٹیم تشکیل دے دی ہے، حکومت سے اپروول کے منتظر ہیں، ٹیم پہلے بھی گئی تھی، عدالتی حکم کے باوجود یو اے ای نے بچیوں کی حوالگی نہیں دی۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا وہ غیر مہذب لوگ ہیں انہیں عدالتی حکم سے کیا لینا دینا۔
عدالت نے ایف آئی اے کو بچیوں کی واپسی کے لیے ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا پیر تک وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، اور ایف آئی اے بچیوں کی واپسی کا مکمل لائحہ عمل تیار کرکے پیش کرے۔
عدالت نے کہا جن افسران نے بچیوں کی 12 سال سے واپسی پر غفلت برتی ان کی نشاندہی کریں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ میں اداکارہ صوفیہ مرزا کی بچیوں کی حوالگی کے کیس سے متعلق سماعت ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سیکریٹری خارجہ سہیل احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے سیکریٹری خارجہ سے استفسار کیا وزارت خارجہ بچیوں کی واپسی اور عوامی فلاح کے کاموں میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے؟ سیکریٹری خارجہ نے کہا متحدہ عرب امارات میں متعلقہ حکام سے بچیوں کی حوالگی کے معاملے پر رابطے میں ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا متحدہ عرب امارات سے تو ہمارے نام نہاد برادرانہ تعلقات ہیں، وزارت خارجہ نے اب تک بچیوں کی واپسی کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ہم اتنے نااہل، نالائق اور پتھر دل لوگ ہیں، ہم یو اے ای کی اتنی خدمت کرتے ہیں، کتنی مجبوریاں ہیں ہماری کہ بچیاں واپس نہیں لا سکتے۔
انہوں نے کہا نام لینا نہیں چاہتا لیکن کیسے کیسے لوگ ہمارے سروں پر پیر رکھ کر بیٹھے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑتا ہے، بھارت بھی تیسرے درجے کا ہی ملک ہے مگر وہ اپنے شہریوں کے لیے کیا حشر کرتا ہے دوسرے ملکوں کا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا بچیوں کی واپسی پر کیے گئے تمام دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں، سیکریٹری صاحب آپ سینیئر بیوروکریٹ ہیں، مگر لگ رہا ہے آپ عدالت محض خانہ پوری کرنے آئے ہیں، ہمیں امید تھی کہ آپ بتائیں گے کس قانون کے تحت بچیاں واپس آسکتی ہیں۔
جسٹس مقبول باقر کے استفسار پر سیکریٹری خارجہ نے کہا وزارت خارجہ صرف رابطے کا ایک ذریعہ ہے، سفارتی سطح پر متحدہ عرب امارات سے کل بھی اجلاس کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ صوفیہ مرزا کی بچیوں کی واپسی کی درخواست پر سیکریٹری خارجہ طلب
جسٹس مقبول باقر نے کہا متحدہ عرب امارات کے حکام سے اجلاس میں کیا طے ہوا؟ اگر کوئی عزت دار ملک ہوتا تو متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کر چکا ہوتا، انٹرپول سے بچیوں کی واپسی پر کیا پیش رفت ہوئی؟
ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیتے ہوئے کہا انٹرپول صرف لوکیشن معلوم کر سکتا ہے، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بچیوں کی واپسی نا ہونے میں وزارت خارجہ اور داخلہ دونوں کی نااہلی تھی۔
اداکارہ صوفیہ مرزا نے عدالت سے استدعا کی کہ بچیوں کی واپسی کے لیے ٹیم تشکیل دے کر یو اے ای بھیجوائی جائے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا ٹیم تشکیل دے دی ہے، حکومت سے اپروول کے منتظر ہیں، ٹیم پہلے بھی گئی تھی، عدالتی حکم کے باوجود یو اے ای نے بچیوں کی حوالگی نہیں دی۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا وہ غیر مہذب لوگ ہیں انہیں عدالتی حکم سے کیا لینا دینا۔
عدالت نے ایف آئی اے کو بچیوں کی واپسی کے لیے ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا پیر تک وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، اور ایف آئی اے بچیوں کی واپسی کا مکمل لائحہ عمل تیار کرکے پیش کرے۔
عدالت نے کہا جن افسران نے بچیوں کی 12 سال سے واپسی پر غفلت برتی ان کی نشاندہی کریں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی۔